جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

شراکت "مضاربہ" کی رقم سے خود شریک ماہانہ تنخواہ لے سکتا ہے؟ اور اسکی کچھ شرائط کا بیان

سوال

مضاربہ میں نفع سرمایہ کار اور کاریگر کے درمیان معاہدہ شدہ نسبت کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ : کیا شرعی طور پر یہ جائز ہے کہ: فریقین (سرمایہ کار، اور کاریگر) اس بات پر متفق ہو جائیں کہ کاریگرکو ماہانہ تنخواہ دی جائے ، اور ساتھ میں طے شدہ نفع میں بھی اسکا حصہ ہو؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مضاربہ جسے فقہی کتب میں "قراض" بھی کہا جاتا ہے، اس میں سرمایہ کار اپنے سرمایہ کیساتھ اور کاریگر اپنے ہنر کیساتھ ایک کاروباری معاہدے میں شریک ہوتے ہیں، اور اس معاہدے کے درست ہونے کیلئے کچھ شرائط ہیں مثلا: سرمایہ کار کے سرمایہ کی ضمانت نہ دی جائے، اور نہ ہی اسے معین مقدار میں نفع کی رقم دی جائے، بلکہ طرفین کے اتفاق کے مطابق نفع خاص تناسب کیساتھ تقسیم کیا جائے، چنانچہ کاریگر اپنے ہنر اور کام کے بدلے میں نفع میں شریک ہوگا، اور سرمایہ کار اپنے سرمایہ کی وجہ سے نفع میں شریک ہوگا۔

اسی لئے تمام علمائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ کاریگر اپنے ہنر کے بدلے میں نفع میں سے تناسب کیساتھ ساتھ ماہانہ تنخواہ نہیں لے سکتا؛ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ کام ہی اتنا کرے جو اسکی تنخواہ کیلئے کافی ہو، جس سے کاریگر کو تو فائدہ ہوگا، لیکن سرمایہ کار کو فائدہ نہیں ہوگا، اور اگر کاریگر نے بھی اس مضاربہ میں مالی شراکت کی ہوئی ہے ، اور اگر وہ خود کام کرے یا کوئی اور تو کام کرنے والا اس میں سے اپنے کام کی مقدار کے برابر مزدوری لے سکتا ہے، یہی وہ موقف ہے جس کے بارےمیں ہم نے کہا ہے کہ: "ہم اہل علم کا اس بارے میں اختلاف نہیں جانتے"

مندرجہ ذیل میں علمائے کرام کے اقوال موجود ہیں جن سے مضاربہ کی شرائط واضح ہوتی ہیں، اور سوال میں مذکور اس بات کا بھی بیان ہے کہ شراکت دار کو ماہانہ تنخواہ دینے سے مضاربہ ختم ہوجاتا ہے۔

1- شیخ سید سابق رحمہ اللہ کہتے ہیں:

مضاربہ کیلئے مندرجہ ذیل شرائط لاگو ہونگی:

1- رأس المال نقدی کی شکل میں ہو، چنانچہ سونا، زیور، یا سامانِ تجارت کی شکل میں مضاربہ درست نہیں ہوگا، جیسے کہ ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں: " ہماری یاد داشت کے مطابق تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ کوئی قرض خواہ ، مقروض پر موجود اپنے قرضے کو مضاربہ کیلئے شامل نہیں کر سکتا"انتہی

2- رأس المال کی مقدار معلوم ہو، تا کہ سرمایہ کاری کیلئے رقم کا تعین کیا جاسکتے ، اور معاہدے کے مطابق فریقین میں نفع کی تقسیم ہوسکے۔

3- سرمایہ کار، اور کاریگر کے مابین ہونے والے مضاربہ کے معاہدے میں نفع کی تقسیم تناسب کے اعتبار سے مقرر کی جائے، مثال کے طور پر: آدھا، ایک تہائی، یا ایک چوتھائی نفع کا حصہ؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "اہل خیبر کیساتھ خیبر کی پیداوار کے آدھے حصہ پر معاہدہ کیا تھا"

ابن المنذر کہتے ہیں:

" ہماری یاد داشت کے مطابق تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ کاروباری شراکت اس وقت ختم ہوجائے گی جب شراکت داروں میں سے کوئی ایک یا دونوں اپنے لئے نفع میں سے معین رقم مختص کر لیں" انتہی

اسکی وجہ یہ ہے کہ : اگر دونوں میں سے کوئی ایک اپنے لئے معین مقدار میں نفع کی شرط لگا لے، تو ہوسکتا ہے کہ کبھی نفع کی مقدار ہو ہی اتنی جتنی اس نے شرط لگائی تھی، لہذا وہ اپنی شرط کے مطابق خود تو نفع لے لیگا، لیکن دوسرے شریک کو کچھ بھی نہیں ملے گا، اور یہ مضاربہ کے مقاصد سے متصادم ہے، کیونکہ مضاربہ میں فریقین کے مفاد کو مد نظر رکھا جاتا ہے، لیکن ایسی صورت میں یک طرفہ مفاد ثابت ہو رہا ہے۔

4- مضاربہ میں کسی قسم کی کوئی قید نہ ہو، مثال کے طور پر سرمایہ کار کاریگر پر معین جگہ ، یا معین سامانِ تجارت، یا معین وقت ، یا معین افراد کیساتھ کام کرنے کی شرط نہ لگائے، کیونکہ کثرت سے قیودکی بنا پر معاہدے کے اصل مقصود یعنی منافع کو ٹھیس پہنچتی ہے ۔

اس لئے شرائط نہ لگانا ضروری ہے ، ورنہ مضاربہ ختم ہوجائے گا۔

امام شافعی ، اور امام مالک اسی کے قائل ہیں۔

جبکہ امام ابو حنیفہ اور احمد اس شرط کے قائل نہیں ہیں، دونوں کا کہنا ہے :

"جیسے مضاربہ مطلق درست ہے، اسی طرح قیود و شرائط کی موجودگی میں بھی درست ہوگا"۔۔۔۔

مضاربہ کیلئے مدتِ معاہدہ بیان کرنا ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ یہ ایسا معاہدہ ہے جسے کسی بھی وقت ختم کیا جاسکتا ہے۔

اسی طرح فریقین کا مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں ہے، بلکہ ایک مسلمان اور ذمی کافر کے درمیان بھی مضاربہ درست ہوسکتا ہے۔

" فقه السنة " ( 3 / 205 – 207 )

2- کاسانی حنفی رحمہ اللہ مضاربہ کی شرائط بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

مضاربہ کی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ: سرمایہ کار اور کاریگر کے درمیان نفع کی تقسیم واضح تناسب کی بنیاد پر ہو، مثلا: نفع کا آدھا، یا ایک تہائی، یا ایک چوتھائی حصہ ، چنانچہ اگر کوئی یہ شرط لگائے کہ نفع میں سے 100 درہم یا کم و بیش میرے ہونگے اور باقی دوسرے شریک کے تو یہ درست نہیں ہے، اس سے مضاربہ فاسد ہوجائے گا؛ کیونکہ مضاربہ مشترکہ کاروبار کی ایک قسم ہے، اور اس کاروبار کے نفع میں بھی شراکت ہوتی ہے، جبکہ مذکورہ شرط سے منافع میں شراکت پر ضرب پڑ رہی ہے؛ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ مضاربہ میں اتنا ہی نفع ہو جتنی اس نے شرط لگائی ہے تو سارا نفع ایک ہی شخص کا ہو جائے گا، دوسرے کو کچھ بھی نہیں ملے گا، جسکی بنا پر نفع میں شراکت داری ختم ہوجائے گی، چنانچہ اسے مضاربہ نہیں کہا جا سکتا۔

اسی طرح فریقین میں سے اگر کسی نے کہا:مجھے آدھے ، یا ایک تہائی نفع کیساتھ 100 اضافی / کم درہم بھی دئیے جائیں ، تو ایسا مضاربہ بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ مضاربہ مشترکہ کاروبار کی ایک قسم ہے، اور اس کاروبار کے نفع میں بھی شراکت ہوتی ہے، جبکہ مذکورہ شرط سے منافع میں شراکت پر ضرب پڑ رہی ہے؛ اس لئے کہ ہوسکتا ہے کہ مضاربہ میں اتنا ہی نفع ہو جتنی اس نے شرط لگائی ہے تو سارا نفع ایک ہی شخص کا ہو جائے گا، دوسرے کو کچھ بھی نہیں ملے گا، جسکی بنا پر نفع میں شراکت داری ختم ہوجائے گی، چنانچہ اسے مضاربہ نہیں کہا جا سکتا" انتہی

دیکھیں: " بدائع الصنائع " ( 6 / 85 ، 86 )

3- شافعی مسلک سے تعلق رکھنے والے شیرازی رحمہ للہ کہتے ہیں:

"[شراکت داروں میں سے]کسی کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی اپنے لئے معین رقم مختص کرلے اور باقی کو آپس میں تقسیم کرے؛ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کبھی معین کردہ رقم کے مساوی بھی منافع نہ ملے تو اس سے اسکا حصہ بھی پورا نہیں ہوگا، اور کبھی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صرف اسکے حصہ کی رقم منافع میں تو آجائے لیکن دوسرے کے حصہ کا نفع نہ ملے تو اس سے شریک کا حصہ مارا جائے گا"

دیکھیں: " المجموع شرح المهذب " ( 14 / 366 )

مزید کیلئے آپ سوال نمبر ( 114537 )کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ: شراکت دار کاریگر کیلئے اپنے ہی مشترکہ کاروبار سے ماہانہ تنخواہ لینا جائز نہیں ہے، اور اسے سرمایہ کار کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے مطابق تناسب سے نفع کا حصہ ملے گا۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب