منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

علی رضي اللہ تعالی کے لیے کرم اللہ وجھہ کی تخصیص کا حکم

10136

تاریخ اشاعت : 11-05-2003

مشاہدات : 7649

سوال

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ کے بارہ میں کرم اللہ وجھہ کا کلمہ بہت زياد سنتے اورپڑھتے ہیں توکیا اس کلمے کااطلاق علی رضي اللہ تعالی پرصحیح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی اپنی تفسیرمیں لکھتے ہیں :

بہت ساری عبارتوں میں غالب طورپر کاتب باقی سب صحابہ رضی اللہ عنہم کوچھوڑ کر صرف علی رضي اللہ تعالی عنہ کے لیے علیہ السلام یا پھر کرم اللہ وجھہ کی عبارت استعمال کرتے ہیں جومعنی کے اعتبارسے توصحیح ہے لیکن اس جیسی عبارات میں سب صحابہ کرام کے درمیان مساوات و برابری کرنی ضروری ہے ، کیونکہ یہ صرف تعظیم وتکریم کے لیے استعمال کی جاتی ہے ، توابوبکراورعمرفاروق اورامیرالمومنین عثمان رضي اللہ تعالی عنہ علی رضي اللہ تعالی عنہ سے اس کے زيادہ مستحق ہیں ، اللہ تعالی ان سب سے راضي ہو ا ھـ ۔تفسیر ابن کثير ( 3 / 617 ) ۔

ذیل میں ہم لجنہ دائمہ (مستقل اسلامی ریسرچ کمیٹی ) کے سامنے پیش کیا گيا سوال اوراس کا جواب پیش کرتے ہیں :

علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ کوکرم اللہ وجھہ کا لقب کیوں دیا گيا ؟

لجنہ دا‏ئمہ کا جواب تھا :

علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ کو کرم اللہ وجھہ کا لقب دینا اورپھر صرف اس کی تخصیص صرف انہیں کے ساتھ کرنا شیعہ کے غلوکی بنا پر ہے ، اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی کسی شرمگاہ پرنگاہ نہیں ڈالی اورنہ ہی کبھی کسی بت کے سامنے سجدہ ریزہوۓ اس وجہ سے انہیں کرم اللہ وجھہ کہا جاتا ہے ۔

تویہ صرف علی رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ اس میں اوربھی صحابہ شریک ہیں جو کہ ظہوراسلام کے بعد پیدا ہوۓ اورمسلمان ہی پیدا ہوۓ ۔ ا ھـ ۔

دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائـمۃ ( 3 / 289 )

اوربعض کا کہنا ہے کہ : علی رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ کرم اللہ وجھہ کی تخصیص اس لیے کی گئ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی بت کوسجدہ نہیں کیا ۔

میں کہتا ہوں : اسے تورافضہ جو کہ علی - رضي اللہ تعالی عنہ - اورپاکباز گروہ - کے دشمن ہیں نے اس کلمہ کومقرر کیا ہے ، تواہل بدعت کے مقابلہ میں کوئ ممانعت نہیں ۔ واللہ تعالی اعلم ۔

یہ لوگ اس عبارت کی کئ ایک تاویلیں کرتے ہیں جن میں سے چند ایک ذکر کی جاتی ہیں :

اس لیے کہ کسی کی بھی شرمگاہ پر نظرنہیں دوڑائ ۔

اس لیے کہ کبھی کسی بت کے سامنے سجدہ ریزنہیں ہوۓ ، اوریہ ایک ایسی چيزہے جس میں کئ ایک صحابہ جوکہ اسلام میں پیدا ہوۓ بھی شریک ہیں ، یہ بھی علم ہونا چاہيۓ کہ اس میں کوئ بھی علت بیان کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی ثبوت کے ساتھ کی جاۓ ۔

تنبیہ :

مسنداحمد میں ابو سعید خدری رضي اللہ تعالی عنہ سے ایک روایت بیان کی گئ ہے جس میں ہے کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا پکڑکر ہلایا اورفرمانے لگے کون ہے جواسے اس کے حق کےساتھ پکڑے ؟ توفلان نے آکرکہا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پیچھے ہٹ جاؤ‎ پھرایک اورآدمی آیا تواسے بھی کہا پیچھے ہوجاؤ ، پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوش کردیا ایسا آدمی جوفرار اختیارنہیں کرتا اے علی رضي اللہ تعالی عنہ یہ لو ۔۔ الحدیث ۔

اورسلمہ بن اکوع رضي اللہ تعالی عنہ کی مسند میں ایک طویل حدیث ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوکہا گيا ۔

اورایس طرح بعض احادیث کے سیاق میں جب علی رضي اللہ تعالی عنہ کیاذکرآۓ توآپ ان کے اس قول کرم اللہ وجھہ کوبھی دیکھیں گے ۔

ہم تو اس کے متعلق کوئ بھی مرفوع حدیث اور نہ ہی کسی صحابی کا قول ہی جانتے ہیں ، ممکن ہے یہ صرف نقل کرنے والوں کی طرف سے لکھا گیا ہو ۔ ا ھـ ۔

واللہ تعالی اعلم

دیکھیں کتاب : معجم المناھی اللفظیۃ للشيخ بکرابوزيد ( ص 454 ) .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد