منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

حج كيے بغير فوت ہونے والے شخص كى جانب سے ورثاء كا علم ہونے سے پہلے ہى تركہ سے فوت شدہ كى جانب سے حج كرنا

120771

تاریخ اشاعت : 19-03-2012

مشاہدات : 3907

سوال

ميرا ايك دوست جس كا كوئى وارث نہ تھا جب فوت ہوا تو ميں نے اس كے تركہ سے اس كى جانب سے حج كرنے كا فيصلہ كيا كيونكہ وہ حج كيے بغير فوت ہوا تھا، ليكن كچھ عرصہ بعد پتہ چلا كہ صرف اس كا ايك چچا بيٹا ہے.
برائے مہربانى يہ بتائيں كہ ميں نے اس شخص كے جس مال سے حج كيا اس كا حكم كيا ہے، اور كيا مجھے وہ اس كے چچا كے بيٹے كو واپس كرنا ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس كے پاس اس كے اور بيوى بچوں كےاخراجات سے زائد اتنا مال ہو كہ اس كے حج كے ليےكافى ہو تو اس پر حج كرنا لازم ہے، ليكن اگر وہ بڑھاپے يا بيمارى كى بنا پر خود حج كرنے سے عاجز ہو تو اسے اپنے مال سے كسى دوسرے شخص كو حج كرانا لازم ہوگا.

اور اگر وہ حج كيے بغير فوت ہو جائے اس كے تركہ سے فوت شدہ كى جانب سے حج كے ليے اخراجات نكال كر حج كرانا واجب ہے، كيونكہ يہ حج اس كے ذمہ قرض ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى كا قرض ادائيگى كا زيادہ حق ركھتا ہے.

جيسا كہ امام نسائى رحمہ اللہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك شخص نے عرض كيا:

" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرا والد حج كيے بغير فوت ہو گيا ہے، كيا ميں اس كى جانب سے حج كروں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مجھے يہ بتاؤ كہ اگر آپ كے والد كے ذمہ قرض ہوتا تو كيا تم اسے ادا كرتے ؟

وہ شخص كہنے لگا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تو پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا قرض ادائيگى كا زيادہ حق ركھتا ہے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 2639 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس شخص پر حج فرض ہو اور وہ حج كيے بغير فوت ہو جائے تو اس كے تركہ سے حج كے اخراجات نكالنا واجب ہيں، چاہے اس نے كوتاہى كرتے ہوئے حج نہ كيا ہو يا بغير كوتاہى كيے ہى حج نہ كر سكا اور فوت ہوگيا، حسن اور طاؤس اور شافعى رحمہم اللہ كا يہى قول ہے....

كيونكہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سےمروى ہےكہ:

" ايك عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس ايك عورت نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا كہ اس كا والد حج كيے بغير فوت ہو گيا ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ و سلم نے فرمايا تم اس كى جانب سے حج كرو "

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے ہى مروى ہے كہ:

" ايك عورت نے حج كرنے كى نذر مانى اور فوت ہو گئى تو اس كا بھائى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كے بارہ ميں دريافت كرنے آيا ؟

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يہ بتاؤ كہ اگر آپ كى بہن پر قرض ہوتا تو كيا تم اسے ادا نہ كرتے ؟

تو وہ شخص كہنے لگا: جى ہاں ميں اسے ادا كرتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تو پھر اللہ تعالى كا قرض ادا كرو، كيونكہ يہ ادائيگى كا زيادہ حق ركھتا ہے "

ان دونوں كو نسائى نے روايت كيا ہے.

اور اس ليے بھى كہ يہ ايسا حق ہے جو نيابت ميں داخل ہو جاتا ہے، اس ليے قرض كى طرح كسى شخص كى موت سے ساقط نہيں ہو گا " انتہى مختصرا

ديكھيں: المغنى ( 3 / 101 ).

ليكن اگر وہ شخص اپنى زندگى ميں اتنے مال كا مالك نہ تھا كہ وہ اس كے اور بيوى بچوں كے اخراجات سے زائد ہو تو پھر اس پر حج فرض نہيں تھا، اور نہ ہى اس كى جانب سے حج كرنا فرض ہوگا، ہاں يہ اور بات ہے كہ اس كى جانب سے كوئى شخص حج كر دے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے ايك شخص نے سوال كيا:

ميرا ايك بھتيجا سرطان كى بيمارى كا شكار تھا ـ اللہ تعالى آپ اور سب مسلمانوں كو اس بيمارى سےمحفوظ ركھے ـ وہ اس برس فوت ہوا تو اس كى عمر اٹھارہ برس تھى اور وہ فريضہ حج كى بھى ادائيگى نہيں كر سكا، وہ پانچ برس سے سرطان كى بيمارى كا شكار تھا تو كيا ہم اس كى جانب سے حج كريں، اور كيا اس كا كوئى كفارہ بھى ہے ؟

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" ہم اس سے ضرور پوچھيں گے كہ: كيا اس نوجوان كے پاس اتنا مال تھا كہ اس سےحج كر سكے ؟

اگر واقعى اياس ہے كہ اس كے پاس اتنا مال تھا توپھر اس كى جانب سے حج كرنا ضرورى ہے، اور اگر اس كے پاس مال نہ تھا تو پھر حج فرض نہيں، كيونكہ وہ تو فريضہ حج سے برى ہونے كى حالت فوت ہوا ہے.

ليكن اگر وہ نفلى طور پر اس كى جانب سے حج كرنا چاہتے ہيں تو پھر كوئى حرج نہيں " انتہى

ديكھيں: اللقاء الشھرى ( 62 / 5 ).

اس بنا پر جب فوت ہونے والے پاس حج كرنے كے ليے كافى مال تھا تو اس كى جانب سے حج كرنا فرض ہوگا، اور سائل نے اس كے تركہ سے جو حج كى ادائيگى كا عمل كيا ہے وہ صحيح ہے، كيونكہ يہ وارث كے حق پر تركہ ميں مقدم ہے.

ليكن اس كا علم ورثاء كو ضرور ہونا چاہيے تا كہ وہ اس كى جانب سے دوبارہ فرضى حج نہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب