منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

اسلام کی دعوت

سوال

اسلام کی دعوت کس طرح دی جاۓ ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ عزوجل نے انسان کوپیدا کیا اوراسے زمین میں بسانے کے بعد ویسے ہی بیکار نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس کی ضروریات کھانے پینے اورلباس وغیرہ کا انتظام فرمایا اورمختلف ادوارمیں ایسا منھج نازل فرمایا جس پرچلتے ہوۓ وہ ھدایت یافتہ بن جاۓ ۔

انسانیت کی ہرزمانے اوردور میں اورہرجگہ پر اصلاح اور سعادت صرف اورصرف اللہ تعالی کے نازل کردہ منھج پرچلنے اوراس کی اتباع کرنے سے حاصل ہوتی ہے اوراس کے علاوہ جوبھی ہے اسے ترک کرنا ہوگا ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اوریہ دین میرا راستہ ہے جوصراط مستقیم ہے تواس پرچلو ، اوردوسری راہوں پرمت چلو اس لیے کہ وہ راہیں تمہیں اللہ تعالی کی راہ سے جدا کردیں گے اس کاتمہیں اللہ تعالی نے تاکیدی حکم دیا ہے تا کہ تم پرہیز گاری اختیار کرو الانعام ( 153 ) ۔

اسلام آسمانی ادیان میں سے آخری دین اور قرآن کریم آسمانی کتابوں میں اخری کتاب اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء ورسل میں آخری نبی ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اس دین کوسب لوگوں تک پہنچانے کا حکم دیا ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اورمیرے پاس یہ قرآن بطوروحی بھیجا گيا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کواوران سب کوجنہیں یہ قرآن پہنچے ڈراؤں الانعام ( 19 ) ۔

اللہ تبارک وتعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوسب لوگوں کی طرف نبی اوررسول بنا کربھیجا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں ذکر کیا ہے :

آپ کہہ دیجۓ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ تعالی کا رسول بنا کربھیجا گیا ہوں الاعراف ( 158 ) ۔

اوردعوت اسلام کا عمل سب اعمال سے افضل ہے اس لیے کہ اس دعوت وتبلیغ میں لوگوں کوصراط مستقیم کی طرف راہنمائ اورھدایت ملتی اورانہيں دنیا و آخرت کی سعادت مندی نصیب ہوتی ہے ۔

اللہ تبارک وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

اوراس سےزيادہ اچھی بات والا کون ہے جواللہ تعالی کی طرف بلاۓ اوراعمال صالحہ کرے اوریہ کہے کہ یقینا میں مسلمانوں میں سے ہوں فصلت ( 33 ) ۔

اوردعوت الی اللہ کا کام کرنا بہت ہی اچھا پیغام اورانبیاء ورسل کا طریقہ ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کردیا کہ ان کی زندگی اوران کی رسالت دعوت الی اللہ اوران کے پیروکاروں کا طریقہ بھی دعوت الی اللہ ہی ہے

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

آپ کہہ دیجیۓ میری راہ یہی ہے میں اورمیرے متبعین پورے یقین وبصیرت اوراعتماد کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف بلارہے ہیں ، اور اللہ تعالی پاک ہے اورمیں مشرکوں میں سے نہیں یوسف ( 108 ) ۔

عمومی طورپرمسلمان اورخصوصی طور پرعلماء کرام اسلام کی دعوت دینے کے مامور ہيں جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے اس فرمان میں ہے :

تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہيۓ جوبھلائ کی طرف بلاۓ اور نیک کاموں کا حکم دے اوربرے کاموں سے روکے ، اور یہی لوگ فلاح و نجات پانے والے ہیں آل عمران ( 104 ) ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے :

( میری طرف سے دوسروں کوتبلیغ کرو اگرچہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو ) صحیح بخاری حدیث ( 3461 ) ۔

دعوت الی اللہ کا کام ایک عظیم الشان اورجلیل القدر عمل ہے جس کے ذریعہ لوگوں کواللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی طرف لایا جاتا اورانہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف منتقل کیا جاتا اورشرکی جگہ خیروبھلائ اورباطل کی جگہ حق لایا جاتا ہے ۔

لھذا جوبھی دعوت الی اللہ کا کام کرنا چاہتا ہے اسے علم وفقہ اورصبر وحلم اورنرمی ومہربانی کی ضرورت پڑتی اوراس کا محتاج ہوتا ہے اوراسے مال ودولت اوروقت صرف کرنا پڑتا ہے اوراسے لوگوں کے حالات و عادات کا علم بھی رکھنا ہوتا ہے تا کہ انہیں صحیح طریقے سے دعوت دی جاسکے ۔

اللہ تبارک وتعالی نے دعوت کے اصول بیان کرتے ہوۓ فرمایا :

لوگوں کو اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اوربہترین نصیحت کے ساتھ بلایۓ اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجیۓ یقینا آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کوبھی بخوبی جانتا ہے اوررہ راست پرچلنے والوں سے بھی پوری طرح واقف ہے النحل ( 125 ) ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پراحسان کرتے ہوۓ کچھ اس طرح فرمایا :

اللہ تعالی کی رحمت کے باعث آپ ان نرم دل ہیں اوراگرآپ بدزبان سخت دل ہوتے تویہ سب آپ کے پاس سے دوربھا گ جاتے آپ ان سے درگزر کریں اوران کے لیے استغفار کریں اورکام کا مشورہ ان سے کیا کریں ، پھرجب آپ کا پختہ ارادہ ہوجاۓ تو اللہ تعالی پربھروسہ کریں ، بے شک اللہ تعالی پرتوکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے آل عمران ( 159 ) ۔

اوربعض اوقات دعوت الی اللہ کا کام کرنے والے کو دعوتی کاموں میں بحث وجدال کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اورپھرخاص کراہل کتاب کودعوت دیتے ہوۓ یہ ضرورپیش آتا ہے اس کے بارہ میں بھی اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جب معاملہ بحث اورجدال ومناقشہ تک جا پنہچے توہمیں اچھے اوراحسن انداز سے بات چیت اوربحث کرتے ہوۓ نرمی اورمہربانی سے کام لے کر اسلام کی مبادیات ان کے سامنے اسی طرح صاف شفاف رکھنی چاہیے جس طرح کہ ان کا نزول ہوا ہے اوراس میں ہیں نرمی سے کام لینا چاہیے نہ کہ جبرو سختی سے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :

اوراہل کتاب کے ساتھ بحث ومباحثہ عمدہ اوراچھے طریقے سے کرو مگر ان کے ساتھ جوان میں ظالم ہیں اورصاف اعلان کردو کہ ہمارا تواس کتاب پربھی ایمان ہے جوہم پراتاری گئ ہے اوراس پربھی جو تم پراتاری گئ ہے اورہمارا اورتمہارا الہ و معبود ایک ہی ہے اور ہم سب اسی کے حکم کے مطیع ہیں العنکبوت ( 46 ) ۔

دعوت الی اللہ میں فضل عظیم اوراجرجزیل پایا جاتا ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جس نے بھی کسی کوھدایت کی راہنمائ کی اسے عمل کرنے والے جتنا ہی اجروثواب حاصل ہوگا اوران کے اجرو ثواب میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جاۓ گی ، اورجس نےبھی گمراہی کی دعوت دی اسے اس پرعمل کرنے والے کی طرح گناہ ہوتا ہے ان کے گناہوں میں کسی قسم کی کمی نہيں کی جاتی ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2674 ) ۔

توجب مادیت کی تعمیروترقی کی تکمیل صبروجھد کوشش کی محتاج ہے توپھرنفوس کی تعمیراورانہیں حق پرلانے کے لیے بھی صبر وجھد اورکوشش اورقربانی کی زیادہ ضرورت ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت دیتے ہوۓ کفارویھود اورمنافقین کی اذیت پرصبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جنہوں نے انہیں جھٹلایا اوراذیتوں کے پہاڑتوڑے اور مذاق کیا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کوپتھر مارمار کر لہولہان کردیا ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کوجادوگر اورمجنون کہا اوران پرشاعریا کاہن ہونے کی تہمت لگائ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھربھی صبرو تحمل سے کام لیا حتی کہ اللہ ‏عزوجل نے ان کی مدد فرمائ اوردین اسلام کوغالب فرمایا لھذا داعی پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا ضروری ہے ۔

فرمان باری تعالی ہے :

پس آپ صبر کریں یقینا اللہ تعالی کا وعدہ سچا ہے آپ کووہ لوگ جویقین نہیں رکھتے ہلکا ( بے صبری ) نہ کریں الروم ( 60 ) ۔

توسب مسلمانوں پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدااورپیری و اطاعت واجب اورضروری ہے لھذا دعوت اسلام دیتے وقت ان کے راستے پرچلتے ہوۓ اللہ تعالی کے راستے میں تمام تکلیفوں کوبرادشت کرنا اورصبرتحمل کرنا ضروری اورواجب ہے جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صبروتحمل اوربرداشت کا مظاہرہ کیا ۔

اللہ جل شانہ کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

یقینا تمہارے لیے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں ہراس شخص کے لیے عمدہ نمونہ موجود ہے جواللہ تعالی اورقیامت کے دن کی توقع رکھتا اوربکثرت اللہ تعالی کی یاد کرتا ہے الاحزاب ( 21 ) ۔

امت کی سعادت وفلاح و کامیابی دین اسلام کی اتباع اوراقتدا کرنے میں ہی ہے اوراسی لیے اللہ تعالی نے دین اسلام کی سب لوگوں کوتبلیغ کرنے کاحکم دیاہے ۔

اس کا حکم دیتے ہوۓ اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :

یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے اطلاع نامہ کہ اس کے ذریعہ سے ہوشیارکر دیے جائيں اوربخوبی معلوم کرلیں کہ اللہ تعالی ایک ہی معبود ہے اورتاکہ عقلمند لوگ سوچ سمجھ لیں ابراھیم ( 52 ) ۔ .

ماخذ: شیخ محمد بن ابراھیم التویجری کی کتاب " اصول الدین الاسلامی " سے لیا گیا ۔