جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

كيا قربانى كا جانور خريدنے كے ليے قرض ليا جا سكتا ہے ؟

سوال

كيا قربانى كا جانور خريدنے كے ليے قرض حاصل كرنا ضرورى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سوال نمبر ( 36432 ) كے جواب ميں قربانى كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف بيان ہو چكا ہے كہ آيا قربانى واجب ہے يا كہ مستحب، آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" شرعى دلائل ميں كوئى ايسى دليل نہيں جو اس كے وجوب پر دلالت كرتى ہو، اور قربانى كے وجوب كا قول ضعيف ہے " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 18 / 36 ).

پھر جو علماء قربانى كے وجوب كے قائل ہيں انہوں نے بھى قربانى كے واجب ہونے كے ليے غنى اور مالدار ہونے كى شرط لگائى ہے.

ديكھيں: حاشيۃ ابن عابدين ( 9 / 452 ).

لہذا دونوں قولوں ـ واجب اور مستحب قول ـ كى بنا پر قربانى كا جانور خريدنے كے ليے قرض لينا واجب نہيں، كيونكہ قربانى مالدار ہونے كے بغير قربانى واجب نہيں ہوتى اس پر علماء كا اتفاق ہے.

يہاں ايك سوال باقى ہے كہ آيا كيا قرض حاصل كرنا مستحب بھى ہے يا نہيں ؟

اس كا جواب يہ ہے كہ:

قربانى كا جانور خريدنے كے ليے قرض حاصل كرنا مستحب ہے، ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ اگر اسے اميد ہو كہ وہ قرض واپس كر سكےگا، مثلا اگر كوئى شخص ملازم ہے اور اپنى تنخواہ آنے تك قرض حاصل كرلے، ليكن اگر اسے قرض كى ادائيگى كى اميد نہيں تو پھر اس كے ليے افضل و اولى يہى ہے كہ وہ قرض حاصل نہ كرے، كيونكہ وہ ايسى چيز كے ليے اپنے ذمہ قرض لے رہا ہے جو چيز اس پر واجب ہى نہيں ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے سوال كيا گيا:

اگر كوئى شخص قربانى كرنے كى استطاعت نہ ركھتا ہو تو كيا وہ قرض لے سكتا ہے ؟

شيخ الاسلام كا جواب تھا:

" اگر تو وہ قرض ادا كر سكتا ہو تو قرض حاصل كر كے قربانى كرے تو يہ بہتر اور اچھا ہے، ليكن اس كے ليے ايسا كرنا واجب اور ضرورى نہيں " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميہ ( 26 / 305 ).

اور شيخ الاسلام قربانى كے وجوب كے قائل ہيں.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال كيا گيا:

كيا استطاعت نہ ركھنے والے شخص پر قربانى كرنى واجب ہے ، اور كيا تنخواہ كى وجہ سے وہ قربانى كرنے كے ليے قرض حاصل كرسكتا ہے ؟

شيخ كا جواب تھا:

" قربانى كرنا سنت ہے واجب نہيں.... مسلمان شخص كو اگر علم ہو كہ وہ قرض كى ادائيگى كى استطاعت ركھتا ہے تو قربانى كے ليے قرض لينے ميں كوئى حرج نہيں ہے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 1 / 37 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب