منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

والد ملازمت كے ليے باہر بھيجنا چاہتا ہے اور بيوى بيوى نہ جانے پر اصرار كرتى ہے

102538

تاریخ اشاعت : 03-05-2013

مشاہدات : 5590

سوال

ميرى نو ماہ قبل شادى ہوئى اور ميں شادى سے ليكر باہر ملازمت كے ليے جانے تك بيوى كے ساتھ ہى رہا ہوں، چار ماہ قبل جب آنے لگا تو بيوى نے اعتراض كيا اور ہر طرح سے مجھے آنے سے روكنے كى كوشش بھى كى ليكن كوئى فائدہ نہ ہوا، الحمد اللہ ہم آپس ميں ايك دوسرے سے محبت كرتے اور افہام و تفہيم كى فضا ركھتے ہيں.
ميں نے آتے وقت اسے مطمئن كرنے كى كوشش كى كہ وہاں جاتے ہيں سيٹ ہو كر رہائش تلاش كر كے تمہيں بھى بلا لوں گا، ليكن مجھے كوئى مناسب رہائش نہيں ملى، كيونكہ يہاں كرائے بہت زيادہ ہيں حتى كہ ميرى تنخواہ نصف ماہ كے ليے بھى كافى نہيں.
جب بيوى كو ان حالات كا علم ہوا تو وہ مجھے موبائل ميسج كرنے لگى اور اس كے ساتھ دل كے آنسو بھى بہانے لگى كہ دل جدائى سے جل رہا ہے تم جتنى جلد ہو سكے واپس آ جاؤ ليكن دوسرى طرف ميرے والد صاحب مجھے كہتے ہيں كہ وہيں رہو تا كہ پيسہ كما كر بھائى كى شادى ميں تعاون كر سكو.
اب صورت حال يہ ہو چكى ہے كہ بيوى روزانہ واپس آنے كا مطالبہ كرتى ہے كہ اكيلى نہيں رہ سكتى، اور والد صاحب يہيں رہنے كا مطالبہ كرتے ہيں، مجھے يہ بتائيں كہ آيا مجھے واپس چلے جانا چاہيے تا كہ بيوى پر ظلم نہ ہو سكے، يا كہ مجھے يہيں رہ كر بھائى كى شادى ميں والد صاحب كا تعاون كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ملازمت اور دوسرى مشروعہ مصلحت كى خاطر خاوند كے ليے بيوى بچوں سے دور رہنا جائز ہے، ليكن چھ ماہ سے زائد نہيں، اگر اس سے زائد ہو تو بيوى كى اجازت حاصل كرنا ضرورى ہے.

اس كى دليل عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كى روايت ہے جس ميں درج ہے كہ:

عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اپنى بيٹى ام المؤمنين حفصہ رضى اللہ تعالى عنہا سے دريافت كيا كہ: عورت اپنے خاوند سے كتنى دير تك صبر كر سكتى ہے ؟

حفصہ رضى اللہ تعالى عنہا نے فرمايا: سبحان اللہ آپ جيسا شخص مجھ جيسى عورت سے اس طرح كا مسئلہ پوچھتا ہے !

تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا: اگر ميں مسلمانوں كو نہ ديكھنا چاہتا تو ميں اس كے متعلق دريافت نہ كرتا، حفصہ رضى اللہ تعالى عنہا نے فرمايا:

" پانچ ماہ، چھ ماہ " تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے لوگوں كے ليے ميدان جھاد ميں رہنے كے ليے چھ ماہ تك رہنے كا وقت مقرر كر ديا، ايك ماہ جانے اور ايك ماہ آنے اور چار ماہ وہاں رہنے كے ليے "

امام احمد رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

مرد اپنى بيوى سے كتنے عرصہ تك دور رہ سكتا ہے ؟

امام احمد كا جواب تھا:

" روايت كيا جاتا ہے كہ چھ ماہ تك رہ سكتا ہے "

ديكھيں: المغنى ( 7 / 232 - 416 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر امن والى جگہ ہو تو آدمى كا وہاں جانے ميں كوئى حرج نہيں، اور اگر بيوى اسے چھ ماہ سے زائد وہاں رہنے كى اجازت دے تو اس پر كوئى حرج نہيں ہوگا، ليكن اگر بيوى اپنے حقوق مانگتے ہوئے اسے واپس آنے كا كہتى ہے تو پھر وہ اس سے چھ ماہ سے زائد دور نہيں رہ سكتا.

ليكن اگر كوئى عذر ہو مثلا مريض ہو اور علاج كرا رہا ہو تو ضرورت كے احكام خاص ہيں، بہر حال اس ميں بيوى كو حق ہے جب وہ پرامن جگہ كے ليے اجازت دے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، چاہے خاوند اسطرح زيادہ بھى غائب رہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى العلماء فى عشرۃ النساء ( 106 ).

اس بنا پر آپ كى بيوى كا حق ہے كہ آپ اس كے پاس جائيں، اور خاص كر جب آپ كے بيان كے مطابق آپ كى تنخواہ رہائش كے ليے بھى كافى نہيں، اس كا معنى يہ ہوا كہ اس طرح تو آپ اپنى بيوى كے پاس جلد جا بھى نہيں سكتے، حالانكہ بيوى كو آپ كى ضرورت ہے.

بيوى كے حقوق كى ادائيگى اور اپنى بيوى كى حفاظت اور اہل و عيال كا خيال ركھنا كسى پر مخفى نہيں ہے، اور اس كے ساتھ محبت و الفت ہر قسم كے مال جمع كرنے پر مقدم ہوتى ہے.

اگر والد آپ كو باہر رہنے كا حكم ديتا ہے تو اس ميں آپ كو اطاعت كرنا واجب نہيں؛ كيونكہ اس اطاعت ميں بيوى كے حقوق ضائع ہونگے، سب كو معلوم ہے كہ اللہ خالق كى نافرمانى ميں كسى بھى مخلوق كى اطاعت نہيں كى جا سكتى.

ليكن آپ والد كو مطمئن كرنے ليے نرم رويہ اختيار كريں اور انہيں بتائيں كہ بيوى سے دور رہنا اور پرديس ميں رہنے كى كوئى ضرورت نہيں ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے وہ آپ كو توفيق نصيب فرمائے اور آپ كى صراط مستقيم كى راہنمائى فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب