منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

اپنی رضاعی خالہ سے شادی شدہ ہے

13357

تاریخ اشاعت : 22-02-2004

مشاہدات : 13987

سوال

کچھ وقت پہلے تک ہمارے ملک میں لونڈی کا وجود پایا جاتا تھا ، اسی دوران ایک مسئلہ پیدا ہوا ہم اس کا شرعی حکم جاننا چاہتے ہیں :
ایک شخص کی بیوی آمنہ ہے اوراس کی لونڈی جس کا نام سعدیہ ہے ، آمنہ ( بیوی ) نے بیٹی زينب کودودھ پلایا ، اوراسی دوران لونڈی ( سعدیہ ) نے ایک بیٹی کوجنم دیا جس کا نام حلیمہ رکھا گیا ، حلیمہ کی شادی ہوئي اوراس کےہاں علی نامی بچہ پیدا ہوا اوربڑا ہونے کے بعد اس نے زينب ( جس نے آمنہ کا دودھ پیا تھا ) سے شادی کرلی ، اب ان کی شادی کوبھی کئی سال گزر چکے ہیں اوران کے کئي ایک بچے بھی ہيں ۔
سوال یہ ہے کہ :
اس شادی کا کیا حکم ہے ؟ اوراگر یہ شادی غیر شرعی ہے توکیا مجھے اس کے بارہ میں انہیں بتانا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

احکام رضاعت میں یہ شامل ہے کہ دودھ پلانے والی کا دودھ پینے والےاور اس کی اولاد میں بھی اثر انداز ہوتا ہے ، لھذا اگر زید نے فاطمہ کا دودھ پیا توزيد اوراس کی اولاد فاطہ کی رضاعی اولاد شمار ہوگی ، لیکن زید کے بھائیوں کا دودھ پلانے والی سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔

اوردودھ پلانے والی کی جانب سے رضاعت اس کے سب رشتہ داروں میں منتشر ہوگی اور جس نے بھی اس کا دودھ پیا وہ اس کا قریبی شمار ہوگا ، تواس طرح دودھ پلانے والی کا خاوند بچے کا رضاعی والد ، اوراس کے بھائی اس کے رضائي ماموں ہوں گے ، اوردودھ پلانے والی کے والدین بچے کے رضاعی نانا اورنانی شمار ہوں گے ۔

اور اگر دودھ پلانے والی کا خاوند کسی اورعورت سے شادی شدہ ہو تویہ عورت دودھ پینے والے بچے کے رضاعی والد کی بیوی شمار ہوگي اوراس سے پیدا ہونے والے رضاعی باپ کی طرف سے رضا‏‏‏ئي بھائی مانے جائيں گے ۔۔ اور اسی طرح باقی رشتہ دار بھی ۔

اس لیے کہ حدیث میں وارد ہے کہ عروۃ بن زبیر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ پردہ کے نازل ہونے کے بعد ابوالقیس کے بھائي افلح نے میرے پاس آنے کی اجازت طلب کی تومیں نے کہا کہ میں اس وقت تک اجازت نہيں دوں گی جب تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ نہ لوں

اس لیے کہ افلح کےبھائي ابوالقیس نے تومجھے دودھ نہیں پلایا بلکہ مجھے تودودھ پلانے والی ابوالقیس کی بیوی ہے ، میرے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاۓ تومیں نے انہیں عرض کیا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابوالقیس کا بھائي افلح نے مجھ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تومیں نے انکار کردیا اوراسے آنے کی اجازت نہيں دی حتی کہ آپ مجھے اس کی اجازت نہ دے دیں ۔

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

تجھے کس چيز نے اجازت دینے سے منع کیا ؟ وہ توتیرا چچا ہے ۔

میں نے عرض کیا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مرد نے تودودھ نہیں پلایا بلکہ مجھے دودھ پلانے والی تو ابوالقیس کی بیوی ہے ؟

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اسے اجازت دے دو ، تیرے ہاتھ خاک میں ملیں وہ توتیرا چچا ہے ۔

عروۃ بیان کرتے ہیں کہ اسی بنا پر عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کہا کرتی تھیں کہ تم رضاعت سے بھی وہی حرام جانو جوکہ نسب سے حرام کرتے ہو ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4796 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1445 )

تویہ حدیث رضاعی والد کے ثبوت پر دلیل ہے اوریہ کہ دودھ پلانے والی عورت کا خاوند رضاعی باپ شمار ہوگا ، اوروجہ استدلال یہ ہے کہ ابوالقیس کی بیوی نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کودودھ پلایا تووہ ان کی رضاعی ماں بنیں اوراس کا خاوند ابوالقیس رضاعی والد اوراس کے بھائی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے رضاعی چچا بن گۓ ۔

تواسی لیے ابوالقیس کے بھائي نے یہ کہا تھا کہ تم مجھ سے پردہ کررہی ہو حالانکہ میں تمہارا چچا ہوں ، دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3644 )

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے اپنے اس فرمان میں صحیح کہا اوراس کی تائيد فرمائي : اسے اجازت دے دو اس لیے کہ وہ تمہارا چچا ہے تیرے ہاتھ خاک میں ملیں ۔

دیکھیں المغنی مع شرح الکبیر ( 9 / 199 ) اور الموسوعۃ الفقھیۃ ( 22 / 248 ) ۔

تواس طرح سوال میں مذکور مسئلہ کا بیان کچھ اس طرح ہے :

زینب نے آمنہ کا دودھ پیا جوآمنہ کی رضاعی بیٹی بنے گی ، اوراسی طرح آمنہ کے خاوند کی بھی رضاعی بیٹی بنے گی ، اگر رضاعت کی تعداد پانچ ہے اوردودھ پینے والے بچے کی عمردو سال سے کم ہے توپھر آمنہ کا خاوند اس بچے کا رضاعی والد ہوگا ۔

تواس بنا پر خاوند کی لونڈی سعدیہ سے پیدا شدہ بیٹی حلیمہ والد کی طرف سے زينب کی رضاعی بہن بنے گی اورحلیمہ کی اولاد اوران میں علی بھی شامل ہے زينب کےلیے محرم ہوگی اس لیے کہ وہ ان کی رضاعی خالہ ہے لھذا ان کا اس سے شادی کرنا صحیح نہیں ۔

اورآپ نے سوال میں جویہ ذکر کیا ہے کہ علی نے زينب سے شادی کرلی ہے جوکہ غیر شرعی اور باطل ہے اس لیے اسے فوری طور پر اسے چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ اس نے اپنی رضاعی خالہ سے شادی کی ہے جوکہ حرام ہے ۔

اوران دونوں کی پیدا شدہ اولاد کے بارہ میں ہم یہ کہیں گے کہ اس شادی سے جواولاد پیدا ہوئي ہے وہ شرعی اولاد ہے اوراپنے والد علی کی طرف منسوب ہوں گے ، کیونکہ اسے وطئی شبہ شمار کیا جاۓ گا اوراہل علم کے ہاں شبہ کی وطئی سے نسب کا الحاق ہوجاتا ہے ۔

شيخ علامہ عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذیل سوال پوچھا گیا :

میں نے کسی عورت کا دودھ پیا توپھر اس کے خاوند نے کسی دوسری عورت سے شادی کرلی اوراس کی دوسری بیوی کے ہاں بیٹے پیدا ہوۓ تو کیا یہ بچے میرے بھائی شمار ہوں گے ؟

توشيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

جواب :

اگر رضاعت کی تعداد پانچ یا اس سے زيادہ ہو ( یعنی بچے نے پانچ بار یا اس سے زیادہ پستان منہ میں ڈال کردودھ پیا ہو ) اوردودھ خاوند کا ہویعنی بچے کی پیدائش کی بنا پرآیا ہو تووہ بچے والد کی جانب سے اس کے رضاعی بھائي ہوں گے ۔ دیکھیں فتاوی السلامیۃ ( 3 / 323 ) ۔

اورشيخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے اسی طرح کا مندرجہ ذیل سوال پوچھا گیا :

سوال ؟

بیوی سے دخول کرلینے کے بعد مجھے علم ہوا کہ یہ تومیری رضاعی بہن ہے ، اس لیے کہ میں نے اس کی بہن کے ساتھ دودھ پیا تھا ، توکیا یہ اس حالت میں مجھ پر حرام ہوگی ؟

توشيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

جواب :

جی ہاں اگرمعاملہ اسی طرح ہوجیسا کہ آپ نے بیان کیا ہے اورآپ نے اپنی سالی کےساتھ اس کی ماں کا دودھ پیا ہے تو یہ حرام ہے ، یعنی وہ اس طرح کہ آپ نے اپنی بیوی کی ماں کا دودھ پیا یا پھر بیوی کے والد کی دوسری بیوی کا دودھ پیا ہے تواس حالت میں آپ اس کے بھائي بنیں گے اوریہ نکاح باطل ہوگا ۔

لیکن یہ ضروری ہے کہ آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ دودھ کا اثر اس وقت ہوتا ہے جب وہ دوبرس سے کم کی عمر میں اور پانچ رضاعت یعنی پانچ بار یا اس سے زيادہ پیا جاۓ ، اوراگر اس سے کم تعدا د میں ہو تو پھر حرمت ثابت نہيں ہوتی ۔

جب آپ کویقین ہوکہ آپ نے اپنی بیوی کی والدہ سے پانچ بار یا اس سے زيادہ دوبرس کی عمر کے دوران دودھ پیا ہے توآپ پر ضروری اورواجب ہے کہ آپ فوری طور پر ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائيں کیونکہ یہ نکاح صحیح نہیں ۔

اوراس کا علم ہونے سے پہلے پیدا ہونے والی اولاد شرعی طور پرآپ کی طرف ہی منسوب ہوگی ، اس لیے یہ بچے ایسی وطئي کے نطفے سے پیدا ہوۓ ہیں جوکہ شبہ کی وطئي ہے اورشبہ کی وطئي سے اہل علم کے ہاں نسب کا الحاق ہوتا ہے ، دیکھیں فتاوی اسلامیۃ ( 3 / 329 ) ۔

اوریہ بھی ضروری ہے کہ آپ انہیں اس کے بارہ میں بتا دیں تا کہ آپ نصیحت میں اس حق کوادا کرسکیں ، اوربرائي کا بھی سدباب ہو، اس لیے کہ ان کا آپس میں اسی حالت میں باطل شادی پر ہی رہنا برائي اورمنکرات میں شامل ہے ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا توفرمان ہے کہ :

( تم میں سے جوبھی کوئی برائي دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اس برائي کواپنے ہاتھ سے روکے ، اوراگر اس کی استطاعت نہ ہو تواسے وہ برائی اپنی زبان سے روکنی چاہۓ ۔۔۔۔ ) صحیح مسلم ۔

اللہ تعالی ہر شخص کواپنے پسندیدہ اوررضا کے کام کرنے کی توفیق بخشے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب