جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

حائضہ بيوى كى طرف سے نمازوں كى قضاء كرنا

13995

تاریخ اشاعت : 18-11-2006

مشاہدات : 6748

سوال

كيا مسلمان عورت پر ماہوارى كے درميان رہ جانے والى نمازيں ادا كرنا ضرورى ہيں ؟
اور كيا حائضہ عورت كى جانب سے كوئى دوسرا شخص مثلا خاوند نمازيں ادا كر سكتا ہے، مثلا وہ اپنى اور بيوى كى جانب سے ہر نماز دو بار ادا كرے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حيض كى حالت ميں عورت سے نماز ساقط ہو جاتى ہے، بلكہ اگر وہ نماز ادا كرے تو گنہگار اور اپنے رب كى نافرمان ٹھرے گى، اور اس كى نماز قبول نہيں ہوگى.

اللہ سبحانہ وتعالى نے حالت حيض ميں اسے نماز ترك كرنے ميں معذور قرار ديا ہے، اور عورت كا دين ناقص ہونے كا بھى يہى معنى ہے جس كا بيان درج ذيل حديث ميں ہے:

ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم گئے اور فرمانے لگے: اے عورتوں كى جماعت ... ميں نے ناقص عقل اور ناقص دين نہيں ديكھيں، تم ميں سے ايك اچھے بھلے شخص كى عقل خراب كر ديتى ہے، وہ عورتيں كہنے لگيں: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہمارا دين اور عقل كس طرح ناقص ہے ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا عورت كى گواہى مرد كى گواہى كے نصف نہيں ہے ؟ تو عورتيں كہنے لگى كيوں نہيں.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: يہ اس كى عقل كے نقصان ميں سے ہے، اور جب وہ حيض ميں ہوتى ہے تو كيا نماز اور روزہ ترك نہيں كرتى ؟

تو عورتيں كہنے لگيں كيوں نہيں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: يہ اس كے دين كا نقصان ہے "

صحيح بخارى كتاب الحيض حديث نمبر ( 293 ) صحيح مسلم كتاب الايمان حديث نمبر ( 114 ).

معاذۃ بيان كرتى ہيں كہ ميں نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے دريافت كيا:

حائضہ عورت روزے كى قضاء تو كرتى ہے ليكن نماز كى قضاء كيوں نہيں كرتى ؟

تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا فرمانے لگيں:

" ہميں بھى حيض آتا تو ہميں روزوں كى قضاء كرنے كا حكم ديا جاتا ليكن ہميں نمازوں كى قضاء كا حكم نہيں ديا گيا "

صحيح بخارى كتاب الحيض حديث نمبر ( 310 ) صحيح مسلم كتاب الحيض حديث نمبر ( 508 ) يہ الفاظ مسلم كے ہيں.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

يہ حكم ـ يعنى نماز قضاء نہ كرنا ـ متفق عليہ مسئلہ ہے، اور اس پر مسلمانوں كا اجماع ہے كہ حائضہ اور نفاس والى عورت پر اس وقت نماز اور روزہ فرض نہيں، اور اس پر بھى متفق ہيں كہ ان پر نمازوں كى قضاء واجب نہيں، اور اس پر بھى اجماع ہے كہ ان پر روزوں كى قضاء واجب ہے.

علماء كرام كا كہنا ہے: ان ميں فرق يہ ہے كہ: نمازيں زيادہ اور تكرار كے ساتھ ہوتى ہيں، اس ليے ان كى قضاء مشكل ہے، ليكن روزے ايسے نہيں.

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 4 / 26 ).

تو يہ كہا جائيگا كہ اصل ميں حائضہ عورت حالت حيض ميں نماز كى مكلف ہى نہيں، اور نہ ہى اس كے ليے حيض ختم ہونے كے بعد نماز كى قضاء كرنا جائز ہے، تو پھر اس كى جانب كوئى دوسرا شخص نماز كى قضاء كيسے كر سكتا ہے ؟

چنانچہ اس كے خاوند كو اپنى بيوى كى جانب سے نماز قضاء كرنے كى كوئى ضرورت نہيں، اور پھر كسى دوسرے كى جانب سے نماز كى قضاء تو جائز ہى نہيں.

عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہا كہتے ہيں:

" كوئى شخص بھى كسى دوسرے كى جانب سے نماز ادا نہ كرے "

اس ليے ہر مسلمان شخص كو دين ميں بدعات ايجاد كرنے سے گريز كرنا چاہيے، جس كى اللہ تعالى نے اجازت ہى نہيں دى.

اللہ تعالى ہى زيادہ علم والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد