منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

باكسنگ كھيلنے كا حكم

10427

تاریخ اشاعت : 22-10-2007

مشاہدات : 7883

سوال

ميرا سوال باكسنگ اور اس كے حكم كے متعلق ہے، ہمارى مسجد كى انتظاميہ باكسنگ كے تربيتى كورس منعقد كروانے كا سوچ رہى ہے، اس ليے ميں يہ معلوم كرنا چاہتا ہوں آيا باكسنگ جائز بھى يا نہيں ؟
اور ا سكا سبب يہ ہے كہ ايك حديث ميں آيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جو افراد كو آپس ميں ايك دوسرے كو گرانے كى كوشش كر رہے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں بتايا كہ وہ چہرے پر مارنے سے اجتناب كريں، كيونكہ ہم آدم عليہ السلام كى صورت پر بنائے گئے ہيں "
تو كيا اس بنا پر مسلمان شخص كے ليے باكسنگ سيكھنا كہ ہر ايك شخص دوسرے كے چہرے پر مارتا ہے، يہ كھيل سيكھنا جائز ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شريعت اسلاميہ نے ہر وہ چيز مباح كى ہے جو بدن كو فائدہ دے اور بدن كے ليے نقصاندہ نہ ہو، اور ہر وہ چيز حرام كى ہے جس سے بدن پرظلم ہو اسے نقصان و ضرر پہنچے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا تيرے جسم كا بھى تجھ پر حق ہے "

صحيح بخارى كتاب الصوم حديث نمبر ( 1839 ).

جسمانى ورزش و ايكسرسائز اگر شرعى ممنوعات سے خالى ہو تو يہ روزش كرنا مفيد ہے، اور باكسنك ايك قديم كھيل ہے جو اغارقہ كھيلا كرتے تھے.

كھيلوں كى اقسام ميں سب سے برى كھيل ہے، بلكہ باكسنگ تو اس كى مستحق ہى نہيں كہ اسے كھيل كا نام ديا جائے، باوجود اس كے كہ يورپى ممالك ـ جہاں باكسنگ ايك ہنر كى اساس كى بنا پر بہت زيادہ پھيلى ہوئى ہے ـ خاص كر اپنے ذاتى دفاع كے ليے ايك بہت ہى عمدہ كھيل قرار ديتے ہيں، ليكن وہ يہ بھول جاتے ہيں، يا پھر جان بوجھ كر عمدا بھول جائے يہ ا سكا بينادى اور رئيسى ہدف تو مد مقابل كو اذيت سے دوچار كرنا اور اسے زمين پر گرا كر ناك آؤٹ كرنا ہوتا ہے، اور اس كے ليے بہتر يہى سمجھا جاتا ہے كہ ايك زور دار اور فيصلہ كن مكہ ـ جيسا كہ وہ اسے يہى نام ديتے ہيں ـ مارا جائے جس سے مد مقابل ناك آؤٹ ہو كر گر پڑے، اور باكسنگ ميں كاميابى كى بلندى يہى ہے.

( بہت سےممالك كى پارلمنٹوں ميں بہت زيادہ مطالبہ كيا گيا كہ باكسنگ كو بطور ہنر اختيار كرنے والوں پر پابندى لگا دى جائے، كيونكہ باكسر كے ليے باكسنگ بہت اذيت ناز چيز ہے، بلكہ سويڈن كو اس ميں كاميابى بھى ہوئى، اور بہت سارے ممالك اس پر پابندى لگانے ميں ناكام رہے، حالانكہ باكسروں كو اس كھيل سے بہت اذيت ہوتى ہے، بلكہ بہت سارے باكسر تو اس كھيل كے نتيجہ ميں ہلاك بھى ہو چكے ہيں.

حقيقت يہى ہے كہ باكسنگ پر پابندى كى مطالبہ كے پيچھے انہى باكسروں كى وفات ہى تھى، يا يہ مطالبہ تھا كہ كم از كم اس كے ليے سخت قسم كے قواعد بنائے جائيں، جو اس كى سختى اور شدت كو ختم كريں.

ماخوذ از: يہاں لندن ہے عدد نمبر ( 413 ) مارچ ( 1983 ) ميلادى.

ويلز ميں برطانيہ ميڈيكل كميٹى كے مندوب ڈاكٹر روجڈ ہرٹى اس سلسلے ميں كميٹى كے سروے كے متعلق كہتے ہيں:

( ہم سارى دنيا كے سامنے يہ ظاہر كرنا چاہتے ہيں كہ باكسنگ انتہائى خطرناك كھيل ہے، اس وجہ سے نہيں كہ باكسنگ كى بنا پر بہت سارے باكسروں كى اموات واقع ہو چكى ہے، بلكہ اس سے بھى زيادہ خطرناك چيز يہ ہے كہ باكسنگ كى بنا پر پيدا ہونے والے افراد كى تعداد اس سے بھى زيادہ ہے، اس كو سامنے ركھتے ہوئے ہم اس كھيل كى سرپرستى كرنے والى كميٹيوں پر دباؤ ڈال رہے ہيں كہ وہ اس كھيل كو بند كر ديں، اور اسے كھيلوں ميں شامل ہى نہ كيا جائے.

اور يہاں دوبارہ يہ يقين دلانا چاہتا ہوں كہ يہ كھيل ہزاروں باكسروں كى گھات ميں كہ انہيں باكسنگ كى بنا پر مختلف قسم كى بيماريوں كا شكار كر كے ركھ دے،

( 1945 ) سے ليكر ( 1983 ) تك باكسنگ كى بنا پر ہلاك ہونے والے باكسروں كى تعداد تين سو پچاس تك پہنچ چكى ہے ).

ماخوذ از: landan here ہے عدد نمبر ( 413 ) مارچ ( 1983 ).

اس كھيل كےمتعلق اسلامى موقف:

اسلامى اصول مكمل طور پر اس تصور كا انكار كرتا ہے كہ وہ عموما امت كى تربيت ميں اس طرح كا خطرناك انحراف اس حد تك پيدا ہو جائے جو امت كے افراد كے مابين شديد قسم كى لڑائى كى اجازدت ديتا ہ بلكہ سارى انسانيت كے مابين اس طرح كى اجازت نہيں ديتا.

ذيل ميں ہم چند ايك اصول بيان كرتے ہيں:

1 - ضرر اور نقصان كو ختم اور زائل كرنا:

اوپر بيان ہو چكا ہے كہ باكسنگ ايك ايسا كھيل ہے جس كے انسانى زندگى كو بہت زيادہ ضرر و نقصانات ہيں، اور اس كى گواہى بھى يورپيوں نے دى ہے، جنہيں انسانى شعور نے اس پر راغب كيا كہ وہ اس كھيل كو بند كرنے كا مطالبہ كريں، بلكہ اس كو عالمى كھيلوں كى ڈكشنرى سے ہى نكال باہر كريں.

2 - چہرے كى بے حرمتى:

باكسنگ كا كھيل ايسا ہے جس ميں مد مقابل كے چہرے پر پورى قوت سے مكہ مارنا ہوتا ہے، اور باكسر كو مكمل اجازت ہے كہ اپنى پورى طاقت سے مدمقابل باكسر كے چہرے پرمكہ مارے، بلكہ جسم كے كسى اور جگہ مكہ مارنے كى بجائے چہرے پر مكہ مارنے كے پوائنٹ زيادہ ہوتے ہيں.

اور يہ بہت ہى گرى پڑى حركت ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے منع فرمايا ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم ميں كوئى كسى سے لڑے تو وہ چہرے سے اجتناب كرے "

اسے امام بخارى نے صحيح بخارى ميں روايت كيا ہے، ديكھيں فتح البارى ( 5 / 215 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

( اس ممانعت ميں ہر ضرب شامل ہوتى ہے جو بطور حد يا تعزير يا بطور تاديب ہو، اور ابو داود وغيرہ ميں ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں زنا كرنے والى عورت كو رجم كرنے كے قصہ ميں بيان ہوا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس عورت كو رجم كرنے كا حكم ديا اور فرمايا:

" اس كو پتھر مارو، اور چہرے سے اجتناب كرنا "

سنن ابو داود ( 4 / 152 ).

تو جس كو بطور رجم ہلاك كرنا متعين ہے جب اس كے متعلق يہ حكم ہے، تو پھر اس كے علاوہ دوسرے كے چہرے سے بالاولى اجتناب كرنا ہو گا.

ديكھيں: فتح البارى ( 5 / 216 ).

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

علماء كا كہنا ہے: چہرے پر مارنے سے اس ليے منع كيا گيا ہے كہ چہرہ بڑا نازك اور سارے محاسن كو جمع كرنے والى جگہ ہے، اور اكثر اس كے اعضاء سے ہى ا سكا ادراك ہوتا ہے، تو چہرے پر مارنے سے خدشہ ہے كہ چہرے كے كسى عضو كى حالت نہ بگڑ جائے، اور وہ بد شكل نہ ہو جائے، چہرے ميں ظاہر اور ابھرا ہوا ہونے كى بنا پر سب سے نازك ہے، بلكہ جب ناك پر مكہ مارا جائے تو وہ صحيح نہيں رہتا ).

ديكھيں: فتح البارى ( 5 / 216 ).

اس حديث سے خاص كر ممانعت كى دلالت كے متعلق فتح البارى ميں ہے:

( امام نووى رحمہ اللہ نے اس نہى كے حكم كے متعلق كچھ نہيں كہا، اور اس ممانعت سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ نہى تحريمى ہے، اس كى تائيد سويد بن مقرن رضى اللہ تعالى عنہ كى اس حديث سے ہوتى ہے:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كو ديكھا كہ وہ اپنے غلام كو مار رہا ہے تو آپ نے فرمايا:

" كيا تجھے علم نہيں كہ احترام والى شكل و صورت ہے "

صحيح مسلم ( 3 / 1280 ).

ماخذ: ديكھيں كتاب: فضايا اللھو والترفيہ صفحہ نمبر ( 373 )