جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

پہلى بيوى نے واپس آنے كے ليے دوسرى بيوى كو طلاق دينے كى شرط ركھى خاوند پہلى اور گھر والے دوسرى كو پسند كرتے ہيں!

109128

تاریخ اشاعت : 23-03-2010

مشاہدات : 6392

سوال

ميں نے چھ ماقبل دوسرى شادى كى ہے جس كا پہلى بيوى كو علم نہيں، ليكن كچھ عرصہ بعد ايسے لوگوں كے ذريعہ بيوى كو علم ہو گيا جنہيں ہم نہيں جانتے، ميرى پہلى بيوى سے چار اور دو برس كى دو بيٹياں ہيں، ليكن كچھ عرصہ سے ميرى پہلى بيوى اور گھر والوں كا جھگڑا چل رہا ہے، اور وہ اپنے مستقل گھر ميں عليحدہ رہتى ہے، اور پھر ميرے گھر والے بڑا اختلاف ہونے كى وجہ سے ميرى بيوى سے محبت نہيں كرتے، كيونكہ وہ ان كا احترام نہيں كرتى. جناب مولانا صاحب سوال يہ ہے كہ:
ميرى پہلى بيوى طلاق لينے كا مصمم ارادہ ركھتى ہے، اور اس نے عدالت ميں بھى مقدمہ كر ركھا ہے، اس نے واپس آنے كے ليے شرط يہ ركھى ہے كہ ميں اپنى دوسرى بيوى كو طلاق دوں تو وہ واپس آ سكتى ہے، حالانكہ ميرى دوسرى بيوى ميرے گھر والوں سے بہت زيادہ محبت كرتى ہے.
مجھے اس وقت مشكل يہ درپيش ہے كہ ميں اپنى بيٹيوں كى ماں ہونے كے ناطے اپنى پہلى بيوى سے بہت زيادہ محبت كرتا ہوں، ليكن اس كا يہ فيصلہ اٹل ہے اور اس ميں كوئى نقاش اور بات چيت يا سمجھوتہ نہيں ہو سكتا، يا تو ميں دوسرى بيوى كو طلاق دوں، يا پھلا يہ مقدمہ عدالت ميں جارى رہے حتى كہ وہ عدالت ميں طلاق حاصل كر لے.
ميرى طرف سے تو يہ ہے كہ ميں دوسرى كى بجائے پہلى بيوى كى طرف زيادہ مائل ہوں، اس ليے برائے مہربانى كوئى نصيحت فرمائيں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے كيونكہ اللہ كى قسم ميں تھك گيا ہوں اور مجھے سمجھ نہيں آرہى كہ ميں كيا كروں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ كى پہلى بيوى كے ليے اپنى سوكن كى طلاق طلب كرنا حلال نہيں، سنت نبويہ صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كى بالنص ممانعت موجود ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كسى بھى عورت كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنى بہن كى طلاق كا مطالبہ كرے تا كہ اس كا برتن الٹ دے اسے تو وہ كچھ ملے گا جو اس كے مقدر ميں ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4857 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1413 ).

اور ايك روايت كے الفاظ ہيں:

" اور كوئى عورت بھى اپنى بہن كى طلاق كا مطالبہ مت كرے تا كہ وہ اس كے برتن ميں جو كچھ ہے وہ الٹ لے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2574 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1413 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" قولہ ( لا يحل ) اس كى حرمت واضح اور ظاہر ہے " انتہى ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 220 ).

اور ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عورت كے شايان شان اور لائق نہيں كہ وہ اپنى سوكن كى طلاق كا مطالبہ كرے تا كہ وہ اكيلى ہى خاوند كى زوجيت ميں ہو، بلكہ اس كے ليے تو وہ كچھ ہے جو تقدير سبقت لے جا چكى ہے نہ تو سوكن كى طلاق كى وجہ سے كوئى نقصان ہو سكتا ہے جو اس كے مقدر ميں تھا اور نہ ہى اس ميں كوئى زيادتى ہو سكتى ہے " انتہى

ديكھيں: التمھيد ( 18 / 165 ).

اور شيخ عبد اللہ البسام رحمہ اللہ اس حديث كے فوائد بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" اس حديث ميں سوكن كى طلاق كا مطالبہ كرنے كى حرمت بيان ہوئى ہے، اور اسى طرح سوكن كے بارہ ميں كينہ و بغض ركھنا اور خاوند كو اس پر ابھارنا، يا سوكن اور خاوند كے مابين فتنہ و خرابى پيدا كرنا تا كہ ان ميں شر اور خرابى پيدا ہو اور وہ اسے چھوڑ دے تو يہ حرام ہے.

كيونكہ اس ميں بہت سارى خرابياں پائى جاتى ہيں مثلا آپس ميں بغض و عداوت پيدا ہوتى ہے اور مشكلات لاتى ہے، اور اسى طرح مطلقہ كا رزق ختم كرنے كى كوشش ہے جس كو حديث ميں كنايتا بيان كرتے ہوئے كہا گيا ہے كہ كسى دوسرے كے برتن ميں جو خير ہے اس كو الٹ دينا، جس كا سبب نكاح ہے اور اسى طرح جو اس كا نفقہ اور لباس وغيرہ حقوق زوجيت ہيں ان سے بھى اسے محرم كرنا ہے.

يہ عظيم احكام اور قيمتى آداب اسلام ميں اس ليے پائے جاتے ہيں تا كہ معاشرے كى حالت كو منظم كيا جا سكے، اور ا سے شر و فساد اور خرابى سے محفوظ ركھا جائے، اور بغض و عداوت اور دشمنى سے دور ركھ كر آپس ميں محبت و مودت اور الفت و مانوسيت پائى جائے، اور امن و سلامتى پيدا ہو " انتہى

ديكھيں: تيسير العلام شرح عمدۃ الاحكام ( 2 / 305 ).

دوم:

ہمارى تو آپ كو نصيحت يہى ہے كہ آپ پہلى بيوى كو واپس لانے كى پورى كوشش كريں، اور دوسرى كو بھى طلاق مت ديں، اور اس كے علاوہ آپ كچھ حرص نہ كريں، كيونكہ پہلى بيوى آپ كى اولاد كى ماں بھى اور آپ كى مبحوبہ بھى ہے، اور پھر طلاق كے بعد آپ كى اولاد كے ضائع ہونے كا خدشہ ہے، اور بعد ميں آپ دونوں اور آپ كے گھر والوں ميں اصلاح ممكن ہے.

اور دوسرى بيوى آپ كے گھر والوں كى محبوب ہے، اور اس دوسرى بيوى كا كوئى قصور نہيں كہ آپ اپنى پہلى بيوى كى طرف مائل ہيں اور اس سے محبت كرتے ہيں كيونكہ وہ بھى آپ كى بيوى ہے، اور اس كے بھى آپ پر حقوق ہيں، لہذا آپ ان دونوں كو جمع كرنے كى شديد حرص ركھيں، اور طلاق دينے كى جلدى مت كريں.

اور آپ كا يہ كہنا كہ آپ كو خدشہ ہے كہ پہلى بيوى كى طرف مائل ہونے كى وجہ سے دوسرى پر ظلم نہ ہو.

اگر تو واقعى ايسا تھا تو پھر آپ نے دوسرى شادى كيوں كى ؟ اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

 اور اگر تمہيں ڈر ہو كہ يتيم لڑكيوں سے نكاح كر كے تم انصاف نہ ركھ سكو گے تو اور عورتوں سے جو بھى تمہيں اچھى لگيں تم ان سے نكاح كر لو، دو دو، تين تين، چار چار سے، ليكن اگر تمہيں ڈر ہو كہ عدل نہ كر سكو گے تو ايك ہى كافى ہے يا پھر تمہارى ملكيت كى لونڈى يہ زيادہ قريب ہے كہ ايك طرف جھك جانے سے بچ جاؤ  النساء ( 3 ).

لہذا ايسے شخص كے ليے جسے خدشہ ہو كہ وہ اپنى بيويوں كے مابين عدل و انصاف نہيں كر سكےگا دوسرى شادى كرنا جائز نہيں.

اس ليے آپ ان دونوں كو جمع كرنے كى حرص ركھيں اور ان ميں عدل و انصاف كريں ہمارى نصيحت تو يہى ہے اس كے علاوہ كچھ نہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب