جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

جمعہ کے دن عید سے متعلق دائمی فتوی کمیٹی کا فتوی

سوال

تمام تعریفیں الله کے لیے ہیں وہ یکتا ہے، درود و سلام ہوں ہمارے نبی پر آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، آپ کی آل اور تمام صحابہ پر بھی درود و سلام ہوں۔۔۔بعد ازاں:
جب کبھی عید جمعہ کے دن آ جائے تو ایک سوال بہت زیادہ کیا جاتا ہے کہ دو عیدیں جمع ہو گئی ہیں ایک عیدالفطر یا عیدالاضحی ، اور دوسری ہفتہ وار عید یعنی جمعہ کا دن ، تو کیا جس شخص نے [جمعہ دن صبح]عید کی نماز ادا کر لی ہے اس شخص پر نمازِ جمعہ کی ادائیگی بھی واجب ہے ؟ یا پھر وہ صرف نماز عید پر اکتفا کر لے اور جمعہ کی نماز کے بدلے ظہر کی نماز پڑھ لے؟ اور کیا اس دن ظہر کی نماز کے لئے مساجد میں اذان دی جائے گی یا نہیں ؟
اس سے متعلق اور بھی دیگر سوالات ہیں جو ایسے موقعے پر عام ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات اور فتاوی نے ان سوالات کے جواب میں درج ذیل فتوی جاری کیا ہے:

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس مسئلے میں مرفوع احادیث اور موقوف اقوال مروی ہیں :

1- زید بن ارقم رضی اللہ عنہ  کی حدیث  ہے کہ : سیدنا معاويہ بن ابو سفیان رضی الله عنہ نے ان سے پوچھا :" کیا تم کسی ایسے موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جب دو [سالانہ اور ہفتہ وار] عیدیں  ایک ہی دن اکٹھی  ہو گئی ہوں؟
تو زید بن ارقم نے جواب میں بتلایا: ہاں۔
تو انہوں نے سوال کیا  کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کیا کیا تھا؟
تو جواباً زید نے بتلایا: آپ نے نمازِ عید ادا کی، پھر نمازِ جمعہ کے بارے میں رخصت دی، اور فرمایا:  (نماز جمعہ جو پڑھنا چاہے وہ پڑھ لے)  
اس حدیث کو امام احمد ، ابو داود ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی اور مستدرک میں حاکم نے روایت کیا ہے ، اور حاکم  کہتے ہیں:  "اس حدیث کی سند صحیح ہے   اور بخاری و مسلم نے اس حدیث کو روایت نہیں کیا، نیز امام مسلم کی شرائط کے مطابق اس روایت کا ایک شاہد بھی ہے۔ ذہبی نے اس بات پر حاکم کی موافقت کی ہے، اور نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "المجموع" میں لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند جید ہے ۔

2-  اس حدیث کے جس شاہد کا ذکر اوپر ہوا ہے ، وہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے  کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ( آج کے دن دو عیدیں جمع ہو گئی ہیں، تو جو چاہے اس کے لئے یہ [عید کی نماز] جمعہ سے بھی کافی ہو گئی، اور ہم جمعہ کی نماز پڑھیں گے)۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے ، جیسے کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ، اور اس حدیث کو ابو داود ، ابن ماجہ ، ابن جارود ، بیہقی اور ان کے علاوہ دیگر محدثین نے بھی  روایت کیا ہے ۔

3-  ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث  کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک ساتھ دو عیدیں [عیدالفطر اور ہفتہ وار عید یعنی جمعہ ]ایک دن جمع  ہو گئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھانے کے بعد فرمایا:  (جو شخص جمعہ پڑھنا چاہے تو پڑھ لے، اور جو نہیں پڑھنا چاہتا تو وہ نہ پڑھے) "
 اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔ اور طبرانی نے المعجم الكبير میں ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے کہ  :  "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو عیدیں یعنی عیدالفطر اور جمعہ ایک دن جمع ہو گئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عید کی نماز پڑھائی، پھر ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: (لوگو! تم نے ثواب اور خیر کا کام کر لیا ہے، اور ہم جمعہ کی نماز پڑھنے والے ہیں، تو جو شخص ہمارے ساتھ جمعہ پڑھنا چاہتا ہے وہ جمعہ پڑھ لے، اور جو اپنے گھر واپس جانا  چاہتا ہے وہ چلا جائے)

4- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کی حدیث: " رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: (آج کے دن دو عیدیں ایک ساتھ جمع ہو گئیں ہیں ، اس لئے جو جمعہ میں نہیں آنا چاہتا ، اس کے لئے یہ عید کی نماز کافی ہے، اور ہم ان شاء اللہ جمعہ کی نماز ادا کریں گے ) "
 اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا  ہے ۔ اور علامہ بوصيری نے کہا کہ اس حدیث کی سند صحیح   اور اس کے راوی ثقہ ہیں ۔

5-   ذکوان بن صالح کی مرسل حدیث ہے کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو عیدیں  یعنی جمعہ اور عید ایک ساتھ جمع ہو گئیں ، تو آپ نے عید کی نماز ادا کرنے کے بعد کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور فرمایا: (تم نے ثواب اور خیر کا کام کر لیا ہے ، اور ہم جمعہ بھی ادا کریں گے؛ لہذا جو شخص اپنے گھر میں بیٹھنا چاہے بیٹھ جائے اور جو جمعہ ادا کرنا چاہے وہ نماز جمعہ ادا لے )"
 اس حدیث کو امام بیہقی نے السنن الكبرى میں ذکر کیا ہے ۔

6- عطاء بن ابو رباح کہتے ہیں کہ : " عبداللہ بن زبیر نے جمعہ کے دن اولین ساعتوں میں عید کی نماز با جماعت ہمیں پڑھائی، پھر ہم جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لئے دوبارہ پہنچے  تو عبداللہ بن زبیر جمعہ کے لئے نہیں آئے، تو ہم نے اکیلے اکیلے ہی نماز پڑھ لی، اس وقت عبداللہ بن عباس طائف میں تھے ، جب ہم طائف گئے تو ہم نے آپ کے سامنے عبداللہ بن زبیر کے اس عمل کا ذکر کیا ، تو آپ نے کہا: "انہوں نے سنت کے مطابق عمل کیا ہے "
 اس حدیث کو ابو داود نے روایت کیا ہے ، اور اسی حدیث کو ابن خزیمہ نے دوسرے الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے ، جس کے آخر میں یہ اضافہ ہے کہ : "عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں : "میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو جب بھی جمعہ کے دن عید آ جاتی ، تو اس طرح کرتے دیکھا ہے ""

7- صحیح بخاری اور موطا امام مالک میں  ابن ازہر کے آزاد کردہ غلام  ابو عبید  سے مروی ہے کہ : "میں نے عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ کے ساتھ دو عیدیں ایک دن میں دیکھیں ہیں ، اس دن جمعہ تھا ، تو عثمان رضی اللہ عنہ سے عید کے خطبے سے پہلے نماز پڑھائی ، اور پھر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: "لوگو !  اس دن میں تمہارے لئے دو عیدیں یک جا ہو گئیں ہیں ؛ لہذا تم میں سے جو عوالی [بیرون مدینہ علاقے] کا رہائشی ہے اور  جمعے کا انتظار کرنا چاہتے ہیں تو ہ انتظار کر لیں ، اور جو اپنے گھر جانا چاہتے ہیں ، ان کو میں نے جانے کی اجازت دے دی ہے"

8- اسی طرح علی بن ا بو طالب رضی الله عنہ  نے دو عیدیں ایک دن جمع ہونے پر فرمایا تھا: "جو جمعہ پڑھنا چاہے وہ جمعہ پڑھ لے ، اور جو بیٹھنا چاہے بیٹھ جائے "
اس کی وضاحت میں سفیان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مذکورہ بیٹھ جانے سے اپنے گھر بیٹھ جانا مراد ہے ۔ اس حدیث کو امام عبدالرزاق نے مصنف میں روایت کیا ہے ، اور اسی جیسی ایک روایت مصنف ابن ابو شیبہ کے ہاں بھی مذکور ہے ۔

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے مروی مرفوع احادیث ، متعدد صحابہ کرام رضی الله عنہم سے منقول اقوال ، اور جمہور علمائے کرام نے فقہی کتب میں  جو موقف اپنایا ہے ان کی روشنی میں دائمی فتوی کمیٹی درج ذیل احکام بیان کرتی ہے:

1-  جو عید کی نماز پڑھ لے ، تو اس کے لئے جمعہ کی ادائیگی میں رخصت ہے ؛ لہذا وہ جمعہ کے بدلے ظہر کی چار رکعت وقت پر ادا کرے ، اور اگر کوئی شخص عزیمت پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کے ساتھ جمعہ ادا کرے   تو یہ افضل ہے۔

2-  عید کی نماز میں شامل نہ ہونے والے کیلیے یہ رخصت نہیں ہے؛ لہذا جمعہ کی ادائیگی اس پر واجب ہی رہے گی، چنانچہ وہ جمعہ کے لئے مسجد پہنچے ، تاہم اگر جمعہ کی نماز کے لئے کافی تعداد میں لوگ نہیں ہیں  تو وہ  بھی ظہر کی چار رکعت پڑھ لے ۔

3-  جامع مسجد کے امام پر یہ واجب ہے کہ وہ اس دن جمعہ کی نماز کا اہتمام کرے، تاکہ جو جمعہ پڑھنا چاہے وہ جمعہ پڑھ لے، اور وہ بھی جمعہ کی نماز میں شامل ہو جائے جو عید کی نماز میں شامل نہیں ہو سکا، تاہم اس کیلیے یہ شرط ہے کہ اتنی تعداد میں لوگوں کا ہونا ضروری ہے، جس سے جمعہ کیلیے ضروری تعداد پوری ہو جائے، بصورتِ دیگر امام ظہر کی نماز پڑھائے گا۔

4-  جو شخص نماز عید پڑھ چکا ہے ،  اور وہ جمعہ کی نماز سے متعلق رخصت پر عمل کرنا چاہتا ہے تو وہ ظہر کا وقت شروع ہونے کے بعد ظہر کی نماز ادا کر لے ۔

5-  اس دن اذان صرف ان مساجد میں دینا شرعی طور پر جائز ہے ، جن میں نماز جمعہ کا اہتمام کیا جاتا ہے ، لہذا اس دن ظہر کی نماز کے لئے اذان دینا شرعی عمل نہیں ہے ۔

6- یہ کہنا کہ جو شخص نمازِ عید پڑھ لے  اس کیلیے نمازِ جمعہ اور نماز ظہر دونوں معاف ہو جاتی ہیں، بالکل غلط ہے ، اسی لئے علماء کرام نے اس کو مسترد کر تے ہوئے اسے غلط اور عجیب و غریب حکم قرار دیا ہے ؛ کیونکہ یہ سنت کے خلاف ہے ، نیز اللہ کے فرائض میں سے ایک فرض کو بلا دلیل ختم کرنے کے زمرے میں شامل ہوتا ہے، تاہم یہ ممکن ہے کہ یہ بات کہنے والوں کی نظر سے وہ احادیث یا اقوال نہیں گزرے  جن میں نماز عید ادا کرنے والے شخص پر جمعہ سے رخصت لیکن ظہر کی نماز پھر بھی فرض ہونے کا ذکر ہے ۔ واللہ اعلم

درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر۔

دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و فتاوی ۔

شیخ عبد العزیز بن عبد الله آل شیخ ۔۔ شیخ عبد الله بن عبد الرحمن غدیان ۔۔ شیخ بکر بن عبد الله ابو زید ۔۔ شیخ صالح بن فوزان الفوزان ۔.

ماخذ: اللجنۃ الدائمۃ ۔