جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

حسن صورت اور حسن سيرت خاوند اختيار كرنا مستحب ہے

127173

تاریخ اشاعت : 14-11-2009

مشاہدات : 9046

سوال

ميں نے ايك حديث پڑھى ہے ميں يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ آيا يہ صحيح ہے يا نہيں، اور اس ميں بيان كردہ احكام كونسے ہيں، اور برے منظر كا معنى كيا ہے.
قرطبى رحمہ اللہ نے ايك حديث روايت كيا جس كا معنى يہ ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اولياء اور ذمہ داران كو حكم ديا ہے كہ وہ قبيح اور بدصورت اور بد اخلاق شخص سے اپنى بيٹيوں كى شادى مت كريں.
اور قرطبى نے يہ بھى ذكر كيا ہے كہ ثابت بن قيس كى بيوى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے بيان كيا كہ ان كا خاوند قبيح ہے اور وہ اس كا چہرہ ديكھنے كى سكت نہيں ركھتى، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے كہا:
كيا تم اس كا مہر واپس كرتى ہو؟ تو اس نے جواب ديا اگر وہ چاہے تو ميں مہر سے زيادہ بھى ديتى ہوں، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو تم نے اسے ديا ہے وہ بيوى سے واپس لے لو اور اسے چھوڑ دو، تو انہوں نے اسے طلاق دے دى " او كما قال رسول اللہ عليہ وسلم.

جواب کا متن

الحمد للہ.

لڑكى كو نكاح كا پيغام دينے والے كى خوبصورتى كے متعلق جن احاديث كا ہميں علم ہے وہ دو حديثيں ہيں:

پہلى حديث:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" عورت سے نكاح چار اشياء كى بنا پر كيا جاتا ہے: عورت كے مال كى وجہ سے، اور اس كے حسب و نسب كى وجہ سے، اور اس كى خوبصورتى و جمال كى بنا پر، اور اس كے دين كى وجہ سے، تيرے ہاتھ خاك ميں مليں تو دين والى كو اختيار كر "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4802 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1466 ).

علماء كرام كہتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا مردوں كو خطاب عورتوں كى بھى خطاب ہے، اور سوال نمبر ( 125907 ) كے جواب ميں ہم يہ بيان كر چكے ہيں كہ يہ صفات مرد اور عورت دونوں ميں ہوں.

دوسرى حديث:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:

" ثابت بن قيس رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كرنے لگى:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں ثابت بن قيس كے نہ تو دين ميں كوئى عيب لگاتى ہوں اور نہ ہى اخلاق ميں، ليكن ميں اسلام ميں كفر ناپسند كرتى ہوں "

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا تم اس كا باغ واپس كرتى ہو ؟

تو اس نے كہا: جى ہاں.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اپنا باغ قبول كر لو اور اسے ايك طلاق دے دو

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5273 ).

اور ايك روايت ميں ہے:

اس نے كہا:

" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں ثابت كے نہ تو دين ميں كوئى عيب لگاتى ہوں، اور نہ ہى اخلاق ميں، ليكن ميں اس كى طاقت نہيں ركھتى.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيا تم اس كا باغ واپس كرتى ہو تو اس نے جواب ديا:

جى ہاں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5275 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حديث كى شرح كرتے ہوئے بيان كرتے ہيں كہ ثابت بن قيس كى بيوى كا ثابت سے طلاق طلب كرنے كے اسباب ميں يہ بھى شامل تھا كہ ثابت بن قيس بد صورت تھے "

ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 400 ).

يہ دونوں حديثيں صريح نہيں ہيں جو عورت كے ولى اور ذمہ دار كو شادى كرنے والے شخص كے خوبصورت ہونے كا خيال ركھنے كى ترغيب دلاتى ہوں.

ليكن اس سلسلہ ميں بعض صحابہ كرام اور تابعين عظام سے صراحت كے ساتھ مروى ہے:

عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كہا كرتے تھے:

" تم اپنى لڑكيوں كو قبيح شخص كے ساتھ شادى كرنے پر مجبور مت كرو، كيونكہ وہ بھى وہى كچھ پسند كرتى ہيں جو تم پسند كرتے ہو "

اسے سعيد بن منصور نے اپنى سنن ( 781 ) ميں اور ابن ابى شيبہ نے مصنف ابن ابى شيبہ ( 4 / 94 ) ميں اور ابن شبۃ نے تاريخ المدينۃ ( 2 / 338 ) ميں اور ابن ابى الدنيا نے " العيال " ( 272 ) ميں ہشام بن عروہ عن ابيہ عن عمر بن الخطاب كے طريق سے روايت كيا ہے.

اور يہ بھى مروى ہے كہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس ايك نوجوان عورت لائى گئى جس كى شادى ايك بوڑھے شخص سے كر دى گئى تھى تو اس عورت نے اسے قتل كر ديا، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:

" لوگو! اللہ سے ڈرو اور مرد عورتوں ميں اپنے جيسى عورت كے ساتھ شادى كرے، اور عورت بھى مردوں ميں اپنے جيسے مرد كے ساتھ شادى كرے "

يعنى جو اس جيسى شكل ركھے "

اسے سعيد بن منصور نے سنن ( 1 / 210 ) ميں روايت كيا ہے.

غزالى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ولى كو بھى خاوند كى خصلتوں كا خيال كرنا چاہيے، اور وہ اپنى عزيز بيٹى كے ليے كوئى ايسا خاوند تلاش كرے جو بہتر اور خوبصورت خصلتوں كا مالك ہو، وہ اس كى شادى كسى بداخلاق اور بدصورت يا كمزور دين شخص يا ايسے شخص كے ساتھ مت كرے جو اس كے حقوق كى ادائيگى ہى نہ كر سكتا ہو يا وہ حسب و نسب ميں اس كا برابر نہ ہو"

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" نكاح ايك غلامى ہے اس ليے تمہيں چاہيے كہ وہ ديكھے كہ اپنى عزيز بيٹى كو كہاں دے رہا ہے "

بيہقى رحمہ اللہ نے سنن الكبرى ( 7 / 83 ) ميں كہتے ہيں يہ مرفوع بيان كى گئى ہے، ليكن اس كا موقوف ہوا زيادہ صحيح ہے.

عورت كے حق ميں احتياط كرنا بہت اہم ہے، كيونكہ وہ نكاح كى بنا پر ايك غلام بن جاتى ہے، جس سے چھٹكارا اور خلاصى نہيں، اور ہر حالت ميں خاوند اس كو طلاق دينے پر قادر ہے، اور جب اس نے اپنى بيٹى كا كسى ظالم يا فاسق و بدعتى يا شرابى سے نكاح كر ديا تو اس نے اپنے دين پر زيادتى كى، اور اللہ كى ناراضگى اور غضب كا شكار ہوا، كيونكہ اس نے برا شخص اختيار كر كے رشتہ دارى كے حق كو ختم كيا اور قطع رحمى كى.

ايك شخص نے حسن رحمہ اللہ سے عرض كيا:

ميرى بيٹى كے كئى ايك رشتے آئے ہيں تو ميں كس شخص كے ساتھ بيٹى كى شادى كروں ؟

انہوں نے فرمايا: اس شخص سے اس كى شادى كرو جو اللہ كا تقوى اور ڈر ركھتا ہو، كيونكہ جب وہ اس سے محبت كرے گا تو اس كى عزت كريگا، اور اگر اس كو ناراض كريگا تو بھى اس پر ظلم نہيں كريگا " انتہى

ديكھيں: احياء علوم الدين ( 2 / 41 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 5202 ) اور ( 6942) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب