جمعرات 16 شوال 1445 - 25 اپریل 2024
اردو

رمضان المبارك ميں دور دراز سے عمرہ كى ادائيگى كے ليے آنے والوں كا روزہ نہ ركھنا

سوال

اگر كوئى فيملى رمضان المبارك ميں عمرہ كى ادائيگى كرے تو كيا ان كے ليے مكہ ميں رہتے ہوئے روزہ چھوڑنا جائز ہے يا كہ وہ مكہ پہنچ كر فورا كھانا پينا چھوڑ ديں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

" جب كوئى شخص نجد وغيرہ دور دراز علاقے سے رمضان المبارك ميں عمرہ كى ادائيگى كے ليے مكہ آئے تو وہ راستے ميں روزہ چھوڑ ديگا، چاہے وہ رياض كے راستے سے آئے ياقصيم يا حائل يا مدينہ سے، اسے راستے اور مكہ مكرمہ ميں روزہ چھوڑنے كى اجازت ہے.

ليكن اگر وہ چار دن سے زائد رہنے كا عزم ركھتا ہو تو پھر احتياط اسى ميں ہے اور بہتر يہى ہے كہ روزہ ركھے؛ كيونكہ جمہور اہل علم كے ہاں اگر كوئى شخص چار ايام سے زائد كى اقامت پختہ اور سچا عزم ركھے تو وہ نماز مكل كريگا اور روزہ ركھےگا.

ليكن اگر اس كا دو يا تين يا چار دن قيام كرنے كا عزم ہو اس سے زائد كا نہيں تو پھر اس كے ليے روزہ چھوڑنا جائز ہے اور روزہ ركھنا بھى جائز ہے، اور چار ركعتى نماز كو قصر كريگا يعنى دو ركعت ادا كريگا، اور اس كے ليے لوگوں كے ساتھ چار ركعت ادا كرنا بھى جائز ہے.

اور اگر وہ اكيلا ہے تو جماعت كے ساتھ نماز ادا كرے اور اگر اس كے ساتھ اور بھى لوگ ہوں تو اسے اختيار ہے كہ چاہے وہ اور اس كے ساتھ والے دو ركعت ادا كريں اور اگر چاہيں تو لوگوں كے ساتھ باجماعت چار ركعت ادا كريں.

اور اگر چار يوم سے زائد اقامت ہو تو پھر جمہور اہل علم كے ہاں اسے روزہ بھى ركھنا چاہيے اور نماز بھى مكمل كرنى چاہيے " انتہى

فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ .

ماخذ: فتاوی سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز – فتاوی نور علی الدرب