منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

بوصیری کے "قصیدہ بردہ " کے کفریہ عقائد کا بیان

115502

تاریخ اشاعت : 06-05-2014

مشاہدات : 23872

سوال

میں نے "قصیدہ بردہ " کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے، کچھ کہتے ہیں کہ یہ اچھا اور مفید ہے، جبکہ کچھ لوگ اسے شرکیہ کہتے ہیں؛انکا کہنا ہے کہ اس کے کچھ اشعار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی اللہ کی صفات سے کی گئی ہے، میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ : کیا یہ واقعی شرک ہے، تا کہ میں اس سے گریز کرو؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

"قصیدہ بردہ " اگر ہم یہ نا کہیں کہ سب سے مشہور ترین نعتیہ قصیدہ ہے لیکن کم از کم یہ ضرور ہے کہ اسکا شمار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کیلئے مشہور قصیدوں میں ہوتا ہے، اسکو "بوصیری" نے ترتیب دیا تھا جسکا نام: محمد بن سعید بن حماد صنھاجی ہے، (پیدائش 608 ہجری اور وفات 696 ہجری) ہے۔

اس کے سبب ورود کے بارے میں کہا گیا ہے کہ :"بوصیری" کو ایک مہلک بیماری لگ گئی تھی ، جس کے سامنے تمام حیلے غیر مفید ثابت ہوئے، لیکن بوصیری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود پڑھا کرتا تھا، تو ایک رات خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، آپ نے "بوصیری" کو اپنی چادر مبارک سے ڈھانپ لیا، چنانچہ جب "بوصیری" کی آنکھ کھلی اور اپنے بستر سے کھڑا ہوا تو وہ بالکل تندرست تھا، تو اس نے یہ قصیدہ ترتیب دیا"، اس واقعے کی حقیقت کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

دوم:

مذکورہ قصیدہ صریح کفریہ جملوں پر مشتمل ہے، اور اہل سنت والجماعت کے علمائے کرام اس پر مسلسل تنقید ، رد، اور اسکی خامیوں کو بیان کرتے آئے ہیں،جس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ یہ قصیدہ عقیدہ اہل سنت والجماعت کے عقائد کے بالکل بر خلاف ہے۔

اس قصیدے کے مشہور ترین زیر تنقید مصرعوں میں درج ذیل مصرعے شامل ہیں:

1. يا أكرمَ الخلْقِ مالي مَن ألوذُ به ***** سواك عند حدوثِ الحادثِ العَمم

اے مکرم ترین مخلوق، میرے لئے حوادثات زمانہ سے بچاؤ کیلئے تیرے سوا کوئی نہیں پناہ گاہ نہیں۔

2. إن لم تكن آخذاً يوم المعاد يدي ***** عفواً وإلا فقل يا زلة القدم

اگر آپ نے روزِ قیامت فضل وکرم کرتے ہوئے میری دستگیری نہ کی تو میں یہی کہوں گا :"ہائے میرے قدموں کی لغزش"

3. فإن مِن جودك الدنيا وضَرتها ***** ومن علومك علم اللوح والقلم

بے شک آپ ہی کے وجود سے دنیا اور دنیاوی خوشحالی کی بقا ہے، اور لوح وقلم آپکے علم کا ایک حصہ ہیں۔

4. دع ما ادعته النصارى في نبيهم ***** واحكم بما شئت مدحاً فيه واحتكم

عیسائیوں نے جو غلو اپنے نبی کے بارے میں کیا اسے چھوڑ دو اور اسکے بعد جو چاہو اپنے نبی کی شان میں کہتے جاؤ اور پھر جس سے چاہو فیصلہ کروالو۔

5. لو ناسبت قدره آياته عظما ***** أحيا اسمه حين يدعى دارس الرمم

اگر آپکو آپکی شایان شان معجزے دئیے جاتے تو آپکا نام لینے سے بوسیدہ ہڈیاں بھی قبروں میں زندہ ہوجاتیں۔

6. فإن لي ذمة منه بتسميتي ***** محمداً وهو أوفى الخلق بالذمم

میں نے اپنا نام محمد رکھ کر آپ سے ایک عہد وپیمان لے لیا ہے، اور آپ مخلوقات میں سب سے زیادہ عہد وپیمان وفا کرنے والے ہیں۔

سوم:

اہل علم کی ان اشعار پر تنقید اور تردید درج ذیل ہے:

1- شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"مُلک" [یعنی دنیا و آخرت کی بادشاہت کے بارے میں] تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالی کا فرمان: ( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) اور ایک قراءت کے مطابق ( مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) ہے، اسکا تمام مفسرین کے ہاں وہی مطلب ہے جو اللہ تعالی نے اپنے فرمان: ( وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ . ثُمَّ مَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ . يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئاً وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ ) اور آپکو کیا معلوم بدلے کا دن کیا ہے؟ پھر آپکو کیا معلوم کہ بدلے کا دن کیا ہے؟ اس دن کوئی جان کسی کیلئے کچھ بھی نہیں کرسکے گی، [کیونکہ] اس دن حکم صرف اللہ کا چلے گا۔ الانفطار/ 17 – 19 میں بیان کیا ہے۔

چنانچہ جس شخص نے اس آیت کریمہ کی تفسیر کو سمجھ لیا، اسے قیامت کے دن کی بادشاہی کو خاص کرنے کی وجہ سمجھ آجائے گی، کیونکہ اللہ تعالی تو اُس دن اور دیگر تمام ایام کا بادشاہِ مطلق ہے، اُسے یہ بات سمجھ آئے گی کہ یہ اتنا بڑا اور اہم مسئلہ ہے کہ جو کوئی بھی جنت میں گیا اسکی وجہ یہی تھی کہ اس نے اللہ کی روزِ جزا کے دن بادشاہت مطلق کو سمجھ لیا تھا، اور جو کوئی بھی جہنم واصل ہوگا اسکی وجہ یہ ہوگی کہ اُس نے اللہ کی روزِ جزا کے دن بادشاہتِ مطلق کو نہیں سمجھا ۔

یہ اتنا عظیم مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص صرف اسی کو سمجھنے کیلئے بیس سال بھی سفر میں سرگرداں رہے تب بھی اسکا حق ادا نہ ہوگا، مذکورہ بالا روزِ روشن کی طرح عیاں قرآنی مفہو م ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی کی عکاسی کی اور فرمایا: (اے فاطمہ بنت محمد!میں اللہ کے ہاں تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا) چنانچہ قصیدہ بردہ کے درج ذیل مصرعوں پر بھی ذرا سا غور کرے:

ولن يضيق رسولَ الله جاهك بي ***** إذا الكريم تحلي باسم منتقم

قیامت کے روز جب اللہ کی ذات انتقام لینے والی ہوگی تو میرے لئے [یا] رسول اللہ آپکا مقام ومرتبہ ضرور فراخ دامنی کا ثبوت دیگا۔

فإن لي ذمة منه بتسميتي ***** محمداً وهو أوفى الخلق بالذمم

میں نے اپنا نام محمد رکھ کر آپ سے ایک عہد وپیمان لے لیا ہے، اور آپ مخلوقات میں سب سے زیادہ عہد وپیمان وفا کرنے والے ہیں۔

إن لم تكن في معادي آخذاً بيدي ***** فضلاً وإلا فقل يا زلة القدم

اگر آپ نے روزِ قیامت فضل وکرم کرتے ہوئے میری دستگیری نہ کی تو میں یہی کہوں گا: "ہائے میرے قدموں کی لغزش"

جو شخص اپنی خیر خواہی چاہتا ہے وہ ان اشعار کا معنی غور سے سمجھے کہ یہ کیا ہے!؟جو لوگ اس قصیدہ کے پیچھے دیوانہ وار لگے ہوئے ہیں ذرا سوچیں، جو عالم ہونے کے دعویدار ہیں، جنہوں نے قرآن سے زیادہ اسکے پڑھنے کو ترجیح دی ہے، کیا ان شعروں کی تصدیق اور اللہ کے فرمان: (اس دن کوئی جان کسی کیلئے کچھ بھی نہیں کرسکے گی، [کیونکہ] اس دن حکم صرف اللہ کا چلے گا) الانفطار/ 19 اور فرمانِ رسالت : (اے فاطمہ بنت محمد!میں اللہ کے ہاں تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا) پر ایمان ایک دل میں اکٹھے ہوسکتے ہیں؟! نہیں ، اللہ کی قسم !، نہیں ، اللہ کی قسم !، نہیں ، اللہ کی قسم ! کبھی نہیں اکٹھے ہوسکتے، ہاں ایسے دل میں اکٹھے ہوسکتے ہیں جو موسی علیہ السلام کو بھی سچا کہے اور فرعون کو بھی سچا مانے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حق پر سمجھے اور ابو جہل کو بھی حق پر جانے، اللہ کی قسم! کبھی بھی دونوں یکساں نہیں ہوسکتے، اور اس وقت تک یہ دونوں جدا جدا رہیں گے جب تک کوّا سفید نہیں ہوجاتا۔

چنانچہ جو شخص اس مسئلہ کو ، اور قصیدہ بردہ کو اچھی طرح سمجھ لے اور قصیدہ بردہ کے دلدادہ لوگوں کے پہچان لے تو اسے اسلام کی اجنبیت کا اندازہ ہو جائے گا" انتہی

ماخوذ از: " تفسير سورة فاتحہ " از: " مؤلفات شيخ محمد بن عبد الوهاب " (5/13)

2- شیخ عبد الرحمن بن حسن آلِ شیخ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"عبد الرحمن بن حسن ، اور انکے صاحبزادے عبد اللطیف کی جانب سے عبد الخالق الحفظی کی جانب:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ہمیں تقریبا دو سال قبل پتا چلا تھا کہ آپ بوصیری کے "قصیدہ بردہ" پر کام کر رہے ہیں، اس میں بالکل واضح لفظوں میں شرکِ اکبر موجود ہے، مثال کے طور پر:

" يا أكرم الخلق ما لي من ألوذ به سواك "۔۔۔ الخ، اس جیسے شعروں میں آخرت کے دن ملنے والے ثواب کا مطالبہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا ہے۔۔۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افضل ترین نبی ہونے کی وجہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ جن امور سے اللہ تعالی نے اپنے تمام بندوں کو یا چیدہ چیدہ لوگوں کو منع فرمایا ہو ان سے آپکو استثناء حاصل ہو، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ آپ بھی ان ممنوعہ کاموں سے رک جائیں، اور ان سے اظہار لاتعلقی کا اعلان کریں، جیسے کہ عیسی بن مریم علیہ السلام کے بارے میں سورہ المائدہ کی آخری آیات میں اور فرشتوں کے بارے میں سورہ سبأ میں ہے کہ انہوں نے شرکیہ امور سے اعلانِ لا تعلقی کیا۔

شعر میں مذکور لفظ " ألوذ " "اللیاذ" سے ہے جو کہ "العیاذ" ہی کی طرح ہے، جسکا مطلب ہے پناہ حاصل کرنا، فرق یہ ہے کہ "العیاذ" شر سے بچاؤ کیلئے استعمال ہوتا ہے، جبکہ "اللیاذ" نفع حاصل کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے، چنانچہ امام احمد وغیرہ رحمہم اللہ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ تعوذ یعنی کسی کے شر سے بچاؤ کیلئے پناہ صرف اللہ تعالی، اسمائے حسنی، اور صفات باری تعالی ہی کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے، لہذا غیر اللہ سے پناہ مانگنا شرک ہے، [اللیاذ اور العیاذ]دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

بوصیری کا یہ کہنا کہ: " فإن من جودك الدنيا وضرتها " یعنی: "بے شک آپ ہی کے وجود سے دنیا اور دنیاوی خوشحالی کی بقا ہے"، تو یہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی بادشاہتِ مطلق کے منافی ہے، مزید برآں یہ کہ مذکورہ شعر قرآن مجید کی متعدد آیات کے بھی خلاف ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

( لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ) ترجمہ: آج کس کی بادشاہت ہے؟ صرف ایک صاحبِ قہر اللہ کیلئے ہے۔

اسی طرح سورہ فاتحہ کی آیت کے بھی منافی ہے:

( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) ترجمہ: وہی قیامت کے دن کا مالک ہے۔

ایک اور آیت کے بھی منافی ہے:

( يَوْمَ لا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئاً وَالأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ ) ترجمہ: اس دن کوئی نفس کسی کیلئے کچھ بھی کرنے کی استطاعت نہیں رکھے گا، اور تمام معاملات کی باگ ڈور اللہ کے قبضے میں ہوگی۔

بوصیری نے اپنے قصیدے میں اور بھی اسی طرح کے اشعار کہے ہیں، جس میں شرک کی بھر مار ہے" انتہی

"رسائل وفتاوى شيخ عبد الرحمن بن حسن بن محمد عبد الوهاب" (1/82)

3- شیخ سلیمان بن عبد اللہ آل شیخ رحمہ اللہ مذکورہ بالا کچھ اشعار ذکر کرنے کے بعد کہتےہیں: "غور کیجئے کہ ان اشعار میں کس قدر شرک ہے"

مثال کے طور پر: شاعر نے اپنے لئے حالت تکلیف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بھی جائے پناہ کا یکسر انکار کیا ہے، حالانکہ یہ مرتبہ صرف اللہ ہی کیلئے خاص ہے کہ وہ ہی اپنے بندوں کیلئے عالم پناہ ہے، اسکے علاوہ کوئی نہیں۔

دوم: شاعر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا مانگی ہے، گڑگڑا کر آپکو پکارا بھی ہے، اپنی تنگی ترشی کا اظہار بھی کیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مجبور ہوکر دستِ سوال بھی پھیلایا ہے، جو کہ صرف اور صرف اللہ کے سامنے ہی پھیلایا جاسکتا ہے، یہی عمل عبادت میں شرک ہے۔

سوم: شاعر نے آپ سے شفاعت کا سوال کیا ، اور کہا: " ولن يضيق رسول الله ۔۔۔الخ"حقیقت یہ ہے کہ مشرکین کا بھی اپنے معبودانِ باطلہ کے بارے میں یہی نظریہ تھا، کہ انکا اللہ کے ہاں خوب جاہ و جلال ہے، وہ اللہ کے ہاں شفاعت کرسکتے ہیں، اور یہی شرک ہے، ویسے بھی اللہ کے ہاں جب شفاعت اسکی اجازت کے بغیرہو ہی نہیں سکتی، تو پھر غیر اللہ سے مانگنے کا کیا مطلب؟ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی ہی جس سفارشی کو چاہے گا سفارش کرنے کی اجازت دیگا کہ وہ سفارش کرے، ایسا ہر گز نہیں ہوگا کہ کوئی اپنی مرضی کے مطابق کسی کی سفارش کرتا پھرے۔

چہارم: شاعر کا کہنا:" فإن لي ذمة ۔۔۔الخ" یہ تو سراسر اللہ پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان ہے، کیونکہ صرف "محمد" نام رکھنے سے کوئی عہد وپیمان نہیں ہوسکتا، بلکہ عہد وپیمان تو صرف اطاعت گزاروں کو ہی مل سکتا ہے، صرف نام رکھ کر شرک کرتے رہنے سے عہد وپیمان نہیں ملتا۔

یہاں پر کھلا تضاد ، اور شرک والحاد عیاں ہے، کیونکہ شاعر نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاہ و جلال کی وسعت ذکر کی، اور پھر یہاں آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا ہے کہ آپ فضل واحسان کرتے ہوئے دستگیری فرمائیں، ورنہ میں تباہ ہو جاؤں گا۔

تو یہاں کہا جاسکتا ہے کہ: آپ کس طرح پہلے شفاعت طلب کرتے ہو، اور پھر بعد میں فضل کرنے کی التماس بھی کرتے ہو!!

اگر اسکے جواب میں آپ کہتے ہو کہ : شفاعت اللہ کی اجازت ہی سے ہوگی۔

تو کہا جائے گا کہ پھر آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت کی دعا کیوں کی، اور ان سے کیوں امید لگائے بیٹھے ہو؟ آپ اس ذات سے کیوں شفاعت نہیں مانگتے جو تمام شفاعتوں کا مالک ہے، آسمان وزمین کی بادشاہت اسی کی ہے، جسکی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت ہو ہی نہیں سکتی!! چنانچہ اس بات کی بنا پر تمہارے لئے غیر اللہ سے سفارش مانگنا باطل قرار پائے گا۔

اگر تم یہ کہو کہ: میں تو اللہ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاہ وجلال اور شفاعت کا طالب ہوں۔

تو کہا جائے گا کہ: آپ کس طرح قیامت کے دن اُن سے دستگیری اور کرم نوازی کی التماس کرتے ہو، حالانکہ یہ بات تو فرمانِ باری تعالی کے بالکل منافی ہے: ( وما أدراك ما يوم الدين . ثم ما أدرك ما يوم الدين . يوم لا تملك نفس لنفس شيئاً . والأمر يومئذ لله ) ترجمہ: "اور آپکو کیا معلوم بدلے کا دن کیا ہے؟ پھر آپکو کیا معلوم بدلے کا دن کیا ہے؟ اس دن کوئی نفس کسی کیلئے کچھ بھی نہیں کر سکے گی، اور تمام معاملات کی باگ ڈور اللہ کے ہاتھ میں ہوگی" تو کس طرح ایک انسان کے دل میں دو متضاد چیزوں [اللہ تعالی کی قیامت کے دن بادشاہتِ مطلق، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دستگیری کی امید] پر ایمان یکجا ہوسکتا ہے؟!

اور اگر آپ کہو کہ:میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دستگیری کا سوال کیا ہے، اور اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ اپنے جاہ وجلال اور شفاعت کے ذریعے مجھ پر احسان کریں۔

تو کہا جائے گا کہ: معاملہ پھر دوبارہ غیر اللہ سے شفاعت طلب کرنے کا آجائے گا، جو کہ خالص شرک ہے۔

پنجم: ان اشعار میں دنیا اور آخرت کی مصیبتوں کے بارے میں مخلوق پر اعتماد اور اللہ عز وجل سے اعلان لا تعلقی بھی ہے، جوکسی مؤمن سے پوشیدہ نہیں ، یہ اشعار سورہ فاتحہ کی آیت:

(إياك نبعد وإياك نستعين) ترجمہ: ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔

سورہ توبہ کی آیت:

فَإِن تَوَلَّوْاْ فَقُلْ حَسْبِيَ اللّهُ لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ اگر وہ بات ماننے سے پھر جائیں تو آپ کہہ دیں: مجھے اللہ ہی کافی ہے، اسکے علاوہ کوئی معبود نہیں، اسی پر میں توکل کرتا ہوں، اور عرشِ عظیم کا رب ہے۔(129) سورة التوبة۔

سورہ فرقان کی آیت:

وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِ وَكَفَى بِهِ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا اور آپ اس ذات پر بھروسہ رکھیں جو ہمیشہ زندہ رہے گی اور اسے کبھی موت نہیں آئے گی(58) سورة الفرقان

سورہ جن کی آیات:

(قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا[21]قُلْ إِنِّي لَن يُجِيرَنِي مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا[22]إِلَّا بَلَاغًا مِّنَ اللَّهِ وَرِسَالَاتِهِ) آپ فرمادیں کہ: میں تمہارے لئے کسی نفع نقصان کا مالک نہیں ہوں[21] آپ یہ بھی کہہ دیں کہ: مجھے کوئی بھی اللہ سے نہیں چھڑا سکتا ، اور نہ ہی مجھے اسکے علاوہ کوئی جائے پناہ مل سکتی ہے، [22] میں تو صرف اللہ کا حکم اور اسکا پیغام ہی تم تک پہنچا سکتا ہوں۔ (21-23) سورة الجن

اور اگر کوئی کہتا ہے کہ: شاعر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں مانگا، بلکہ شاعر نے یہ بتلانے کی کوشش کی ہے کہ اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا حقدار نہ ٹھہرا تو شاعر برباد ہوجائے گا۔

تو اسکے جواب میں کہا جائے گا کہ: اس شعر میں اصل مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگنا ہی ہے، شاعر نے آپ سے فضل مانگا ہے، جیسے کہ شاعر نے ابتدا ہی میں آپ سے مانگا، اور یہ بھی بتلایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اسکا کوئی پناہ کا ذریعہ نہیں ہے، پھر آگے چل کر اس نے صراحت کیساتھ شرط اور دعائیہ الفاظ کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضل، اور احسان کا مطالبہ کیا ہے۔

اور سوال جس طرح مطالبے کے ذریعے ہوتا ہے، اسی طرح شرطیہ الفاظ کے ساتھ بھی سوال کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر نوح علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دعا کی تھی: (وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ) ترجمہ: اور اگر توں نے مجھے معاف نہ کیااور رحم نہ کیا تو میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوجاؤں گا۔ ہود/47[یعنی، اے اللہ توں مجھ پر رحم فرما، اور مجھے معاف بھی کردے] انتہی۔

4- شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

"میں نے ایک حدیث پڑھی ہے، کیا یہ صحیح ہے؟ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: (جس کا نام محمد ہو تو اسے نہ تو مارو، اور نہ ہی گالی دو)"

تو انہوں نے جواب دیا: "یہ حدیث من گھڑت ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت ہے، سنت مطہرہ کے خزانے میں اسکا کوئی وجود نہیں، بالکل اسی طرح یہ حدیث بھی ہے: (جس نے محمد نام رکھا ، تو اسکے لئے محمد [صلی اللہ علیہ وسلم ]کی طرف سے عہد وپیمان ہے، اور عین ممکن ہے کہ وہ اپنا نام محمد رکھنے کی وجہ سے جنت میں داخل ہوجائے)[!] ایسے ہی یہ حدیث بھی جھوٹی ہےکہ: (جس شخص کا نام محمد ہوگا تو اسے اپنے گھر میں بہت کچھ ملے گا) ان تمام روایات کی صحت کیلئے کوئی بنیاد ہی نہیں ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ اصل اعتبار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر نام رکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کتنے ہی لوگ ہم دیکھتے ہیں جسکا نام تو محمد ہوگا، لیکن وہ بڑا ہی خبیث انسان ہوتا ہے، کیونکہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہیں کی ، آپکی شریعت کے سامنے سرِ تسلیم خم نہیں کیا، چنانچہ نام کی وجہ سے لوگوں میں پاکیزگی نہیں آتی، بلکہ ان کے اچھے اعمال اور خوفِ الہی انہیں پاکیزہ بناتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کافر نے احمد، محمد یا ابو القاسم نام رکھ لیا ، تو اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس لئے انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے اور اللہ کی اطاعت کرے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے جو شریعت دیکر بھیجا ہے، اس پر قائم رہے، تو اسکو کوئی فائدہ ہوگا، کیونکہ یہی نجات کا راستہ ہے، لہذا صرف نام رکھ کر شریعت پر عمل سے خالی رہنا جزا و سزا کا موجب نہیں ہے۔

اور بوصیری نے اپنے قصیدہ بردہ میں یہی غلطی کی ہےکہ:

فإن لي ذمة منه بتسميتي ... محمَّداً وهو أوفى الخلق بالذمم

میں نے اپنا نام محمد رکھ کر آپ سے ایک عہد وپیمان لے لیا ہے، اور آپ مخلوقات میں سب سے زیادہ عہد وپیمان وفا کرنے والے ہیں۔

اور اس سے بڑھ کر غلطی اپنے ان مصرعوں میں کی جیسے کہ اس نے کہا:

يا أكرمَ الخلْقِ مالي مَن ألوذُ به ***** سواك عند حدوثِ الحادثِ العَمم

اے مکرم ترین مخلوق، میرے لئے عام حوادثات سے بچاؤ کیلئے تیرے سوا کوئی نہیں پناہ گاہ نہیں۔

إن لم تكن آخذاً يوم المعاد يدي ***** عفواً وإلا فقل يا زلة القدم

اگر آپ نے روزِ قیامت فضل وکرم کرتے ہوئے میری دستگیری نہ کی تو میں یہی کہوں گا ہائے میرے قدموں کی لغزش۔

فإن مِن جودك الدنيا وضَرتها ***** ومن علومك علم اللوح والقلم

بے شک آپ ہی کے وجود سے دنیا اور دنیاوی خوشحالی کی بقا ہے، اور لوح وقلم آپکے علم کا ایک حصہ ہیں۔

چنانچہ اس بیچارے نے آخرت کے دن میں بھی اللہ کو چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پناہ کا ذریعہ بنایا، اور اللہ تعالی کو بھول گیا، اور کہہ دیا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی دستگیری نہ فرمائی تو وہ تباہ ہوجائے گا، حالانکہ اللہ نفع و نقصان، اور لینے دینے کا مالک ہے، وہ اپنے اولیائے کرام، اور اطاعت گزار لوگوں کو نجات دیتا ہے، لیکن بوصیری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا و آخرت کا مالک اور عالم غیب بنانے کے ساتھ ساتھ دنیا و آخرت کو آپکی سخاوت کا حصہ قرار دیا، یہ بھی کہہ دیا کہ لوح وقلم میں موجود علم آپکے وسیع علوم کا حصہ ہے، اور یہی صریح کفر ہے، بوصیری نے اتنا غلو کیا ہے کہ اس سے بڑھ کر غلو نہیں ہوسکتا، اللہ تعالی ہمیں اپنی حفظ وامان میں رکھے" انتہی

" فتاوى الشيخ ابن باز " ( 6 / 370 ، 371 )

اس قصیدے کے بارے میں علمائے کرام کے بہت زیادہ اقوال موجود ہیں، اسی طرح دیگر اور بھی متعدد قابلِ تنقید مصرعے ہیں، لیکن ہم نے چند ایک کا ذکر کیا ہے، جو کہ اس قصیدے سے متنبہ کرنے کیلئے کافی ہیں، کیونکہ اس میں واضح طور پر غلو، کفر، اور زندیقی نظریات ہیں۔

اس قصیدے پر مزیدتنقید کیلئے کتاب: " العقيدة السلفية في مسيرتها التاريخية " عبد الرحمن مغراوی کی کتاب سے "القسم الخامس" ( ص 139 – 154 ) کا مطالعہ کریں ،اور اسی طرح علمی مقالہ " قوادح عقدية في بردة البوصيري " از عبد العزیز بن محمد آل عبد اللطیف مندرجہ ذیل ربط سے حاصل کریں:

http://www.saaid.net/arabic/ar20.htm

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب