جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

وحدتِ ادیان کی دعوت دینے کا حکم

سوال

وحدتِ ادیان کی دعوت دینے کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

"تمام تعریفیں صرف ایک اللہ  کیلیے ہیں، درود و سلام ہوں ان پر جن کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، اسی طرح ان کی آل، صحابہ کرام اور ان کے نقش قدم پر دل جمعی کے ساتھ روزِ قیامت تک چلنے والوں پر، حمد و صلاۃ کے بعد:
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و فتاوی نے کمیٹی کی جانب بھیجے گئے سوالات دیکھے ، اسی طرح مختلف ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی آرا اور مقالہ جات بھی پرکھے  ان تمام کا موضوع "وحدتِ ادیان کی دعوت" تھا ، یعنی: دینِ اسلام، یہودیت اور عیسائیت کو آپس میں ضم کر دیا جائے، اسی طرح اس دعوت کا ذیلی مطالبہ یہ بھی تھا کہ یونیورسٹیوں اور عوامی جگہوں میں مسجد، کلیسا اور شُوَل [یہودی عبادت گاہ] ایک ہی چار دیواری میں بنائی جائیں، قرآن کریم، تورات اور انجیل ایک ہی غلاف میں طبع ہوں، اس دعوت کے اور بھی دیگر  مطالبے ہیں، اس دعوت کو پھیلانے کیلیے مشرق و مغرب میں کانفرنسیں، سیمینار اور اجتماعات منعقد کئے جاتے ہیں، غور و فکر اور مطالعہ کے بعد کمیٹی اس دعوت کے بارے یہ فیصلہ کرتی ہے:

اول:

اسلامی عقائد کی بنیادی کڑی اور مسلمہ طور پر مشہور و معروف بات یہ ہے  جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع بھی ہے کہ: روئے زمین پر اسلام کے علاوہ کوئی دین حق نہیں ہے،اسلام  تمام ادیان  کیلیے خاتم الادیان ہے، اور یہ کہ اسلام نے اپنے سے پہلے تمام ادیان، ملتوں اور شریعتوں کو منسوخ کر دیا ہے، اس لیے روئے زمین پر اسلام کے علاوہ کوئی ایسا دین نہیں ہے جس کے ذریعے اللہ تعالی کی عبادت ممکن ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
ترجمہ: آج میں نے  تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا ہے۔[المائدة: 3]

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
ترجمہ:  اور جو بھی اسلام کے علاوہ دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا۔[آل عمران: 85]

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اسلام وہی دین ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے کر بھیجا گیا اس کے علاوہ کوئی بھی دین اسلام نہیں ہے۔

دوم:

اسلام کے  بنیادی عقائد میں سےیہ بھی ہے کہ کتابِ الہی: "قرآن کریم" رب العالمین کی جانب سے نازل ہونے والی آخری کتاب  ہے ، قرآن کریم نے اس سے پہلے نازل ہونے والی تمام کتابوں کو منسوخ کر دیا ہےچاہے وہ تورات ، زبور، یا انجیل  وغیرہ کوئی بھی کتاب ہو، قرآن کریم سابقہ کتابوں کا امین  ہے، چنانچہ قرآن کریم کے علاوہ کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس کے ذریعے اللہ تعالی کی بندگی کی جا سکے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ
ترجمہ: اور ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب حق کے ساتھ بھیجی، اس حال میں کہ اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور ان پر محافظ ہے، پس ان کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے نازل کیا اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے اس سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کریں ۔[المائدة: 48]

سوم:

تورات اور انجیل کے بارے میں یہ ایمان لانا واجب ہے کہ قرآن مجید نے انہیں منسوخ کر دیا ہے، نیز ان میں تحریف، تبدیلی اور کمی بیشی کی گئی ہے، جیسے کہ قرآن مجید میں اس کے متعلق آیات موجود ہیں، مثال کے طور پر فرمانِ باری تعالی ہے:
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَى خَائِنَةٍ مِنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ
ترجمہ: پھر انہوں نے اپنے عہد کو توڑ ڈالا لہذا ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کردیئے ، وہ کتاب اللہ کے کلمات کو ان کے موقع و محل سے بدل ڈالتے ہیں اور جو ہدایات انہیں دی گئی تھیں انکا اکثر حصہ بھول چکے ہیں۔ اور ماسوائے چند آدمیوں کے تم کو آئے دن انکی خیانتوں کا پتہ چلتا رہے گا۔ [المائدة: 13]

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ
پس ہلاکت اور تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کر لیں ،ان کے ہاتھوں کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجب ہلاکت ہے۔[البقرۃ: 79]

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
ترجمہ: یقیناً ان میں ایسا گروہ بھی ہے جو کتاب پڑھتے ہوئے اپنی زبان مروڑتا ہے تاکہ تم اسے کتاب ہی کی عبارت خیال کرو حالانکہ دراصل وہ کتاب میں سے نہیں، اور یہ کہتے بھی ہیں کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے حالانکہ دراصل وہ اللہ کی طرف سے نہیں، وہ تو دانستہ اللہ تعالی پر جھوٹ بولتے ہیں ۔[آل عمران: 78]

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جو کچھ ان میں صحیح   سلامت ہے اسے اسلام نے منسوخ کر دیا ہے، اور بقیہ تمام چیزیں تحریف شدہ یا تبدیل ہو کر سلامتی کھو چکی ہیں، یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  کو ایک صحیفہ تھامے ہوئے دیکھا جس میں تورات کی کچھ تحریر تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ابن خطاب !کیا میرے بارے میں  شک ہے ؟ کیا میں روزِ روشن کی طرح عیاں شریعت لے کر نہیں آیا؟! اگر میرے بھائی موسی بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری ہی اتباع کرنا ہوتی)" اس روایت کو احمد اور دارمی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔

چہارم:

اسلام کے بنیادی عقائد میں سے یہ بھی ہے کہ ہمارے نبی  اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی نے اس چیز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ
ترجمہ: محمد تم میں سے کسی مرد کے والد نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین  ہیں ۔ [الأحزاب: 40]
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی ایسا رسول باقی نہیں بچتا جس کی اتباع کرنا واجب ہو، بلکہ اگر کوئی نبی اس وقت زندہ ہوتے تو انہیں بھی صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اتباع کرنی پڑتی، نیز ان کے پیروکاروں پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اتباع لازمی ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ
ترجمہ: اور جب اللہ تعالی نے تمام انبیاء سے یہ عہد لیا کہ اگر میں تمہیں کتاب و حکمت عطا کروں پھر کوئی ایسا رسول آئے جو اس کتاب کی تصدیق کرتا ہو جو تمہارے پاس ہے تو تمہیں اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنا ہوگی۔ اللہ تعالی نے (یہ حکم دے کر نبیوں سے) پوچھا ؟ کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو ؟ اور میرے اس عہد کی ذمہ داری قبول کرتے ہو ؟" نبیوں نے جواب دیا : "ہم اس کا اقرار کرتے ہیں "تو اللہ تعالی نے فرمایا : " تو اب تم اس بات پر گواہ رہو اور میں خود بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں "[آل عمران: 81]

چنانچہ اللہ تعالی کے نبی عیسی علیہ السلام بھی جس وقت آخری زمانے میں نازل ہوں گے تو وہ بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اتباع کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو ہی نافذ کریں گے، فرمانِ باری تعالی ہے:
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
ترجمہ: جو لوگ اس رسول کی پیروی  کرتے ہیں جو نبی اُمّی ہے، جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ رسول انہیں نیکی کا حکم دیتا اور برائی  سے روکتا ہے، ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور گندی چیزوں  کو حرام کرتا ہے، ان کے بوجھ ان پر سے اتارتا ہے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے  تھے۔ لہذا جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کی حمایت اور مدد کی اور اس روشنی کی پیروی کی جو اس کے ساتھ  نازل کی گئی ہے تو یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں   [الأعراف: 157]

اسی طرح یہ بھی دین اسلام کا بنیادی ترین عقیدہ ہے کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تمام لوگوں کیلیے ہوئی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا
ترجمہ:  آپ کہہ دیں: لوگو! میں تم سب کیلیے اللہ کا رسول ہوں ۔[الأعراف: 158]

پنجم:

اسلام کا بنیادی اصول ایک مسلمان پر یہ واجب کرتا ہے کہ اسلام قبول نہ کرنے والے یہود و نصاری اور دیگر افراد کو کافر سمجھے، اور جن کے بارے میں اتمام حجت ہو چکا ہے انہیں کافر سے موسوم کرے، انہیں یہ سمجھے کہ وہ اللہ ، اللہ کے رسول اور مومنوں کے  دشمن ہیں، نیز وہ جہنمی  ہیں ، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ
ترجمہ: اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے وہ کفر سے باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس روشن دلیل نہ آ جائے [البینۃ: 1]

اسی طرح اسی سورت میں فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أُولَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ
ترجمہ:  اہل کتاب اور مشرکین میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے یقیناً وہ جہنم کی آگ میں داخل کیے جائیں گے، اور اس میں ہمیشہ رہیں گے، یہ لوگ بدترین مخلوق ہیں [البینۃ: 6]

ایک اور مقام پر فرمانِ باری تعالی ہے:
وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ
ترجمہ: اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں ۔[الأنعام: 19]

ایسے ہی فرمایا:
هَذَا بَلَاغٌ لِلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوا بِهِ
ترجمہ: یہ قرآن  تمام لوگوں کے لئے اطلاع نامہ ہے کہ اس کے ذریعے سے وہ ہوشیار کر دیئے جائیں  ۔[ابراہیم: 52] اس بارے میں اس کے علاوہ بھی بہت سی آیات ہیں ۔

صحیح مسلم میں  ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس امت میں سے کوئی بھی میرے بارے میں سنے چاہے وہ یہودی ہو یا عیسائی، اور پھر وہ مجھے دی گئی شریعت پر ایمان لائے بغیر مر جائے تو وہ جہنمی ہو گا)

اس لیے جو شخص یہود و نصاری کو کافر نہیں سمجھتا وہ بھی کافر ہے؛ کیونکہ شرعی قاعدہ ہے کہ : "جو کسی کافر کو اتمام حجت کے بعد بھی کافر نہیں سمجھتا تو وہ خود بھی کافر ہے"

ششم:

ان بنیادی عقائد اور شرعی حقائق کے سامنے وحدتِ ادیان کی دعوت ، ادیانِ عالم میں قرابتیں بڑھانے کی کوششیں اور انہیں ایک ہی رنگ میں رنگنے کی مساعی خبیث اور مکر و فریب سے بھری ہوئی چالیں ہیں، ایسی دعوت کا مقصد حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ کرنا ، اسلام کا جڑ سے خاتمہ، اور تمام مسلمانوں کو یک بارگی مرتد کرنا  ہے، اس دعوت پر تو اللہ تعالی کا یہ فرمان صادق آتا ہے کہ:
وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا
ترجمہ:  یہ لوگ تم سے لڑائی بھڑائی کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہو سکے تو تمہیں تمہارے دین سے مرتد کر دیں [البقرة: 217]

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً
ترجمہ: وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ویسے ہی کافر ہوجاؤ جیسے وہ خود ہوئے ہیں تاکہ سب برابر ہو جائیں۔ [النساء: 89]

ہفتم:

گناہوں سے لت پت اس دعوت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اسلام اور کفر کے مابین فرق ہی ختم ہو جائے، حق اور باطل میں ، نیکی اور بدی میں امتیاز باقی نہ رہے، مسلمانوں اور کافروں کے درمیان منافرت نہ ہو، دوستی اور دشمنی کا خاتمہ ہو جائے، روئے زمین پر کلمۃ اللہ کی سربلندی کیلیے کسی قسم کا جہاد اور قتال  نہ  ہو، حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ
ترجمہ:  اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں  نہ آخرت کے دن پر، نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے ان پر حرام کی ہیں اور نہ ہی دین حق کو  اپنا دین بناتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور چھوٹے بن کر رہنا گوارا کر لیں ۔[التوبہ: 29]

ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
ترجمہ: اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو، جیسے وہ تم سے مل کر لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے  [التوبہ: 36]

ایسے ہی فرمایا:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَاعَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ
ترجمہ:  اے ایمان والو ! اپنے سوا کسی غیر مسلم کو اپنا راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری خرابی کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ ان کی دشمنی ان کی زبانوں پر بے اختیار آ جاتی ہے اور جو کچھ وہ اپنے دلوں میں چھپائے بیٹھے ہیں وہ اس سے  شدید تر ہے۔ بیشک ہم نے تمھارے لیے آیات کھول کر بیان کر دی ہیں، اگر تم سمجھتے ہو۔ [آل عمران: 118]

ششم:

اگر وحدتِ ادیان کی دعوت کوئی مسلمان دے تو یہ اس مسلمان کے مرتد ہونے کی صریح دلیل ہو گی؛ کیونکہ یہ دعوت بنیادی اسلامی عقائد سے متصادم ہے، اس دعوت میں اللہ تعالی کے ساتھ کفر کرنے کے متعلق رضا مندی ہے، اس سے قرآن کریم کی صداقت  اور سابقہ تمام شریعتوں اور ادیان کی قرآن کے ذریعہ منسوخی کالعدم ہوتی ہے، لہذا یہ دعوت شرعی طور پر مسترد ہے، اور  قرآن و سنت سمیت اجماع کے ذریعے بھی تمام دلائل کی رو سے قطعی طور پر حرام ہے ۔

نہم:

جو تفصیلات پہلے گزر چکی ہیں ان کی بنا پر:

1-             جو کوئی بھی مسلمان اللہ تعالی کو اپنا پروردگار مانتا ہے، اسلام کو اپنا دین جانتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی اور رسول مانتا ہے اس کیلیے اس گناہ بھری  دعوت  کی طرف بلانا جائز نہیں ہے، اس فکر کی حوصلہ افزائی کرنا اور اسے مسلمانوں کے مابین عام کرنا درست نہیں ہے، چہ جائیکہ اسے قبول کرے اور ایسی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں جائے اور اس سے متعلقہ مجلسوں کی زینت بنے۔

2-             کسی مسلمان کیلیے تورات اور انجیل کی الگ سے طباعت کرنا جائز نہیں ہے، تو ایک ہی جلد میں قرآن مجید کے ساتھ اسے طبع کرنا کیسے جائز ہو گا؟! لہذا ایسی بات کرنے والا واضح اور دور کی گمراہی میں ہے؛ کیونکہ اس طرح حق بات یعنی قرآن کریم اور تبدیل شدہ یا منسوخ کتاب (تورات اور انجیل)کو  یکجا کرنا لازم آئے گا۔

3-             اسی طرح کسی بھی مسلمان کیلیے ایک ہی چار دیواری میں مسجد، کلیسا اور شول بنانے کی حمایت کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس سے بہت سی باتوں کا اعتراف لازم آئے گا مثلا  دینِ اسلام کے بغیر اللہ کی بندگی کا جواز، دین اسلام کے تمام ادیان سے سچے  اور سُچے ہونے کی نفی، تین ادیان کی صورت میں مادی دعوت کا اعتراف ،  روئے زمین پر تمام لوگوں کے لئے  ان میں سے کسی ایک کی پیروی کا جواز، تمام ادیان کی یکسانیت،اور یہ کہ  اسلام نے سابقہ ادیان کو منسوخ نہیں کیا۔ اور اس بات میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ ایسے نظریات کا اقرار یا انہیں پر راضی ہونا کفر اور گمراہی ہے؛ کیونکہ یہ قرآن کریم، سنت مطہرہ، اور مسلمانوں کے اجماع کی کھلی مخالفت ہے، اور اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی طرف سے کی جانے والی تحریفیں بھی منزّل من اللہ ہیں، -اللہ تعالی ایسے بہتانوں سے پاک ہے- اسی طرح کلیسا کو اللہ کا گھر کہنا بھی جائز نہیں ہے، یا یہ سمجھنا کہ اہل کلیسا اس میں اللہ تعالی کی صحیح عبادت کرتے ہیں جو کہ اللہ تعالی کے ہاں مقبول بھی ہوتی ہے، کیونکہ ان کی عبادات دین اسلام کی روشنی میں نہیں ہیں [اس لیے ان کی عبادات نہ تو صحیح ہیں اور نہ ہی اللہ کے ہاں مقبول ہیں] اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
ترجمہ:  اور جو بھی اسلام کے علاوہ دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا۔[آل عمران: 85]

بلکہ کلیسا ایسے گھر  ہیں جن میں اللہ تعالی کے ساتھ کفر کیا جاتا ہے -اللہ تعالی ہمیں کفر اور کفار سے اپنی پناہ  میں رکھے- اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى"  ( 22/162 ) میں کہتے ہیں:
"کلیسا اور یہودیوں کے معبد خانے اللہ کے گھر نہیں ہیں، اللہ کے گھر صرف مساجد ہیں، یہ تو ایسے گھر ہیں جن میں اللہ تعالی کے ساتھ کفر کیا جاتا ہے، اگرچہ ان میں اللہ کا نام بھی لیا جاتا ہے، لیکن گھر کا درجہ اہلیان گھر کے مطابق ہوتا ہے، اب چونکہ ایسے گھروں کے اہلیان ہی کافر ہیں تو یہ گھر بھی کفار کی عبادت گاہیں ہیں" انتہی

دہم:

یہ بات جاننابھی  ضروری ہے کہ تمام کفار کو اسلام کی دعوت دینا اور خصوصی طور پر اہل کتاب کو اسلام کی دعوت دینا مسلمانوں کیلیے واجب اور ضروری ہے، اس بارے میں کتاب و سنت کی نصوص واضح اور صریح ہیں، اور یہ بھی کہ اس کیلیے طریقہ کار اچھا اور بہترین ہونا چاہیے، تاہم غیر مسلموں کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کیلیے اسلام کے کسی بھی حکم سے دستبرداری روا نہیں رکھی جا سکتی، بہترین طریقہ اپنانے کی وجہ یہ ہے کہ ہم  انہیں اسلام کے بارے میں مکمل اطمینان دے سکیں یا ان پر اتمام حجت کر سکیں تا کہ کوئی تباہ ہو تو دلیل کی بنیاد پر اور زندگی پائے تو بھی دلیل کی بنیاد پر، فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ يَاأَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ
ترجمہ: تم کہہ دو کہ اے اہل کتاب ! ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے کہ ہم اللہ تعالی کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں اور نہ اللہ تعالی کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو آپ فرما دیں کہ گواہ رہنا ہم تو مسلمان ہیں۔ [آل عمران: 64]

لیکن ان سے بحث مباحثہ کرنا ، ان سے گفتگو اور بات چیت کرتے ہوئے ان کی مرضی کے مطابق  ڈھل جانا، ان کے اہداف پورے کرنے کیلیے آلہ کار بن جانا، یا اسلام کے احکامات اور ایمان کی گرہیں ایک ایک کر کے توڑتے جانا  اللہ تعالی اور اس کے رسول کے ہاں، اسی طرح مومنوں کے ہاں بالکل قابل قبول نہیں ہے،  ایسے لوگوں کی کارکردگی پر  اللہ تعالی سے ہی مدد طلب کرتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ
ترجمہ: اور ان سے ہوشیار رہیے کہ کہیں یہ آپ کو اللہ کے اتارے ہوئے کسی حکم سے ادھر ادھر نہ کریں ۔ [المائدة: 49]
دائمی فتوی کمیٹی مذکورہ بالا تحریر کو حتمی شکل دیتے ہوئے  لوگوں کے سامنے اسے بیان کرنے کے  ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں کو بالعموم ،جبکہ اہل علم کو بالخصوص اللہ کا تقوی اختیار کرنے اور اس کی مراقبت میں رہنےکی تلقین کرتی ہے، اور اسی طرح تحفظِ اسلام، مسلمانوں کے عقیدے کو کج روی اور گمراہیوں سے ، کفریہ امور اور کفار سے محفوظ کرنے کی ترغیب دلاتی ہے، اور تمام مسلمانوں کو اس فکری دعوت سے خبردار بھی کرتی ہے۔" انتہی

واللہ اعلم.

ماخذ: "دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و فتاوی"