جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

معين تعداد ميں استغار كى تحديد كرنا

104818

تاریخ اشاعت : 22-05-2009

مشاہدات : 8293

سوال

كيا معين تعداد ميں استغفار كرنا مثلا آج سو بار اور كل دو سو بار استغفار كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمان كے ليے استغفار بكثرت كرنا مستحب ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خود بھى دن اور رات ميں سو بار استغفار كيا كرتے تھے.

اغر مزنى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميں ايك دن ميں سو بار اللہ سے استغفار كرتا ہوں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2702 ).

اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" بلاشبہ ميں روزانہ اللہ عزوجل سے ايك سو بار استغفار كرتا ہوں "

سنن نسائى ( 6 / 114 ) مسند احمد ( 2 / 450 ) محققين نے اس كى سند حسن قرار دي ہے.

اور ايك روايت ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" اللہ كى قسم ميں دن ميں ستر بار سے زيادہ اللہ تعالى سے استغفار اور توبہ كرتا ہوں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6307 ).

اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:

" ہم ايك مجلس ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا سو بار درج ذيل دعا پڑھنا شمار كرتے تھے:

" رب اغفر لى و تب على انك انت التواب الرحيم " اے ميرے پروردگار مجھے بخش دے اور ميرى توبہ قبول فرما يقنا تو توبہ قبول كرنے والا ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1516 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 3430 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے زيادہ كسى اور كو يہ كلمات پڑھتے ہوئے نہيں ديكھا:

" استغفر اللہ و اتوب اليہ "

ميں اللہ سے بخشش طلب كرتا ہوں، اور اس كى جانب توبہ كرتا ہوں "

سنن نسائى ( 6 / 118 ).

اس ليے اگر آپ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى ميں اس سو عدد كا التزام كرنا چاہتے ہيں تو آپ كو اجر و ثواب حاصل ہو گا، اور اگر آپ اس سے زيادہ كرنا چاہتے ہيں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس ميں تعداد متعين نہ ہو يا پھر كوئى معين طريقہ نہ ہو، بلكہ يہ زيادہ استغفار حسب امكان ہو، كيونكہ جس عبادت كى تعداد شرع ميں متعين نہيں اس كى معين تعداد ميں تحديد كرنا مشروع نہيں ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب