جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

بيوى كا خاوند كى طلاق سے انكار اور خاوند كا بيوى سے جماع نہ كرنے اور اولاد پيدا نہ كرنے كا حكم

110597

تاریخ اشاعت : 15-06-2010

مشاہدات : 7122

سوال

ميرے دو سوال ہيں: كہ كيا عورت كو حق حاصل ہے كہ وہ خاوند كى جانب سے دى گئى طلاق سے انكار كر دے ؟
اور اگر خاوند اپنى بيوى سے مباشرت كرنے سے انكار كر دے اور خاص كر جب بيوى بڑى شدت سے حاملہ ہونا چاہتى ہو اور خاوند انكار كرے تو اس ميں شرعى حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جب خاوند اپنى بيوى كو طلاق دينا چاہے تو طلاق واقع ہونے كے اعتبار سے بيوى كو طلاق سے انكار كا كوئى حق نہيں بلكہ جب خاوند طلاق دے دے تو يہ طلاق واقع ہو جائيگى چاہے بيوى انكار بھى كرتى رہے، اور پھر اصل ميں طلاق دينا مكروہ ہے اسى ليے ابتدائى طور پر طلاق دينا مرغوب نہيں ہے.

ليكن ہو سكتا ہے كہ ازدواجى زندگى ميں كوئى ايسا مسئلہ كھڑا ہو جائے جس سے خاوند اور بيوى كا ايك دوسرے كے ساتھ رہنا مستحيل اور مشكل ہو جائے، تو اس حالت ميں اللہ سبحانہ و تعالى نے پورى مكمل حكمت كے ساتھ طلاق دينا مشروع كى ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اصل ميں طلاق دينا ممنوع ہے، اس سے اجتناب كرنا چاہيے، بلكہ يہ تو بقدر ضرورت و حاجت مباح كى گئى ہے، جيسا كہ صحيح ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ابليس لعين اپنا تخت سمندر پر لگاتا ہے اور اپنے لاؤ لشكر روانہ كرتا ہے، اور اس كے سب سے زيادہ قريب وہ شيطان ہوتا ہے سب سے زيادہ بڑا فتنہ پھيلانے والا ہو.

چنانچہ ايك شيطان آ كر كہتا ہے: ميں اس شخص كے ساتھ ہى چمٹا رہا حتى كہ اس نے يہ عمل كيا، اور ايك شيطان آ كر كہتا ہے ميں اس كے ساتھ ہى چمٹا رہا حتى كہ ميں نے اس اوراس كى بيوى كے مابين عليحدگى كرا دى، تو ابليس اس كے قريب ہو كر كہتا ہے ہاں تو نے بہت اچھا كام كيا، اور پھر اسے اپنے ساتھ لگا ليتا ہے "

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے جادو كى مذمت ميں فرمايا:

اور وہ ان دونوں فرشتوں سے وہ كچھ سيكھتے ہيں جس سے آدمى اور اس كى بيوى كے مابين جدائى كرائى جاتى ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 33 / 81 ).

اور ايك مقام پر رقمطراز ہيں:

" اگر طلاق دينے كى ضرورت نہ ہوتى تو دليل اس كى حرمت كى متقاضى تھى، جيسا كہ اس پر آثار اور اصول دلالت كرتے ہيں، ليكن اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے بندوں پر رحمت كرتے ہوئے اسے مباح قرار ديا ہے؛ كيونكہ بعض اوقات انہيں اس كى ضرورت ہوتى ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 89 ).

جب بيوى محسوس كرے كہ خاوند اسے طلاق دينا چاہتا ہے تو بيوى كے ليے ممكن ہے وہ اہل خير اور عقل و دانش والوں كو درميان ميں ڈال كر خاوند كو طلاق دينے سے روك دے، اور اسى طرح اس كے ليے يہ بھى ممكن ہے كہ وہ كچھ اخراجات وغيرہ سے دستبردار ہو جائے، يا پھر اپنا كوئى دوسرا حق چھوڑ دے يا رات بسر كرنے ميں كچھ كمى كر كے خاوند كو طلاق نہ دينے پر راضى كر لے جس طرح سودہ بنت زمعہ رضى اللہ تعالى عنہا كو محسوس ہوا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ انہيں طلاق دے ديں گے تو انہوں نے اپنى بارى كى رات عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو ہبہ كر دى تھى كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ ان سے زيادہ محبت كرتے تھے.

سودہ رضى اللہ تعالى عنہا يا دوسرى بيويوں نے جو بھى خرچ كيا كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى دنيا ميں بھى اور آخرت ميں بھى بيوى رہيں وہ كوئى زيادہ نہ تھا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر عورت كو خدشہ ہو كہ اس كا خاوند بدماغى كريگا اور بےپراوہى سے كام لےگا تود ونوں آپس ميں جو صلح كر ليں اس ميں كسى پر كوئى گناہ نہيں، صلح بہت بہتر چيز ہے جمع ہر ہر نفس ميں شامل كر دى گئى ہے، اگر تم اچھا سلوك كرو اور پرہيزگارى اختيار كرو تم جو كر رہے ہو اس پر اللہ تعالى پورى خبردار ہے النساء ( 128 ).

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" سودہ رضى اللہ تعالى عنہا كو خدشہ ہوا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں طلاق ديں دينگے چنانچہ انہوں نے عرض كيا:

اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ مجھے طلاق مت ديں اور مجھے اپنے پاس ہى ركھيں، اور ميرا دن آپ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے ليے ركھ ليں، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا ہى كيا، چنانچہ يہ آيت نازل ہوئى:

تو ان پر كوئى گناہ نہيں كہ وہ دونوں آپس ميں صلح كر ليں اور صلح بہت ہى بہتر ہے .

اس ليے دونوں خاوند اور بيوى جس پر بھى صلح كر ليں وہ جائز ہے.

اسے امام ترمذى نے حديث نمبر ( 3040 ) ميں روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور اس آيت كى تفسير عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بھى اسى طرح ثابت ہے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں:

اور اگر عورت كو اپنے خاوند كى بدماغى اور بےپرواہى كا خوف ہو "

اس كى تفسير ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے فرمايا:

عورت كسى مرد كے پاس ہو جو اس سے كثرت نہ ركھتا ہو اور اسے طلاق دينا چاہتا ہو اور كسى دوسرى عورت سے شادى كرنا چاہتا ہو، تو بيوى اسے كہے: مجھے ركھ لو اور طلاق نہ دو اور پھر ميرے علاوہ كسى اور سے بھى شادى كر لو، اور مجھ پر نفقہ سے بھى تمہيں چھٹى، اور تقسيم كى بھى، تو اس كے متعلق ہى اللہ تعالى كا فرمان ہے:

" چنانچہ ان دونوں پر كوئى گناہ نہيں كہ وہ آپس ميں صلح كر ليں، اور صلح بہت بہتر ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4910 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 3021 ).

ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب عورت اپنے خاوند كى نفرت كا خدشہ ركھتى ہو يا طلاق كا تو اس كے ليے اپنے حق سے دستبردار ہونا جائز ہے، يا كچھ حق سے دستبردار ہو جائے، مثلا نان و نفقہ يا لباس يا رات بسر كرنا وغيرہ كوئى حق بھى، اور خاوند اسے قبول كرے تو اس ميں كوئى گناہ نہيں، نہ بيوى پر اور نہ ہى خاوند پر كوئى گناہ ہوگا، اسى ليے اللہ تعالى كا فرمان ہے:

ان دونوں پر صلح كرنے ميں كوئى گناہ نہيں "

پھر فرمايا:

" اور صلح كرنا بہت بہتر ہے "

يعنى عليحدگى اور طلاق سے صلح كرنا بہت ہى بہتر ہے " انتہى

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 2 / 426 ).

چنانچہ طلاق تو خاوند كے ہاتھ ميں ہے، اور بيوى كو طلاق سے انكار كا حق حاصل نہيں جو طلاق واقع ہونے ميں مانع ہو، بيوى كو چاہيے كہ اگر وہ اسے اپنا خاوند ركھنا چاہتى ہے تو پھر وہ اہل خير و بھلائى كو درميان ميں ڈال كر خاوند كو طلاق سے روك سكتى ہے، اور بيوى كو يہ حق بھى حاصل ہے كہ وہ اس كے مقابلہ ميں اپنے كچھ حقوق سے دستبردار ہو جائے تا كہ خاوند اسے طلاق نہ دے.

اور اگر پھر بھى خاوند طلاق ہى دينا چاہے تو اميد ہے كہ اسى ميں دونوں كے ليے خير ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر وہ دونوں عليحدہ ہو جائيں تو اللہ تعالى ہر ايك كو اپنے وسعت سے غنى كر ديگا، اور اللہ تعالى وسعت والا حكمت والا ہے النساء ( 130 ).

دوم:

خاوند اور بيوى كو چاہيے كہ وہ دونوں ايك دوسرے كو عفت و عصمت والا بنائيں، اور كسى بھى ايك كے ليے حرام ہے كہ وہ دوسرے كو ضرر دينے كے ليے جماع سے اجتناب كرے، بلاشك و شبہ اس حالت ميں خاوند اور بيوى كے مابين كوئى فرق نہيں، اگرچہ بيوى كو شہوت نہ ہو تو بھى خاوند بيوى كے ساتھ اپنى شہوت پورى كرتا ہے، اور اس كے برعكس نہيں.

كيونكہ خاوند كا تو شہوت كى انتشار اور ہيجان كا رغبت سے تعلق ہے، اور جماع اس كے بغير نہيں ہو سكتا، ليكن جو اپنى بيوى كو عفت و عصمت والا بنا سكنے كے باوجود ايسا نہ كرے تو وہ گنہگار ہوگا؛ كيونكہ استمتاع خاوند اور بيوى دونوں كا مشتركہ حق ہے.

الا يہ كہ اگر خاوند نے بيوى سے جماع اس بنا پر كيا ہو كہ بيوى نے اللہ كى جانب سے واجب كردہ كو ترك كيا ہو، يا پھر كسى معصيت كى مرتكب ہوئى ہو، يا پھر بيمارى يا كمزورى كى بنا پر جماع نہ كيا جائے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ايك شخص اگر اپنى بيوى سے ايك يا دو ماہ تك جماع نہ كرے تو كيا وہ گنہگار ہوگا يا نہيں، اور كيا خاوند سے اس كا مطالبہ كيا جائيگا ؟

شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" خاوند پر بيوى سے اچھے اور بہتر طريقہ سے مباشرت كرنا واجب ہے، اور يہ اس كے يقينى اور تاكيدى حقوق ميں شامل ہوتا ہے، اور يہ حق بيوى كو كھانا كھلانے سے بھى بڑا ہے اور وطئ كرنا واجب ہے، كہا جاتا ہے كہ: ہر چار ماہ ميں ايك بار واجب ہے، اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: بيوى كى ضرورت اور خاوند كى استطاعت و قدرت كے مطابق ہے، بالكل اسى طرح جيسے وہ حسب قدرت اور استطاعت اسے كھانا ديتا ہے، اور دونوں ميں صحيح قول يہى ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 271 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

" جس نے بھى اپنى بيوى كو تين ماہ سے زيادہ چھوڑ ركھا اگر تو يہ بيوى كى بددماغى يعنى حقوق زوجيت ميں سے واجب حقوق ميں خاوند كى نافرمانى كى بنا پر ہو، اور بيوى وعظ و نصيحت اور اسے خاوند كے واجب كردہ حقوق كى ياد دہانى كے باوجود اس پر مصر ہو تو پھر خاوند كو حق ہے بيوى كو سبق سكھلانے كے ليے جتنا چاہے بستر ميں چھوڑ ركھے حتى كہ وہ راضى خوشى خاوند كے حقوق ادا كرنے لگے.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ نے بھى تو اپنى بيويوں كو چھوڑا تھا، اور آپ ان كے پاس ايك ماہ تك نہيں گئے تھے.

رہا مسئلہ بيوى سے بات چيت چھوڑنے كا تو تين ايام سے زائد بات چيت چھوڑنا جائز نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہى فرمايا ہے.

انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كسى بھى مسلمان شخص كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنے بھائى كو تين دن سے زيادہ چھوڑے "

اسے بخارى و مسلم اور امام احمد نے روايت كيا ہے.

ليكن اگر خاوند اپنى بيوى كو ضرر و نقصان دينے كے ليے چار ماہ تك مباشرت سے دور ركھے اور اس ميں بيوى نے خاوند كے حقوق ميں كوئى كوتاہى نہ كى ہو تو يہ ايلاء كرنے والے كى طرح ہى ہے چاہے اس نے قسم نہ اٹھائى ہو، ہم اسے ايلاء كى مدت شمار كرينگے، اور جب ايلاء كى مدت گزر جائے اور خاوند اپنى بيوى سے رجوع نہ كرے اور استطاعت ہونے كے باوجود حيض يا نفاس ميں نہ ہونے كے باوجود اس سے جماع نہ كرے تو اسے طلاق كا حكم ديا جائيگا، اور اگر وہ نہ تو بيوى سے رجوع كرے اور نہ ہى طلاق دے اور بيوى كے مطالبہ پر قاضى يا تو طلاق دےگا يا پھر اس كا نكاح فسخ كر ديگا.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے" انتہى

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد العزيز آل شيخ.

الشيخ صالح الفوزان.

الشيخ بكر ابو زيد.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 261 - 263 ).

ايسے ہى ہم يہ تنبيہ بھى كرتے ہيں كہ اولاد پيدا كرنا خاوند اور بيوى دونوں كا مشتركہ حق ہے، كسى ايك كو بھى يہ حق حاصل نہيں كہ وہ اس حق كو صرف اپنے ليے ہى مخصوص كر لے اور دوسرے كا خيال نہ كرے.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اہل علم كا كہنا ہے: آزاد عورت كى اجازت كے بغير عزل نہيں كيا جا سكتا، يعنى خاوند آزاد بيوى سے بيوى كى اجازت كے بغير عزل ( انزال باہر كرنا ) نہيں كر سكتا؛ كيونكہ بيوى كو بھى اولاد كا حق حاصل ہے، پھر بيوى كى اجازت كے بغير خاوند كے عزل كرنے ميں بيوى كے استمتاع ميں نقص و كمى ہے، اس ليے كہ عورت كا استمتاع تو ہوتا ہى انزال كے بعد ہے.

اس بنا پر بيوى كى اجازت كے بغير عزل كرنے ميں بيوى كو كمال استمتاع حاصل نہيں ہوگا، اور اسے اس سے خوشى حاصل نہيں ہوگى، اور اسى طرح عزل ميں اولاد بھى حاصل نہيں ہوگى، اس ليے ہم نے شرط لگائى ہے كہ بيوى كى اجازت سے عزل كيا جائے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 190 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 5971 ) اور ( 10680 ) اور ( 93230 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب