جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

سال نو كى رات ذكر و دعا اور تلاوت قرآن كا حكم

سوال

ميں نے يہ ميسج انٹرنيٹ پر بہت ديكھا ہے ليكن حقيقت ميں مجھے شك تھا كہ يہ بدعت ہے اس ليے ميں نے يہ ميسج كسى كو نہيں بھيجا، كيا اس كو نشر كرنا جائز ہے، اور كيا اس كا اجروثواب حاصل ہو گا يا بدعت ہونےكى بنا پر يہ جائز نہيں ؟
ميسج يہ ہے:
ان شاء اللہ ہم سب سال نو كے موقع پر رات بارہ بجے دو ركعت نماز ادا كريں گے، يا قرآن مجيد كى تلاوت يا اپنے پروردگار كا ذكر كريں گے، يا دعا كيونكہ اگر اس وقت ہمارا پروردگار زمين كى طرف ديكھے گا جب اكثر لوگ معصيت و نافرمانى كا ارتكاب كر رہے ہيں تو وہ مسلمانوں كو ديكھے گا كہ وہ اس كى اطاعت و فرمانبردارى ميں مصروف ہيں، آپ كو اللہ كى قسم يہ ميسج ہر شخص كو ارسال كريں جو آپ كے پاس ہيں كيونكہ جتنى بھى ہمارى تعداد زيادہ ہو گى ہمارا رب زيادہ خوش و راضى ہو گا، برائے مہربانى اس كے متعلق معلومات فراہم كريں اللہ آپ كو جزا دے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ نے يہ ميسج نشر نہ كر كے انتہائى اچھا كام كيا ہے، يہ ميسج بہت سارى ويب سائٹس پر پھيلا ہوا ہے جس پر عام اور جاہل قسم كے لوگ چھائے ہوئے ہيں.

اور جنہوں نے يہ ميسج نشر كيا ہے اور مسلمانوں سے چاہا ہے كہ وہ نماز ادا كريں اور ذكر كريں ہم ان كى نيت ميں شك نہيں كرتے ان كى نيت اچھى اور عظيم تھى، خاص كر انہوں يہ چاہا كہ معصيت كے اوقا يت ت ميں نيكى و اطاعت كى جائے، ليكن يہ اچھى اور صالح نيت كسى عمل كو صحيح اور مقبول اور شرعى نہيں بنا سكتى، بلكہ اس كے ليے ضرورى ہے كہ عمل سبب اور جنس اور كيفيت اور كميت اور وقت و جگہ كے اعتبار سے شريعت كے موافق ہو.

ان چھ اصناف كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 21519 ) كے جواب كا مطالعہ كريں، اس طرح مسلمان شخص بدعت اور شرعى عمل كے مابين امتياز كر سكتا ہے.

اس ميسج كو نشر كرنے ميں مانع اسباب كو درج ذيل نقاط ميں محصور كيا جا سكتا ہے:

1 ـ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور سے ليكر آج تك جاہليت كے تہوار و مواقع اور اہل كفر اور گمراہ لوگوں كے تہوار پائے جاتے رہے ہيں ليكن ہميں كوئى نص نبوى نظر نہيں آتى كہ جس ميں جب ہمارے علاوہ دوسرے معصيت كا ارتكاب كر رہے ہوں تو ہم اطاعت و فرمانبردارى كرنا شروع كر ديں، اور نہ ہى ہميں كوئى ايسى نص نبوى ملتى ہے جو بدعتى فعل كے وقت ہميں كوئى مشروع عمل كرنے كى ترغيب دلاتى ہو، اور اسى طرح كسى بھى مشہور امام سے اس فعل كا استحباب منقول نہيں.

يہ تو ايسے ہے كہ معصيت كا علاج بدعت كے ساتھ كيا جا رہا ہے، بالكل اسى طرح جس طرح حزن و غم ميں يوم عاشوراء كے موقع پر شيعہ حضرات سينہ كوبى اور ماتم كر كے كرتے ہيں، اور اس كے علاج ميں كچھ لوگ اس موقع پر فرحت و خوشى كا اظہار اور زيادہ خرچ كر كے كرتے ہيں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رہا مسئلہ مصائب كے ايام كو ماتم كے ايام بنا لينا تو يہ مسلمانوں كے دين ميں نہيں، بلكہ يہ جاہليت كے دين كے زيادہ قريب ہے، پھر انہوں نے اس كى وجہ سے روزہ ركھنے كى جو فضيلت تھى وہ بھى كھو دى، اور بعض لوگوں نے اس روز وہ اشياء ايجاد كر لي ہيں جو بعض موضوع قسم كى احاديث كى طرف منسوب ہيں جن كى كوئى اصل نہيں، مثلا اس روز غسل كرنے كى فضيلت، يا پھر سرمہ لگانے يا مصافحہ كرنے كى فضيلت، اس كے علاوہ دوسرے ايجاد كردہ امور يہ سب مكروہ ہيں، بلكہ صرف اس دن روزہ ركھنا مستحب ہے.

اور اہل و عيال پر اس دن زيادہ خرچ كرنے ميں معروف آثار مروى ہيں، ان ميں سب سے اعلى يہ حديث اور اثر ہے:

ابراہيم بن محمد بن المنتشر اپنے باپ سے بيان كرتے ہيں: كہ ہميں يہ بات پہنچى ہے جو يوم عاشوراء ميں اپنے اہل و عيال پر زيادہ خرچ كرتا ہے، اللہ تعالى سارا سال اس پر وسعت كرتا ہے"

اسے ابن عيينہ نے روايت كيا ہے.

يہ روايت منقطع ہے اور اس كے قائل كا علم نہيں، اور زيادہ يہى معلوم ہوتا ہےكہ جب نواصب اور روافض كے مابين تعصب پيدا ہو گيا تو يہ وضع كر لى گئى؛ كيونكہ شيعہ اور روافض نے يوم عاشوراء كو ماتم اور غم و حزن كا دن بنا ليا، اور اس كے مقابلہ ميں دوسروں نے ايسے آثار وضع كر لے جو يوم عاشوراء كے دن زيادہ خرچ كرنے كا تقاضا كريں، اور انہوں نے اسے عيد بنا ليا يہ دونوں ہى باطل ہيں...

ليكن كسى بھى شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ كسى دوسرے كے ليے شريعت ميں تغير و تبدل كر لے، اور پھر يوم عاشوراء ميں فرحت و خوشى كا اظہار كرنا، اور اس دن اہل و عيال پر زيادہ خرچ كرنا يہ سب بدعات ميں شامل ہوتا ہے، اور رافضى شيعہ كا مقابلہ ہے....

ديكھيں: اقتضاء الصراط المستقيم ( 300 - 301 ).

ہم نے سوال نمبر ( 4033 ) كے جواب ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كى ايك اور بہت ہى نفيس كلام نقل كى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

2 ـ دعا اور نماز كے ليے شريعت ميں كچھ افضل اوقات پائے جاتے ہيں، جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں ايسا كرنےكى ترغيب دلائى ہے مثلا: رات كا آخرى حصہ، جو كہ اللہ رب العزت كا آسمان دنيا پر نزول كا وقت ہے، اور كسى ايسے وقت ايسا كرنے كى ترغيب دلانا جو شريعت ميں وارد نہيں اور صحيح نص ميں نہيں ملتا تو يہ سبب اور وقت ميں تشريع ہے، اور ان ميں سے كسى ايك كى مخالفت ہى اس فعل كے بدعت ہونے كاحكم لگانے كے ليےكافى ہے، تو پھر ايك دونوں كى مخالفت ہو تو آپ كيا خيال كرتے ہيں ؟!

اور سوال نمبر ( 8375 ) ميں ہم سے ميلادى سال نو كے موقع پر فقير خاندانوں پر صدقہ كرنے كے متعلق دريافت كيا گيا تو ہم نے اس كے جواب ميں ايسا كرنے سے منع كيا ہے، وہاں ہم نے درج ذيل بات كہى ہے:

جب ہم مسلمان صدقہ كرنا چاہتے ہيں تو يہ صدقہ حقيقى مستحق تك پہنچايا جاتا ہے، اور ہم اسے كفار كے تہوار كے موقع نہيں كرتے كہ اس دن صدقہ كيا جائے، بلكہ جب بھى ضرورت و حاجت ہو صدقہ كرتے ہيں، اور خاص كر عظيم خير و بھلائى كے مواسم تلاش كرتے ہيں مثلا رمضان اور عشرہ ذوالحجہ يعنى ذوالحجہ كے پہلے دس ايام، اور دوسرے نيكى كے مواسم. انتہى

اصل ميں مسلمان شخص كو اتباع كرنى چاہيے نہ كہ بدعتا كى ايجاد اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

كہہ ديجئے اگر تم اللہ تعالى سے محبت كرنا چاہتے ہو تو ميرى ( محمد صلى اللہ عليہ وسلم ) كى اتباع كرو اللہ تعالى تم سے محبت كرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ تعالى بخشنے والا اور رحم كرنے والا ہے، كہہ ديجئے اللہ تعالى كى اور رسول كى اطاعت كرو، اگر تم پھر جاؤ تو يقينا اللہ تعالى كافروں سے محبت نہيں كرتا آل عمران ( 31 - 32 ).

ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

يہ آيت كريمہ ہر اس شخص كے حاكم كا درجہ ركھتى ہے جو اللہ سے محبت كا دعوى كرتا ہے ليكن وہ محمدى طريقہ پر نہيں، كيونكہ وہ اپنے دعوى ميں اس وقت تك جھوٹا ہے جب تك شريعت محمدى دين نبوى كى اپنے سارے اقوال و اعمال اور احوال ميں اتباع نہيں كرتا، جيسا كہ صحيح مسلم ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے آپ نے فرمايا:

" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے "

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 2 / 32 ).

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ اپنى جان سے بھى زيادہ محبت كرو، كيونكہ اس كے بغير ايمان مكمل نہيں ہوتا، اور تم اپنے دين ميں كوئى ايسى چيز نئى ايجاد مت نہ كرو جو اس ميں سے نہيں.

لہذا طالب علم اور علماء پر واجب وہ لوگوں كے ليے بيان كريں اور انہيں كہيں كہ: تم شرعى اور صحيح عبادات ميں مشغول رہو، اور اللہ كا ذكر كرو، اور ہر وقت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھا كرو، اور نماز كى پابندى كرو، اور زكاۃ ادا كرتے رہو، اور ہر وقت مسلمانوں كے ساتھ حسن سلوك كرو "

ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 35 / 5 ).

3 ـ ان معاصى اور منكرات كے متعلق جو آپ پر واجب ہے يعنى امر بالمعروف اور نہى عن المنكر اسے تم چھوڑ ديتے ہو اس پر عمل نہيں كرتے، اور نہ ہى مخالفين كو وعظ و نصيحت كرتے ہو، اور اجتماعى منكرات و معاصى كے ہوتے ہوئے تمہارا انفرادى طور پر عبادات ميں مشغول رہنا اچھا نہيں.

اس ليے ہمارى رائے ميں اس طرح كے پملفٹ نشر كرنے حرام ہيں، اور اس طرح كے مواقع پر ان اطاعات كا التزام كرنا بدعت ہے، بلكہ تمہارے ليے ان شركيہ يا بدعتى تقريبات ميں حرام جشن منانے سے بچنے كى ترغيب دلانى ہى كافى ہے، تمہيں اس كا اجروثواب حاصل ہو گا، اور ان معاصى و گناہ كے متعلق اپنے فرض كى ادائيگى سے سبكدوش ہو جاؤگے.

نيك و صالح نيت كے متعلق اہم فوائد اور اس كى تفصيل معلوم كرنے كے ليے كہ يہ نيت كسى بدعتى كے بدعت والے عمل كو اجروثواب والا نہيں بنا سكتى اس كا مطالعہ كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 60219 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب