جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

غيرشادي شدہ زاني كوكوڑےمارنےكا طريقہ

13233

تاریخ اشاعت : 22-03-2005

مشاہدات : 4782

سوال

جيسا كہ آيت ميں بيان ہوا ہےكہ غيرشادي شدہ زاني كوسو كوڑے ماريں جائيں، يہ سزا اس وقت دي جائےگي جب اس ميں اللہ تعالي كي طرف سےمقرر كردہ شرائط موجود ہوں ان ميں ايك تويہ ہےكہ چارعادل مرد گواہي واقعہ كي گواہي ديں ، اور اعتراف كرنےكي صورت ميں گواہي كي ضرورت نہيں .
1 - سوكوڑے لگانےكےبعد جب عام سا شخص ہواور زيادہ طاقتور نہ ہو تو كيا وہ زندہ رہےگا؟
2 - يہ كوڑےكتني طاقت سےمارنےچاہيں ؟ اوركيا كوڑےمارنےميں كوئي معروف قوت وطاقت موجود ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حدود ميں كوڑوں اور درےمارنے سے مراد قتل نہيں، بلكہ اس كا مقصد تاديب، ڈرانا اور اسےگناہ سےپاك كرنا ہوتا ہے اسي ليے بہت سےفقھاء كرام نے اس پر متنبہ كيا ہےكہ كوڑے متوسط طريقہ سےماريں جائيں مارنےوالا اپنا بازو اتنا نہ اٹھائےكہ اس كي بغليں نظر آنےلگيں اور نہ ہي نيا كوڑا استعمال كرے اور اسي طرح مجرم كو بےلباس بھي نہيں كياجائےگا ليكن اگراس نےنيچےكوئي موٹا كپڑا پہنا ہوا ہوتواسےاتارا جائےگا ، اور جمہور علماء كرام كےنزديك مجرم كوكھڑا كركےمارا جائےگا اسےباندھا نہ جائے اور اس كےچہرہ سر اور عضو تناسل پر مارنےسےبچاجائے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:

اس كےپورےجسم پر كوڑےماريں جائيں تاكہ ہر عضو اپنا حصہ حاصل كرے اور گوشت والي جگہ پر زيادہ ماريں مثلا رانيں اور سرين ، ليكن قتل كردينے والي جگہوں سےبچا جائے جوكہ سر، چہرہ، عورت ومرد كي شرمگاہ.

اوران كہنا ہے كہ بہترطريقہ يہ ہےكہ: اسےنہ تولٹايا جائے اور نہ ہي باندھا جائے ہمارےعلم كےمطابق اس ميں كوئي اختلاف نہيں پايا جاتا.

ابن مسعود رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:

بلندكرنا اور باندھنا اور بےلباس كرنا ہمارےدين ميں نہيں رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےصحابہ كرام نےبھي كوڑےمارے ليكن كسي ايك سےبھي ايك بلند كرنا، باندھنااور بےلباس كرنا منقول نہيں.

اور اس كےكپڑےنہيں اتاريں جائيں گے بلكہ اس كےتن پر دوكپڑے رہيں گے ليكن اگر اس نےموٹي فرو يا جبہ جيكٹ وغيرہ پہن ركھي ہے تواسے اتار ديا جائےگا اس ليےكہ اگر اسےنہ اتارا جائےتو اسےمار كي كوئي پرواہ نہيں اور نہ ہي اسےكوئي تكليف ہوگي، امام احمد رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں: اگر اس پر سرديوں والےكپڑے رہنےديےجائيں تومجھے ضرب كي كوئي پرواہ نہيں، اور امام مالك رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں: اسےبےلباس كياجائےگا اس ليےكہ اسےكوڑے لگانےكامقصد يہ ہےكہ اس كےجسم پرلگيں ، اور ہماري دليل ابن مسعود رضي اللہ تعالي كا قول ہے اور ہمارےعلم كےمطابق كسي بھي صحابي سے اس كي مخالفت نہيں ملتي، اور اللہ تعالي نےاسےبےلباس كرنےكا حكم نہيں ديا بلكہ صرف كوڑےمارنےكاحكم ديا ہے اور جسےلباس كےاوپر سےكوڑےمارےجائيں اسےكوڑے لگيں گےيعني حد لگ جاتي ہے.

اوران كا كہنا ہے: جب يہ ثابت ہوگيا توپھر كوڑا درميانہ سا ہونا چاہيے نہ تو نيا ہوكہ زخمي ہي كردے اور نہ ہي پرانا اور بوسيدہ ہوجس سےمارنےكي تكليف ہي نہ ہو كيونكہ روايت ہے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےپاس ايك شخص نے زنا كا اعتراف كيا تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے كوڑا منگوايا توايك ٹوٹاہوا كوڑا لايا گيا آپ صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا: اس سے بہتر لاؤ تو ايك نيا كوڑا لايا گيا جس كي تان بھي نہيں ٹوٹي تھي تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا كہ ان دونوں كےمابين ہونا چاہيے . اسےامام مالك نےزيد بن اسلم سے مرسل روايت كيا ہے اور ابوھريرہ رضي اللہ تعالي عنہ سے مسند بھي مروي ہے.

اور علي رضي اللہ تعالي عنہ سے بيان كياگيا ہےكہ انہوں نےفرمايا: مار دو ماروں كےمابين اور كوڑا دو كوڑوں كےمابين اور اسي طرح مار بھي درمياني ہوني چاہيے نہ تو اتني سخت ہوكہ جان سےہي ماردے اور نہ ہي اتني كمزور ہوكہ كوئي تكليف ہي نہ دے اور مارنےميں پورا بازو اٹھائے اور نہ ہي بالكل نيچا ركھےكہ درد ہي نہ ہو .

امام احمد رحمہ اللہ كہتےہيں: حدلگاتےہوئےاپني بغل ظاہر نہ كرے يعني مارنےكےليےہاتھ اٹھانےميں اتنا مبالغہ نہ كرے كہ بغل نظرآئے كيونكہ اس كا مقصد ادب سكھاناہے نہ كہ قتل كرنا. انتھي

ديكھيں: المغني ( 9 / 141 - 142 )

اوپر كي سطور ميں جوكچھ بيان ہواہےاس سےيہ پتہ چلتاہےكہ عام شخص كوڑے لگنےسے غالباقتل نہيں ہوتا، كوڑےمارنےكامقصد اسےڈرانا اور ادب سكھانا ہے اور مومنوں كواس سزا كےوقت حاضر ہونا چاہيے جيسا كہ اللہ تعالي كا فرمان ہے:

زاني مرد اور عورت ميں سےہرايك كوسوكوڑے مارو ان پر اللہ تعالي كي شريعت كي حد جاري كرتےہوئے تمہيں ہرگزترس نہيں كھاناچاہيے، اگرتم اللہ تعالي اور قيامت كےدن پر ايمان ركھتےہو، ان كي سزا كےوقت مسلمانوں كي ايك جماعت موجودہوني چاہئے النور ( 2 )

واللہ اعلم  .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب