منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

نصرانى ملازمہ سے پردہ كرنے كا حكم

14018

تاریخ اشاعت : 19-11-2007

مشاہدات : 5703

سوال

ہمارے گھر ميں ايك نصرانى ملازمہ ہے تو كيا ہم پر اس سے پردہ كرنا واجب ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق مسلمان عورت كے ليے كافرہ عورت سے پردہ كرنا واجب نہيں، ليكن بعض اہل علم كہتے ہيں كہ مسلمان عورت كے ليے كافرہ عورت سے پردہ كرنا واجب ہے، انہوں نے سورۃ النور كى آيت سے استدلال كيا ہے جس ميں اللہ تعالى نے مومن عورتوں كو اپنى زينت خاوندوں وغيرہ دوسرے محرم مردوں كے علاوہ كسى اور كے سامنے ظاہر كرنے سے منع كرتے ہوئے فرمايا ہے:

اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں، سوائے اسكے جو ظاہر ہے، اوراپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے بيٹوں كے، يا اپنے خاوند كے بيٹوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب كے سب اللہ كى جانب توبہ كرو، تا كہ تم نجات پا جاؤ النور ( 31 ).

كچھ اہل علم كہتے ہيں كہ اس آيت ميں " يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے " سے مراد مومن عورتيں ہيں، اس ليے اگر عورتيں كافرہ ہوں تومومن عورتيں ان كے سامنے اپنى زينت ظاہر نہ كريں.

اور دوسرے علماء كہتے ہيں كہ: " اپنے ميل جول كى عورتوں كے " سے مراد جنس عورت مراد ہے، چاہے وہ مومن ہوں يا غير مومن، زيادہ صحيح بھى يہى معلوم ہوتا ہے، اس ليے مومن عورت پر كافرہ عورت سے پردہ كرنا واجب نہيں، كيونكہ احاديث سے بھى ثابت ہوتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عہد مبارك مدينہ ميں يہودى عورتيں، اور اسى طرح بت پرست عورتيں ازواج مطہرات كے پاس آيا كرتى تھيں، اور يہ كہيں بھى ذكر نہيں ملتا كہ ازواج مطہرات نے كسى عورت سے پردہ كيا ہو.

اگر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ازواج مطہرات يا ان كے علاوہ كسى اور نے ايسا كيا ہوتا يہ بھى ضرور منقول ہوتا؛ كيونكہ صحابہ كرام نے ہر چيز نقل كى ہے، يہى راجح اور مختار قول ہے.

ماخذ: ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ للشيخ ابن باز ( 6 / 361 )