منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

زنا سے حاملہ عورت سے شادى كر لى اور اب تجديد نكاح سے انكار كرتا ہے

سوال

مجھے ان شاء اللہ آپ كے تعاون كى ضرورت ہے ميں نے اسلام قبول كرنے سے قبل ايك مسلمان شخص سے زنا كا ارتكاب كيا تھا، اس كے نتيجہ ميں حمل ہو گيا، اور حمل كے چھٹے ماہ ہم نے آپس ميں شادى كر لى اور دوسرے دن ميں نے آپ كى ويب سائٹ پر سوال نمبر ( 9848 ) كے جواب ميں پڑھا كہ يہ شادى باطل ہے.

مشكل يہ درپيش ہے كہ ميرا خاوند اس شادى كے باطل ہونے كو قبول نہيں كرتا، اور دوبارہ نكاح لكھوانے پر تيار نہيں ہے، كيونكہ وہ كہتا ہے كہ كتاب و سنت ميں اس كى كوئى دليل نہيں ہے، ( ميرے پاس اتنا علم نہيں كہ ميں اس سے مقابلہ كر سكوں ) تو كيا اگر وہ اس شادى كا باطل ہونا تسليم نہيں كرتا تو ميں گھر چھوڑ كر چلى جاؤں اور واپس نہ آؤں، اور اگر ميں اس كے ساتھ رہتى ہوں تو كيا مجھے گناہ ہو گا ؟

برائے مہربانى مجھے اس سلسلہ ميں كوئى نصيحت فرمائيں كيونكہ اس نے مجھے بہت پريشان كر ركھا ہے، ميں دوبارہ وہى غلطى نہيں كرنا چاہتى ميں اپنے سابقہ افعال پر بہت زيادہ نادم ہوں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہمارى ويب سائٹ پر يہى بيان ہوا ہے كہ زانى مرد كا زانيہ عورت سے اس وقت تك نكاح صحيح نہيں جب تك وہ دونوں نكاح سے قبل توبہ نہ كر ليں، اور پھر عورت كا ايك حيض كے ساتھ استبراء رحم نہ ہو جائے، اور يہ مسئلہ فقھاء ميں اختلافى ہے، ہم نے جس پر اعتماد كيا ہے وہ امام احمد كا مسلك ہے اور اس كى دليل بھى موجود ہے، آپ كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 85335 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.

اور كچھ فقھاء توبہ سے قبل نكاح صحيح قرار ديتے ہيں، اور كچھ ايسے بھى ہيں جو حمل كى موجودگى ميں بھى صحيح قرار ديتے ہيں ليكن حمل اسى كا ہونا چاہيے.

آپ پر اللہ سبحانہ و تعالى نے احسان كيا كہ آپ نے اسلام قبول كر ليا ہے، اور دين اسلام قبول كرنے سے پہلے تمام چاہے وہ زنا ہو يا كوئى اور گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں، اس ليے آپ ميں توبہ كى شرط پائى جاتى ہے كہ آپ اس سے توبہ كر چكى ہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

آپ ان لوگوں كو كہہ ديجئے جو كافر ہيں اگر وہ اپنے كفر سے باز آ جائيں تو ان كے پچھلے تمام گناہ معاف كر ديے جائينگے الانفال ( 38 ).

احناف اور شافعيہ كا كہنا ہے كہ زنا سے حاملہ عورت كا نكاح اور اس سے وطئ كرنا جائز ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ زنا اسى شخص نے كيا ہو.

مزيد تفصيل كے ليے آپ الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 338 ) اور حاشيۃ ابن عابدين ( 3 / 49 ) كا مطالعہ كريں.

اور بلاشك و شبہ احتياط اسى ميں ہے كہ نكاح كى تجديد كر لى جائے تا كہ اختلاف سے نكلا جا سكے، اس ليے اگر آپ كے خاوند نے صحيح نكاح كہنے والے كے فتوى پر عمل كيا ہے، يا وہ حنفى يا شافعى كا مقلد ہے تو اسے تجديد نكاح كرنا لازم نہيں اور اس حالت ميں آپ كا اس كے ساتھ رہنا بھى گناہ كا باعث نہيں ہو ہے، كيونكہ يہ مسئلہ اجتھادى ہے جس ميں علماء كا اختلاف پايا جاتا ہے.

اور پھر يہ بھى معلوم ہونا چاہيے كہ تجديد نكاح كے ليے نكاح رجسٹر كرانا ضرورى نہيں، بلكہ يہ تو مسلمان ولى اور خاوند اور دو گواہى كى موجود ميں زبانى بھى ہو سكتا ہے، اور اگر لڑكى ولى مسلمان نہ ہو تو اسلامك سينٹر كا امام آپ كا نكاح كرےگا اور نكاح ميں آپ كا ولى ہوگا.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب