الحمد للہ.
اسے يوم شك كا نام ديا جاتا ہے ( كيونكہ اس ميں شك ہےكہ آيا يہ شعبان كا دن ہے يا يكم رمضان ) اور اس دن روزہ ركھنا حرام ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" چاند ديكھ كر روزہ ركھو اور چاند ديكھ كر ہى عيد الفطر مناؤ، اور اگر تم چاند چھپ جائے ( يعنى آسمان ابر آلود ہو جائے ) تو شعبان كے تيس دن پورے كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1909 ).
اور عمار بن ياسر رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں كہ جس نے يوم شك كا روزہ ركھا اس نے ابوالقاسم صلى اللہ عليہ وسلم كى نافرمانى كى.
اسے ترمذى نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 553 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس حديث سے يوم شك ميں روزہ ركھنے كى حرمت پر استدلال كيا گيا ہے، كيونكہ صحابى ايسا اپنى رائے سے نہيں كہتا لہذا يہ مرفوع حديث ميں شامل ہو گا.
يوم شك كے متعلق مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:
" سنت نبويہ اس دن كے روزہ كى حرمت پر دلالت كرتى ہے"
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 117 ).
اور شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ تعالى يوم شك ميں روزہ ركھنے كے حكم ميں اختلاف ذكر كرنے كے بعد كہتے ہيں:
" اور ان اقوال ميں سے صحيح قول يہ ہے كہ اس دن روزہ ركھنا حرام ہے ليكن اگر امام ( يعنى حكمران ) كے ہاں اس دن كا روزہ ركھنے كا وجوب ثابت ہو جائے اور وہ لوگوں كوروزہ ركھنے كا حكم جارى كردے تو اس كى مخالفت نہيں كى جائيگى، اور اس كى عدم مخالفت يہ ہے كہ انسان اپنا روزہ چھوڑنا ظاہر نہ كرے، بلكہ وہ چورى چھپے روزہ چھوڑے"
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 318 ).
واللہ اعلم .