جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

دودھ پيتے بچے كى موجودگى ميں بيوى سے مباشرت كرنا

104246

تاریخ اشاعت : 29-02-2012

مشاہدات : 12432

سوال

كيا درج ذيل حديث صحيح ہے:
" جب آدمى بيوى سے ہم بسترى كرنا چاہے تو دودھ پيتے بچے كو كمرہ سے نكال دے " ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شرم و حياء مسلمان كا اخلاق ہے، اس شرم و حياء كى بنا پر ہر گندے كام اور قول سے دور رہا جاتا ہے، اور اس سے اچھى عادات اور بہتر صفات كى حفاظت ہوتى ہے، اور حياء ايمان كا حصہ اور فضل و احسان كى علامت سمجھى جاتى ہے، اور پھر حياء تو فطرت ميں شامل ہے جسے اللہ سبحانہ و تعالى نے انسان ميں پيدا فرمايا ہے.

شرم و حياء تو وہى شخص چھوڑتا ہے جس كى فطرت الٹ چكى ہو، اور اس كا ايمان خراب ہو چكا ہو، شرم و حياء كے بہت سارے مظاہر ہيں جن ميں يہ بھى شامل ہے كہ جب جماع كيا جائے تو دوسروں كى نظروں سے اوجھل رہا جائے، بلكہ دوسروں كى سماعت سے بھى دور رہے.

ہر اس سے جو اس كا ادراك ركھتا اور ديكھنے اور سننے والى چيز ميں امتياز كر سكتا ہو اس سے چھپايا جائے؛ كيونكہ جماع ميں ستر ننگا كيا جاتا ہے جسے دين اسلام چھپانے كا حكم ديا ہے، اور اس ليے بھى كہ ديكھنے يا سننے والے كى شہوت ميں جوش پيدا ہونے كا خدشہ ہے.

اور اس طرح اس كے دل ميں ايك برا اور غلط موقع پيدا ہوگا، يا پھر اس نے جو كچھ ديكھا ہے وہ لوگوں ميں بيان كرتا پھرےگا، اس طرح گھر كے راز افشا ہونا شروع ہو جائيں حالانكہ دين اسلام نے ان اسرار كو شرم و حياء اور عفت و ستر پوشى كى وجہ سے پوشيدہ اور خفيہ ركھنے كا حكم ديا ہے.

ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جماع كے وقت چھپنا اور ستر اختيار كرنا فرض ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو تمہارے غلام اور وہ بچے جو ابھى بالغ نہيں ہوئے تم سے تين اوقات ميں اجازت طلب كريں، نماز فجر سے قبل، اور ظہر كے وقت جب تم اپنا لباس اتارتے ہو، اور نماز عشاء كے بعد، تمہارے ليے يہ تين اوقات ستر كے ہيں . انتہى

ديكھيں: حلى ابن حزم ( 9 / 231 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" خاوند ايسى صورت ميں بيوى سے جماع مت كرے كہ اسے كوئى ديكھ رہا ہو، يا پھر اس كى آواز سن رہا ہو، اور نہ ہى لوگوں كے سامنے بيوى كا بوسہ لے اور مباشرت كرے.

امام احمد كا قول ہے: مجھے تو يہى پسند ہے كہ اس سب كچھ كو چھپايا جائے " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 228 ).

رہا مسئلہ جو تميز نہيں كر سكتا مثلا دودھ پيتا بچہ تو اسے بھى كمرہ سے باہر نكالنے كے بارہ ميں شريعت كا كوئى حكم وارد نہيں، اور نہ ہى اس ميں كوئى حديث نبوى پائى جاتى ہے.

جو نص سوال ميں پيش كى گئى ہے وہ حديث نہيں بلكہ ايك مالكى فقيہ كا قول ہے جو اس نے ابن رضى اللہ تعالى عنہما پر اعتماد كرتے ہوئے اختيار كيا ہے، كيونكہ جب ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما اپنى بيوى كے ساتھ جماع كرنا چاہتے تو گود والے بچے كو بھى باہر نكال ديتے، جو كہ حياء اور ستر پوشى ميں مبالغہ ہے، نہ كہ شرعى حكم كا بيان اور نہ ہى واجب ہے.

اگر كسى شخص كا گھر بڑا ہو اور بچے كو نقصان ہونے كا انديشہ نہ ہو كہ وہ نگرانى كے بغير اكيلا رہے تو كوئى نقصان نہيں ہوگا ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے اس فعل كى تقليد كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن يہ كہا جائے كہ ايسا كرنا لازم ہے تو يہ بعيد ہے.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" اگر خاوند اور بيوى كے ساتھ تميز كرنے والا شخص بيدار موجود ہو تو يہ سترپوشى ميں مخل ہے، چاہے بيوى ہو يا پھر لونڈى يا كوئى اور ديكھ رہا ہو يا سرسراہٹ سن رہا ہو جمہور علماء كا قول يہى ہے.

حسن بصرى رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا كہ اگر كسى شخص كى دو بيوياں ايك ہى گھر ميں ہوں تو كيا حكم ہے ؟

انہوں نے جواب ديا: اسے ناپسند كرتے تھے ـ يعنى حرام سمجھتے تھے جيسا كہ سلف كى اصطلاح ہے ـ كہ ايك بيوى كے ساتھ جماع كيا جائے اور دوسرى سن رہى ہو يا پھر سرسراہٹ سن رہى ہو.

اور اسى طرح سويا ہوا شخص بھى سترپوشى كے مخل ہے مالكيہ نے يہى بيان كيا ہے.

رھونى خليل كے متن پر شرح زقانى كے اپنے حاشيہ ميں كہتے ہيں:

" آدمى كے ليے اپنى بيوى يا لونڈى سے اس حالت ميں وطئ كرنا جائز نہيں كہ گھر ميں ( يعنى اسى كمرہ ميں ) كوئى سويا ہوا يا بيدار شخص موجود ہو؛ كيونكہ ہو سكتا ہے سويا ہوا شخص بيدار ہو جائے اور انہيں اس حالت ميں ديكھ لے"

اور اسى طرح ـ جمہور مالكيہ كے ہاں ـ يہ بھى ستر ميں مخل ہے كہ وہاں غير مميز بچہ موجود ہو، يعنى جو تميز نہ كر سكتا ہو، اس ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى اتباع ہے كيونكہ وہ جب جماع كرنا چاہتے تو گود والے بچے كو بھى وہاں سے نكال ديتے.

اور جمہور ـ جن ميں بعض مالكى بھى شامل ہيں ـ كہتے ہيں كہ غير مميز بچے كا وہاں ہونا ستر ميں مخل نہيں؛ كيونكہ اس ميں مشقت اور تنگى پائى جاتى ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 3 / 178 ).

آپ مزيد تفصيل كے ليے ابن الحاج مالكى كى المدخل ( 2 / 184 ) كا مطالعہ كريں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس مسئلہ ميں صحيح يہى ہے كہ كسى كى نظروں كے سامنے وطئ كرنا حرام ہے، الا يہ كہ كوئى ايسا بچہ ديكھ رہا ہو جو كچھ نہيں جانتا، اور اس كا تصور نہيں كر سكتا تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر وہ جو كچھ ديكھ رہا ہے اسے تصور كر سكتا ہے تو پھر ايسا نہيں كرنا چاہيے كہ اس كى موجودگى اور نظروں كے سامنے جماع كيا جائے چاہے وہ بچہ ہى ہو.

كيونكہ ہو سكتا ہے غير ارادى طور پر ہى اس نے جو ديكھا ہے اسے بيان كرے يا اس كى نقل اتارنا شروع كردے، چنانچہ جو بچہ گود ميں ہو يعنى چند ماہ كا تو اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ وہ اس كے متعلق كچھ نہيں جانتا.

ليكن جو بچہ تين يا چار برس كا ہو تو اس كى موجودگى ميں انسان اپنى بيوى كے پاس جائے اور وطئ كرے تو ايسا نہيں كرنا چاہيے؛ كيونكہ ہو سكتا ہے بچہ صبح بيان كرنے لگے اس ليے بچے كے سامنے وطئ كرنا مكروہ ہے، اور اگر بچہ تميز نہيں كر سكتا اور اس كا تصور نہيں كر سكتا اور اسے نہيں سمجھتا تو پھر كوئى حرج نہيں " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 380 ) مصرى طبع.

خلاصہ يہ ہوا كہ:

سوال ميں جو عبارت بيان ہوئى ہے وہ حديث نہيں، بلكہ كسى فقيہ كا قول ہے، اور صحيح وہى ہے جو جمہور كا قول ہے كہ جماع كے وقت دودھ پيتے بچے كى موجودگى ميں كوئى حرج نہيں "

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب