جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

لونڈى سے خوشطبعى اور مباشرت كرنے كى حكمت

13737

تاریخ اشاعت : 19-05-2007

مشاہدات : 10376

سوال

كتاب رحيق المختوم كے مولف رحمہ اللہ نے باب " نبوت كا گھرانہ " ميں بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس بيوى كے علاوہ چار لونڈياں بھى تھيں.
ميرا سوال يہ ہے كہ:
1 - پھر تو لونڈى حرام نہ ہوئى ؟
2 - كيا كسى بھى مسلمان كے ليے لونڈى ركھنا ممكن ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے بندوں كے ليے جو شريعت نازل كى ہے، وہ بہت ہى بليغ حكمت سے پر ہے، ليكن يہ حكمتيں صرف اسى كے ليے ظاہر ہوتى ہيں جو انہيں تلاش كرتا ہے، اور وہ اللہ سبحانہ وتعالى كى تمام حكمتوں پر ايمان بھى ركھتا ہے، اور وہ اللہ تعالى كى شريعت كے نتيجہ ميں مرتب ہونے والى مصالح اور بہترى كو بغور ديكھتا ہے، جسے انسان سرسرى نظر سے نہيں ديكھ سكتا، اور خاص كر جب كچھ ايسے بد طينت انسان بھى پائيں جاتے ہوں جو اس شريعت كى مخالفت اور اس پر اعتراضات بھى كرتے ہوں، اور اسے وہ حق اور حكمت اور مصحلت نہيں سمجھتے.

آپ كے سوال: لونڈى كے مالك كے ليے لونڈى مباح ہونے كا سبب كيا ہے ؟

كا تفصيلى جواب كچھ اسطرح ہے:

اس ليے كہ اسے اللہ تعالى نے مالك كے ليے مباح اور جائز قرار ديا ہے اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور وہ لوگ جو اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كرتے ہيں، مگر اپنى بيويوں يا لونڈيوں سے، يقينا يہ ملامتى نہيں المؤمنون ( 6 ) اور المعارج ( 30 ).

اور يہ ايك شرط كے ساتھ ہے كہ وہ اس كى صحيح وجہ سے لونڈى بنى ہو، اور اس لونڈى كى شادى مالك نے كسى اور شخص كے ساتھ نہ كى ہو اور وہ لونڈى اپنے خاوند كى عصمت ميں باقى ہو، اور اس اباحت يعنى مباح ہونے كا سبب يہ ہے كہ وہ اس كى ملكيت ميں داخل ہے، اس وجہ سے كہ اس نے اسے خريد كر مال خرچ كيا ہے، يا پھر اس نے اپنى جان اللہ تعالى كى راہ ميں خرچ كى ہے.

شيخ شنقيطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" غلامى كے ساتھ ملكيت كا سبب كفر، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول كے خلاف جنگ ہے، اور مسلمان مجاہدين جنہوں نے اپنى جانيں اور مال اور اپنى سارى قوت اور جو كچھ اللہ نے انہيں ديا ہے اللہ كى راہ ميں خرچ كر ديں كہ اللہ كا كلمہ بلند ہو اور كفار مغلوب ہوں، تو جب اللہ تعالى نے انہيں قدرت اور طاقت دى تو وہ كفار پر غالب آئے اور انہيں اپنا قيدى بنا كر غلام اور اپنى ملكيت ميں لے ليا، ليكن جب مسلمان حكمران اور قائد احسان كرتے ہوئے، يا پھر فديہ لے كر انہيں چھوڑ دے جس ميں مسلمانوں كى كوئى مصلحت ہو تو پھر نہيں " اھـ

ديكھيں: اضواء البيان ( 3 / 387 ).

اگر يہ كہا جائے كہ: جب كوئى غلام مسلمان ہو تو اس كى غلامى كى وجہ كيا ہے ؟

حالانكہ غلامى كا سبب تو كفر اور اللہ تعالى كے خلاف جنگ ہے اور يہ زائل ہو چكى ہے ؟

تو اس كا جواب يہ ہے كہ:

علماء كرام اور اكثر دانش مندوں كے ہاں قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ: سابقہ حق لاحقہ حق سے ختم نہيں ہوتا، اور سبقت كى بنا پر حق بننا ظاہر ہے اس ميں كوئى چيز مخفى نہيں.

تو جب مسلمانوں كو غنيمت ميں كفار قيدى حاصل ہوئے تو ان كى حق ملكيت سب مخلوق كے خالق كے قانون كے مطابق ثابت ہوئى، اور وہ خالق حكيم و خبير بھى ہے، اس ليے جب يہ حق ثابت ہو گيا، اور پھر وہ غلام بعد ميں مسلمان ہوگيا اور اس نے اسلام قبول كر ليا تو اسلامى قبول كرنے كى بنا پر اسے غلامى سے نكلنے كا حق حاصل تھا، ليكن مجاہد كا حق جو اس كے اسلام قبول كرنے سے پہلے كا حق ملكيت ہے وہ سبقت لے گيا ہے، اور يہ كوئى عدل و انصاف نہيں كہ بعد والے حق كى بنا پر پہلا حق ختم كر ديا جائے، جيسا كہ عقلاء و دانش مندوں كے ہاں معروف ہے.

جى ہاں مالك كے ليے يہ بہتر اور اچھا ہے كہ جب غلام اسلام قبول كر لے تو وہ اسے آزاد كر دے، اور شارع نے اس كا حكم بھى ديا اور اس كى ترغيب بھى دلائى ہے، اور اس كے ليے كئى ايك دروازے بھى كھوليں ہيں جيسا كہ ہم بيان كر چكے ہيں.

( شنقيطى رحمہ اللہ اس سے كفارہ ميں آزاد كيے جانے والے غلام ميں اللہ تعالى نے اسلام كى شرط ركھى ہے ).

اللہ حكيم و خبر سب عيبوں سے پاك ہے.

اور آپ كے رب كا كلام سچائى اور انصاف كے اعتبار سے كامل ہے، اس كے كلام كو كوئى بدلنے والا نہيں، اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے الانعام ( 115 ).

قولہ: " صدقا " يعنى اخبار كى سچائى ميں.

قولہ: " عدلا " يعنى احكام ميں.

اور اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ يہ عدل و انصاف ميں سے ہے كہ غلامى وغيرہ سے ملكيت قرآن مجيد كے احكام ميں سے ہے.

اور كتنے ہى ايسے ہيں جو صحيح قول كى بھى عيب جوئى كرتے ہيں، حالانكہ يہ مصيبت ان كى غلط فھم كى وجہ سے ہے.

ديكھيں: اضواء البيان ( 3 / 389 ).

رہا مسلمان شخص كا غلام كا مالك بننا تو اس غلام كى غلامى كے ثبوت كے ليے جو اب فروخت كيا جائے، يا خريدا جائے بہت شديد قسم كى چھان بين كرنى چاہيے، كيونكہ اسلام نے غلامى كے ان مصادر كو جو جاہليت ميں پائے جاتے تھے كو ايك ہى مصدر ميں منحصر كر ديا ہے، اور وہ جنگ ميں قيدى بننے والے كفار پر لاگو ہوتا ہے، كہ جب مسلمان كفار كے خلاف لڑائى كريں اور اس ميں كافر قيدى بنيں تو ان پر غلامى كا ليبل لگ سكتا ہے، يا پھر ان كى نسل ميں سے ہو.

آپ مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 26067 ) اور ( 12562 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب