منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

لہك كر لمبى آواز ميں اذان دينا

10523

تاریخ اشاعت : 12-08-2006

مشاہدات : 7824

سوال

اذان ميں حرف علت كو لمبا كرنے اور سر لگا كر اذان دينے كا حكم كيا ہے، گانے كى حرمت والى حديث اس پر اجرت لينے كى حرمت بھى ثابت كرتى ہے، كيا بعينہ اذان ميں سر لگانا اور گانا حرام ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اذان ميں گانا اور سر لگانا اور طرب كے ساتھ اذان كہنا جائز نہيں، ليكن يہ گانے بجانے كى حرمت جيسى نہيں ہے، بلكہ كراہت اور حرمت كے مابين متردد ہے، ليكن اگر ايسا كرنے سے معنى ہى بدل جائے تو پھر حرام ہو گى.

1 - زين الدين عراقى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

خوش آواز نرمى اور درستگى كے ساتھ اذان كہنا مستحب ہے، .... اور سر لگا كر لہك اور لمبا كر كے اور طرب كے ساتھ يعنى گا كر اذان كہنا مكروہ ہے، كيونكہ ايك شخص نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے عرض كى ميں آپ سے اللہ كے ليے محبت كرتا ہوں، تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے جواب ديا:

ميں تجھ سے اللہ كے ليے ناراض ہوں اور تجھ پر غصہ ركھتا ہوں، كيونكہ تم اذان ميں بغاوت كرتے ہو.

حماد رحمہ اللہ كہتے ہيں يعنى طرب كے ساتھ گا كر اذان ديتے ہو.

2 - ولى الدين عراقى كا كہنا ہے:

الشاشى نے " المعتمد " ميں كہا ہے كہ:

صحيح اور درست يہ ہے كہ اس كى آواز ميں نرمى اور حزن ہو نہ كہ آواز ميں سختى اور ديہاتيوں والى درشتى، اور نہ ہى تكلف كے ساتھ مردوں جيسى نرمى ہو...

صاحب " الحاوى " كہتے ہيں: حد سے بڑھنا يہ ہے كہ كلام ميں تفخيم يعنى مونہہ بھر كر بولنا اور الفاظ موٹے كرنا، اور باچھيں پھيلانا بغى اور حد سے تجاوز كرنا ہے.

وہ كہتے ہيں: اذان ميں لحن يعنى سر لگانا مكروہ ہے كيونكہ يہ فہم سے خارج كر ديتى ہے، اور سلف رحمہ اللہ تعالى نے اس سے اجتناب كيا ہے، بلكہ بعد ميں آنے والوں نے اس كى ايجاد كى.

ديكھيں: طرح التثريب ( 3 / 118 - 120 ).

3 - ابن الحاج كہتے ہيں: فصل:

اذان ميں لحن اختيار كرنے كى ممانعت كا بيان:

اسے خود بھى لحن يعنى سر لگا اور گا كر اذان دينے سے باز رہنا چاہيے اور دوسروں كو بھى گانے كى مشابہت كرنے سے منع كرے، يہ تو اس وقت جب يہ اكٹھے ہو كر باجماعت ميں نہ ہو، وہ سب گا كر طرب كے ساتھ جو گانے كے مشابہ ہو ايسا كريں حتى كہ يہ بھى علم نہ ہو كہ وہ كيا كہہ رہے ہيں اور اذان كے الفاظ كا بھى علم نہ رہے، صرف آوازيں كم اور زيادہ ہوں، يہ ايسى بدعت ہے جو ابھى كچھ مدت قبل ہى وجود ميں آئى ہے جو بعض امراء نے اپنے بنائے ہوئے مدرسہ ميں ايجاد كى اور پھر دوسرى جگہ پر بھى سرايت كر گئى اور اس دور ميں شام ميں جو اذان كہى جارہى ہے يہ ايك قبيح بدعت ہے.

جبكہ اذان كا مقصد تو نماز كے ليے پكار اور اعلان ہے، اس ليے اس كے الفاظ كى سمجھ آنا ضرورى ہے، ليكن آج كل جو اذان دى جارہى ہے اس كى سمجھ ہى نہيں آتى كيونكہ اس ميں گانے وغيرہ كے الفاظ ملا ليے گئے ہيں اور پھر حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نئى چيز ايجاد كى جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "

اور امام ابو طالب مكى اپنى كتاب ميں رقمطراز ہيں:

اذان ميں جو لحن اور سر لگانا اور گا كر اذان دينا ايجاد كر ليا گيا ہے وہ حد سے تجاوز اور بغاوت ہے، ايك مؤذن نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے كہا:

ميں آپ سے اللہ كے ليے محبت كرتا ہوں.

تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اسے فرمايا:

" ليكن ميں تجھ سے اللہ كے ليے ناراضگى ركھتا ہوں.

وہ شخص كہنے لگا: اے ابو عبدالرحمن وہ كيوں ؟

تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے جواب ديا:

" كيونكہ تم اذان ميں بغاوت كرتے ہو، اور اس كى اجرت ليتے ہو.

اور ابوبكر آجرى رحمہ اللہ تعالى كہا كرتے تھے:

ميں بغداد سے نكلا كيونكہ ميرے ليے وہاں رہنا حلال نہ تھا اس ليے كہ انہوں نے ہر چيز ميں بدعت ايجاد كر لى تھى، حتى كہ قرآت قرآن اور اذان ميں بھى، يعنى اجرت ليتے، اور لحن كے ساتھ اذان كہتے تھے. انتہى

ديكھيں: المدخل: ( 2 / 245 - 246 ).

4 - " المدونۃ " ميں ہے:

اذان ميں طرب اختيار كرنا مكروہ ہے، اور " الطراز " ميں ہے: تطريب يعنى طرب اختيار كرنا يہ ہے كہ:

آواز كٹنا اور اسے ميں لڑكھڑاہٹ پيدا كرنا تطريب ہے، اس كى اصل خفت اور نرمى ہے جو شدت فرح يا پھر غم كى شدت سے پيدا ہوتى ہے جو كہ اضطراب يا طربہ ہے.

اور " العتبيۃ " ميں ہے: اذان ميں تطريب اختيار كرنا منكر ہے، ابن حبيب كہتے ہيں: اسى طرح بغير كسى تطريب كے تحزين بھى، حروف ميں امالہ اور ان ميں سر پيدا نہيں كرنا چاہيے، اس ميں سنت يہ ہے كہ آواز بلند ہو، اور حدر كے ساتھ اذان كہى جائے. انتہى

اور ابن فرحون كہتے ہيں:

تطريب يہ ہے كہ: الف مقصورہ والا حرف لمبا كرنا، اور الف ممدودہ والا حرف چھوٹا كرنا.

عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے ايك شخص كو طرب كے ساتھ اذان كہتے ہوئے سنا تو كہنے لگا:

اگر عمر رضى اللہ تعالى عنہ زندہ ہوتے تو تيرے جبڑے اكھيڑ كر ركھ ديتے. انتہى

اور ابن ناجى كہتے ہيں:

تطريب مكروہ ہے؛ كيونكہ يہ خشوع اور وقار كے منافى ہے، اور يہ گانے كى طرف لے جاتى ہے، اگر زيادہ تطريب نہ ہو تو يہ مكروہ ہے، ليكن اگر زيادہ ہو تو پھر حرام، اور ابن حبيب نے تحزين كو تطريب كے ساتھ ملحق كيا ہے.

.... اس سے حاصل يہ ہوا كہ اذان ميں آواز كو بہتر بنانا اور اچھا كرنا مستحب ہے، اور آواز بلند ہونى چاہيے، اور فظيع اور غليظ آواز اور اگر زيادہ تطريب نہ ہو تو مكروہ وگرنہ حرام ہے.

ديكھيں: مواھب الجليل لحطاب ( 1 / 437 - 438 ).

5 - شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اذان ميں مطلوبہ مد سے زيادہ مد كرنا اور حروف كو كھينچنا نہيں چاہيے، كيونكہ اگر ايسا كرنے سے معنى بدل جائے تو اذان باطل ہو جاتى ہے مد والے حروف كو اگر مد لازم سے زيادہ مد دينا جائز نہيں، حتى كہ اگر حركات كو زيادہ مد دے كر كھينچ ديا جائے اور اگر اس سے معنى بدل جائے تو يہ صحيح نہيں، اگر معنى نہ بدلے تو مكروہ ہے.

ديكھيں: فتاوى الشيخ محمد بن ابراہيم ( 2 / 125 ).

6 - شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں:

الملحن: لحن اور طرب كے ساتھ اذان كہنے والا شخص: يعنى جو شخص سر لگا كر اور گا كر اذان كہتا ہے وہ ايسے ہے گويا كہ وہ گانے كے الفاظ كھينچ رہا ہو يہ كفائت تو كر جائيگى ليكن مكروہ ہے.

الملحون: وہ ہے جس ميں لحن كيا جائے، يعنى: عربى قواعد و ضوابط كى مخالفت كرنا، ليكن لحن كى دو قسميں ہيں:

ايك ايسى قسم ہے جس كے ساتھ اذان صحيح نہيں، وہ يہ كہ جس كے ساتھ معنى تبديل ہو جائے.

اور دوسرى قسم كے ساتھ اذان صحيح ہے، ليكن يہ مكروہ ہے، اس كے ساتھ معنى نہيں بدلتا، مثلا اگر مؤذن يہ كہے: اللہ اكبار، تو يہ صحيح نہيں كيونكہ اس سے معنى بدل جاتا ہے، كيونكہ اكبار كبر كى جمع ہے، جس طرح اسباب سبب كى جمع اور يہ طبل ہے.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 62 - 63 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد