جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

اپنے بچوں کی اچھی تربیت کیسے کرے؟

سوال

مجھے اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے بہت پریشانی ہے، اکثر اوقات میں غصے میں آ جاتا ہوں اور انہیں مارتا بھی ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ مجھے اس حوالے سے مشورہ دیں گے اور مجھے اس موضوع پر مفید کتب بھی بتلائیں گے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

بچوں کی تربیت والدین سے مطلوب اور بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے، اللہ تعالی نے اس کا حکم قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث مبارکہ میں دیا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ
 ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں۔ اس پر تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہیں۔ اللہ انہیں جو حکم دے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کچھ کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ [التحریم: 6]

امام طبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے اس آیت میں فرمایا: اے اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق کرنے والو! تم اپنے آپ کو بچاؤ، یعنی تم ایک دوسرے کو ایسی چیزیں سکھاؤ جن سے تم اپنے سکھائے ہوئے شخص کو جہنم سے بچا سکو، جب آپ کی سکھائی ہوئی اطاعت ِ الہی کی بات پر وہ عمل کرے تو آگ سے بچ جائے، اور خود بھی اطاعتِ الہی پر عمل پیرا رہو، پھر فرمایا: اور اپنے اہل خانہ کو بھی بچاؤ، یعنی انہیں بھی اطاعتِ الہی پر عمل کرنا سکھاؤ جس سے وہ خود اپنے آپ کو بھی جہنم سے بچا سکیں۔" ختم شد
" تفسیر طبری": ( 28 / 165 )

علامہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مقاتل رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ : یہ مکلف کا اپنے بارے میں بھی ذاتی فریضہ بنتا ہے، اور اسی طرح اپنی اولاد، اہل خانہ، غلام اور لونڈیوں کے بارے میں بھی اس کی یہی ذمہ داری ہے۔ علامہ الکیا ہراسی کہتے ہیں: ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اور اہل خانہ کو دین اور بھلائی والے امور سکھائیں، اور وہ سب کچھ بھی سکھائیں جن کے بغیر کوئی چارہ نہیں، یہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں مراد ہے: وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ترجمہ: اور اپنے اہل خانہ کو نماز کا حکم دیں اور اس پر ڈٹ جائیں۔[طہ: 132] اسی طرح اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیتے ہوئے فرمایا: وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ترجمہ: اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کریں۔[الشعراء: 214] ایسے ہی حدیث مبارکہ میں ہے کہ: (اپنے بچوں کو جب سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دو)" ختم شد
" تفسیر قرطبی" ( 18 / 196 )

اللہ تعالی کی طرف دعوت دینا مسلمان کا شیوہ ہے، چنانچہ سب سے پہلے جن لوگوں کو مسلمان دعوت الی اللہ دے وہ اس کے اپنے بچے اور اہل خانہ ہونے چاہییں جو اس کے ساتھ ہی رہتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالی نے جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دعوت دینے کا مکلف بنایا تو سب سے پہلے فرمایا: وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ترجمہ: اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کریں۔[الشعراء: 214] کیونکہ یہی لوگ انسان کے اچھے برتاؤ، خلوص اور حسن اخلاق کے سب سے پہلے حقدار بنتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی بچوں کی تربیت کا خیال رکھنے کی ذمہ داری والدین پر ڈالی ہے اور ان سے بچوں کی تربیت کا مطالبہ بھی کیا ہے، جیسے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، آپ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (تم میں سے ہر ایک شخص ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا، چنانچہ حکمران بھی ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ہر مرد اپنے اہل خانہ کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت بھی اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے ، اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا، خادم بھی اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ -راوی کہتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ- آدمی اپنے والد کی دولت کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ لہذا تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔) اس حدیث کو بخاری: (853) اور مسلم: (1829) نے روایت کیا ہے۔

آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بچپن سے ہی اللہ اور اس کے رسول سے محبت پر بچوں کی تربیت کریں، اسلامی تعلیمات کے ساتھ ان کا دل لگائیں، اور انہیں بتلائیں کہ اللہ تعالی کی جنت اور جہنم ہے، اور اس جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر بنیں گے، ذیل میں آپ کو واقعہ بتلاتے ہیں جو کہ بہت عبرت والا ہے:

ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایک بادشاہ کی بہت زیادہ دولت تھی اور اس کی ایک ہی بیٹی تھی اس کے علاوہ اس کی کوئی اولاد نہ تھی، بادشاہ کو اپنی اس اکلوتی بیٹی سے بہت زیادہ پیار تھا، بادشاہ نے اپنی بیٹی کو ہمہ قسم کی آسائشیں فراہم کی ہوئیں تھیں، کافی عرصہ اسی طرح بیت گیا، اسی بادشاہ کے پڑوس ہی میں ایک عبادت گزار شخص بھی رہتا تھا، ایک رات وہ نیک شخص قیام اللیل کر رہا تھا کہ اس نے بلند آواز سے یہ آیت کریمہ پڑھی: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ  

 ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ [التحریم: 6]
بادشاہ کی بیٹی نے ان آیات کی تلاوت سنی تو اپنی خادماؤں کو کہنے لگی: "بچو!!! لیکن وہ بچتے ہی نہیں!" ادھر یہ شخص یہی آیات بار بار دہرانے لگا: اور یہاں شہزادی اپنی خادماؤں کو کہتی جا رہی ہے: "بچو! !!لیکن وہ بچتے ہی نہیں!" آخر کار شہزادی نے اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالا اور سینہ چاک کر دیا، صبح ہونے پر شہزادی کو بادشاہ کے پاس لے گئے اور بادشاہ کو رات کی ساری کار گزاری سنائی۔ اس پر بادشاہ شہزادی سے مخاطب ہوا اور پوچھنے لگا: میری پیاری شہزادی ، آپ کو رات کیا ہو گیا تھا؟ آپ کیوں رو رہیں تھیں؟ بادشاہ نے اپنی شہزادی بیٹی کو گلے لگایا، تو شہزادی بول اٹھی۔ ابا جان! میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں؟ کیا اللہ تعالی کی جہنم بھی ہے جس کا ایندھن لوگ اور پتھر بنیں گے؟ بادشاہ نے کہا: جی بیٹا ہے۔ تو شہزادی کہنے لگی: ابا جان پھر آپ نے مجھے یہ بات کبھی کیوں نہیں بتلائی؟ اللہ کی قسم! میں اس وقت تک اچھا کھانا نہیں کھاؤں گی اور نہ ہی کسی نرم گرم بستر پر آرام کروں گی جب تک مجھے جنت یا جہنم میں اپنے ٹھکانے کا علم نہ ہو جائے۔" ختم شد
" صفوة الصفوة " ( 4 / 437-438 )

آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ انہیں برائی اور بے حیائی کی جگہوں سے دور رکھیں، انہیں ٹیلی ویژن اور اسی طرح کی دیگر چیزوں کے منفی اثرات سے متاثر نہ ہونے دیں کہ بعد میں آپ ان کی اصلاح کرتے پھریں؛ کیونکہ کانٹوں کی فصل بونے سے انگور حاصل نہیں ہوتے، پھر بچپن میں بہت سی چیزوں کی عادت ڈالنا بہت آسان ہوتا ہے ، بچپن میں انہیں کسی کام کا حکم دینا اور کسی کام سے روکنا آسان ہوتا ہے، بچے آپ کی بات بھی آسانی سے مان لیتے ہیں۔

جیسے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز ادا کرنے کا کہو، اور نماز پڑھانے کے لیے انہیں دس سال کی عمر میں مارو، اور ان کے بستر الگ الگ کر دو۔) ابو داود: (495)

اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع: (5868) میں صحیح قرار دیا ہے۔

تاہم تادیبی کاروائی کرتے ہوئے مربی شخص کو انتہائی مشفق، رحیم اور بردبار ہونا چاہیے، انتہائی غصیلا اور بد گو نہیں ہونا چاہیے کہ اچھے انداز کے ساتھ بچے سے بات کرے، مار پیٹ ، گالم گلوچ اور زد و کوب کا شیدائی نہ ہو۔ البتہ اگر بچہ جان بوجھ کر آپ کی بات نہیں مانتا، والد کی باتوں پر ضد کرتا ہے، جو کام بھی کہو تو پروا نہیں کرتا، حرام کاموں میں ملوث ہوتا ہے، تو ایسے میں بہتر ہے کہ اس کے ساتھ سختی کی جائے لیکن ایسی نہ ہو کہ اس کے جسم کو نقصان پہنچے۔

مناوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
آدمی اپنے بچے کو تب سے جسمانی سزا دے جب وہ بدنی اور عقلی دونوں اعتبار سے انہیں سمجھتا ہو اور برداشت بھی کر سکے، نیک لوگوں کی راہ پر چلانے کے لیے نیک لوگوں کی اخلاقیات کے متعلق بچوں کو بتلائے، خراب بچوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے روکے ، قرآن، ادب، اور زبان سکھائے، سلف صالحین کے اقوال اور طرزِ زندگی ان کے سامنے رکھے، انہیں دین کے وہ تمام احکامات سکھائے جن کا جاننا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، غلط کام کرنے پر پہلے صرف ڈانٹے اور دوبارہ کرنے پر مارے، مثلاً: نماز وغیرہ ترک کرنے پر سختی کرے۔ یہ سختی اس کے لیے ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے؛ کیونکہ بچے پر تادیبی کار روائی کرنے سے اگر بچہ سدھر جاتا ہے تو اس کے سارے نیک افعال مربی کے لیے صدقہ جاریہ بن جائیں گے، جبکہ ایک صاع صدقہ کرنے کا اجر تو منقطع ہو جائے گا، جبکہ بچے کی اچھی تربیت دائمی اجر و ثواب کا باعث بنے گی۔ در حقیقت اچھی تربیت روح کی غذا اور آخرت کی تیاری ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا ترجمہ: اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچاؤ۔[التحریم: 6] چنانچہ اگر آپ جہنم سے اپنے آپ اور اپنے بچوں کو بچانا چاہتے ہیں تو انہیں آگ میں لے جانے والے تمام کاموں سے روکیں، اور اگر ان میں سے کسی میں کوئی اکڑ پیدا ہو رہی ہو تو اس کو سزا بھی دیں، چنانچہ مؤدب بنانے کے لیے سمجھانا، دھمکانا، ڈرانا، مارنا، باندھ دینا مؤثر ذرائع ہیں، اسی طرح تحفہ دینا، حوصلہ افزائی کرنا، تعریف کرنا بھی مؤثر ذرائع ہیں؛ کیونکہ اڑیل مزاج اور شریف النفس دونوں کی تربیت یکساں انداز سے نہیں ہوتی۔

" فيض القدير " ( 5 / 257 )

یہ بات واضح رہے کہ مارنے کی اجازت بچے کو سدھارنے کے لیے مار بذات خود مطلوب نہیں ہے؛ چنانچہ مارنے کی ضرورت تب پڑتی ہے جب بچہ ضد کر جائے اور نافرمانی پر اتر آئے۔

شریعت نے بھی اسلام میں سزا کا تصور رکھا ہے، جیسے کہ زانی ، چور، اور تہمت لگانے والے کی سزا اور دیگر جسمانی سزائیں ہیں، یہ سب کی سب لوگوں کو سیدھا رکھنے اور سدھارنے کے لیے شریعت میں شامل کی گئی ہیں کہ لوگ برائی کی طرف نہ جائیں۔

اور اسی تناظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے والد کو نصیحت فرمائی کہ بچوں کو برائی سے روکنے کے لیے یہ کام کرو، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ڈنڈا ایسی جگہ لٹکاؤ جہاں سب گھر والوں کو نظر آئے، یہ انہیں ادب سکھانے کا ذریعہ ہو گا۔)
اس حدیث کو طبرانی ( 10 / 248 )نے روایت کیا ہے، اور اسی حدیث کو ہیثمی رحمہ اللہ نے " مجمع الزوائد " ( 8 / 106 ) میں حسن قرار دیا ہے جبکہ علامہ البانی نے بھی اسے صحيح الجامع ( 4022 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے۔

مذکورہ بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ بچوں کی تربیت ، ترغیب اور ترہیب دونوں سے ہو گی، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ماحول کا اچھا ہونا ضروری ہے جہاں بچے رہتے ہیں، والدین دونوں ہی شرعی تعلیمات کا خود التزام کریں اور بچوں کے لیے رشد و ہدایت کے تمام اسباب مہیا رکھیں۔

بچوں کی تربیت کے لیے معاون چیزوں میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ ریکارڈ شدہ قرآن کریم کی تلاوت، اہل علم کے دروس، اور تقاریر وغیرہ بچوں کو سنائیں ۔

اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے جن کتابوں کے متعلق آپ نے پوچھا ہے ، تو ہم آپ کو درج ذیل کتابیں پڑھنے کی نصیحت کریں گے:

"تربية الأطفال في رحاب الإسلام " از : محمد حامد الناصر / خولة عبد القادر درويش

"كيف يربي المسلم ولدَه "از: محمد سعيد المولوي

"تربية الأبناء في الإسلام " از : محمد جميل زينو

"كيف نربي أطفالنا " از : محمود مهدي الإستانبولي

"مسئولية الأب المسلم في تربية الولد" از: عدنان با حارث

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب