جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

انسانیت کودین کی ضرورت ؟

سوال

لوگوں کو دین کی ضرورت کیوں ہے ؟
کیایہ کافی نہیں کہ لوگوں کی زندگی کی حفاظت اور ضبط کے لۓ قوانین بناد‏یۓ جائیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

انسان کواس کی دوسری ضروریات زندگی سے بھی زیا دہ دین کی ضرورت ہے کیونکہ انسان کے لۓ یہ ضروری ہے کہ وہ ان مواقع کوجانے جس سے اللہ تعالی کی رضاحاصل ہوتی ہے اور اسی طرح ان مواقع کوبھی جانناضروری ہے جواس کی ناراضگی کاباعث بنتے ہیں ۔

اور اسی طرح ایسےکام اور حرکت کرنی بھی ضروری ہے جوکہ نافع اور اس کے اس کے نقصان کودورکرےاور یہ شریعت ہی ہےجوان اشیاء اور کاموں میں تمیزکرتی ہے کہ کونسی چیزنافع اور کونسی نقصان دہ ہے اور یہ شریعت ہی لوگوں کے درمیان اللہ تعالی کاعدل وانصاف ہے اور اس کے بندوں کےدرمیان اس کانوراورروشنی ہے ۔

تولوگوں کے لۓ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ایسی شریعت کے بغیرزندگی گزارسکیں جس سے وہ یہ تمیزکر سکیں کہ انہوں نےکون ساکام کرنااور کون سانہیں کرنا ۔

تواگرانسان کے لۓارادہ ہے تو پھریہ بھی ضروری ہے کہ وہ جوچاہتا ہے اس کے لۓاس کی معر فت بھی ضروری ہے ، اور کیا وہ نفع مند ہے یا کہ نقصان دہ ، اور کیا وہ میری اصلاح کرےگا یا کہ اسے فسادمیں مبتلا کردے گا ؟

تواسے کچھ لوگ تواپنی فطرت اور بعض اپنی علتوں کے استدلال کے ساتھ جانتے ہوں گے اور بعض کواس کاعلم نہیں اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کہ انہیں رسول بیان نہ کردیں اور انہیں اس کی راہ نہ دکھادیں اور رسول ان کے لۓ اس کی تعرف نہ کر دیں ۔

دیکھیں کتاب : التدمر یۃ تالیف شیخ الاسلام ابن تیمیہ صفحہ نمبر (213۔ 214)

اور مفتاح دارالسعادۃ جلدنمبر (2۔ صفحہ نمبر ۔383)

مادی اور الحادی مذھب کا گراف جتنابھی بلندی پرچلاجائے اور وہ خوبصورتی اختیار کرلے اورجتنےبھی افکارونظریات پیدا ہوجائیں تو پھر بھی معاشرے اورافرادکودین صحیح سے مستغنی اور کفایت نہیں کرتے اورنہ ہی ان میں یہ سکت اورطاقت ہے کہ وہ روح اورجسم کی طلبات پورا کرسکیں بلکہ آدمی جتنابھی اس میں داخل ہوگا اسے اتناہی یقین کامل ہوگایہ امن نہیں دے سکتے اورنہ ہی پیاسے کی پیاس بجھاسکتے ہیں ۔

تواس سے چھٹکاراحاصل کرکے دین صحیح کے علاوہ کوئی ایسی چیزنہیں جہاں پر بھاگ کرجایاجا‏ئے ، ارنسٹ رینن کا کہنا ہے کہ ( یہ ممکن ہے کہ ہروہ چیزجسے ہم پسندکرتے ہیں وہ نیست ونابود اورتباہ ہوجا‏ئے اور عقل وعلم اورصنعت کااستعمال زندگی باطل اور ختم ہو جائے لیکن یہ مستحیل اور ناممکن ہے کہ دین ا ختیارکرنااوردین دارہونانیست ونابوداور تباہی کا شکارہوبلکہ مادییت کے مذا ھب کوباطل کرنے والی دلیل وحجت باقی رہے گی وہ مادی مذھب جوانسان کوزمینی زندگی کے اندر کمینی قسم کی سختیوں میں گھیر نے کی کوشش میں رہتاہے )

دیکھیں کتاب : الدین تالیف : عبداللہ دراز صفحہ نمبر ( 87)

اورمحمدفریدوجدی کا قول ہےکہ :

( یہ مستحیل ہے کہ دینی سوچ اور دین اختیارکر نےکی سوچ نیست ونابوداور اس کا وجودختم ہو جائے کیونکہ یہ میلان نفس کی سب سے بلندی ہے اور اس کی شفقت ونرمی کا سب سے اچھادرجہ ہے اور ایسے مبالغہ والا میلان ہے جوکہ انسان کے سرکوبلندکرتا ہے بلکہ یہ میلان اور زیادہ ہوتاہے ۔

توجب تک انسان عقل ودانش رکھتا ہے جس کے ساتھ اسے خوبصورتی اوربدصورتی کی پہچان ہوتی ہے تودین اختیارکر نے کی فطرت اسے ادراک وفہم اور معرفت میں زیادتی کے حساب سے لازمی اور ضروری مل کررہے گی )

دیکھیں کتاب :الدین۔صفحہ نمبر : (87)

تو جب انسان اپنے رب سے دورجاتا ہے تووہ اپنے ادراک میں بلندی اور علم کی وسعت کے حساب سے اسے اپنے رب کے ساتھ اور جواس پرواجب ہے میں جہالت کی عظمت کا ادراک ہوتا ہے کہ وہ کتنی بڑی جہالت میں ہے اوراسی طرح اپنے نفس کے لۓان اشیاءسے جو کہ اس کی اصلاح یاپھراسے خراب کریں اور اس میں اس کی سعادت مندی ہے یا کہ بدبختی میں جہا لت کا ادرا ک ہوتاہے ۔

اور اسی طرح اس کا علوم کی جزئیات اور مفردات میں جاہل ہونا مثلافلکیات کا علم اور علم کہکشاں اور کمپیوٹرکاعلم اور اسی طرح ایٹمی علم سے بھی اسے اپنی جہالت کی کیفیت کااد را ک ہوتاہے ۔

تواس وقت عالم غروراور تکبر کےمرحلہ سے تواضع اور عاجزی اور انکساری اور تسلیم کے مرحلے کی طرف لوٹتا ہے اور پھراس کا اعتقادبن جاتاہے کہ ان علوم کے پیچھے کوئی ایساعالم اور حکمت والا ہےاوراس طبیعت کے پیچھے کوئی خالق ہے جوکہ اس کی قدرت رکھتا ہے ۔

تویہ حقیقت حال ایک انصاف کے متلاشی کویہ لازم کرتی ہے کہ وہ غیب پرایمان لائے اورسیدھے اورمضبوط دین کا اقرارکرے اور اس کی اطاعت میں داخل ہواور فطرتی اورطبعی پکار کو قبول کرے ، تواگرانسان اس سے کنارہ کرے گاتواس فطرت الٹ ہوجائے گی اور وہ ان حیوانات کی صف میں شامل ہوجائے گاجو کہ گونگےاور بےعقل ہیں ۔

اور خلاصہ یہ کہ دین حق کو اختیارکرنا چا ہیے ۔ وہ دین جو کہ اللہ تعالی کی توحیداوراسے ا کیلا ماننے پرمبنی ہواور اس اللہ وحدہ کی عبادت اللہ کے مشروع کردہ طریقے کے مطابق ہونی چاہۓ ۔تواس دین کوا ختیارکرنازندگی کا ضروری عنصر ہے تا کہ انسان اللہ رب العالمین کی بندگی حاصلی کر سکےاور دونوں جہانوں میں اپنی سعادت کوحاصلی کر ے اور ہلا کت اور تکالیف سے سلامت ر ہے ۔

اور یہ اس لۓ بھی ضروری ہے کہ تا کہ انسان اپنی نظریاتی قوت وطاقت کو پورا کرسکے تواسی ایک چیزکے ساتھ ہی عقل اپنی خواہشات کی تکمیل کر سکتی ہے اور اسکے بغیر اس کےبلند بالامقاصدپور ے نہیں ہوسکتے ۔

اور روح کے تزکیہ اور قوت و جدان کی تھذیب کے لۓ یہ ایک ضروری عنصر ہے جبکہ انتہائی شرافت دین میں عوج ثریا کی مجال ہے اور ایساگھاٹ ہے کہ جس کا پانی ختم نہیں ہو سکتااور اس میں اپنی غرض وغایت حاصلی کی جاسکتی ہے ۔

اورعنصر اس لۓ بھی ضروری ہے تا کہ قوت ارادی مکمل ہو جوسب سے عظیم سبب اور دوافع کے ساتھ زیا دہ اورناامیدی اور مایوسی سے بچانے والے سب سے بڑے وسائل کے ساتھ مضبوطی اختیارکر تا ہے ۔

تواس بناپر تواگر کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ انسان طبعی طورپر شہری ہے توہم بھی یہ ضرور کہیں گے ( بیشک انسان فطرتی طورپر دین داراورمتدین ہے )

دیکھیں کتاب ،، الدین ،، تالیف عبداللہ دراز ۔صفحہ نمبر ۔ (84۔85)

کیو نکہ انسان کی دوقوتیں ہیں ،، علمی نظریاتی قوت ،، اور ،،علمی ارادی قوت ،،اورانسان کی مکمل سعادت مند ی اس کی علمی ارادی قوت پرموقوف اوراسکادارومدارہے اورقوت علمی کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ مندرجہ ذیل امورکی معرفت نہ ہو :

1۔ اس معبود کی معرفت جو کہ خالق اوررازق ہے اور جس نے انسان کو عدم سے وجوددیا اوراس پر اپنی نعمتیں مکمل کیں ۔

2 ۔اللہ تعالی کےاسماء اور اس کی صفات کی معرفت وپہچان اورجواس کے واجبات ہیں اوران اسماء کااس کےبندوں پراثرکی بھی معرفت ۔

3 ۔ان راستوں کی پہچان اور معرفت جن کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف پہنچاجاسکتا ہے ۔

4 ۔ان آفات اورعمل سےروکنے والی چیزوں کی معرفت جوکہ انسان اوراس راستے اوراس تک جو عظیم نعمتیں حاصلی ہوتی ہیں ان کے درمیان حائل ہوں ان کی معرفت ۔

5 ۔اپنے نفس کی حقیقی معرفت اور جن کا یہ محتاج اور جواس کی اصلاح کریں یا اس کے فساد کاباعث ہوں اور ان کی عیبوں اور ممیزات کی معرفت جس پریہ مشتمل ہے ۔

توان پانچ چیزوں کی معرفت سےانسان کی قوت علمی کامل ہوتی ہے اورقوت علمی ارادی کی تکمیل اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ اللہ تعالی کے ان حقوق کاخیال نہ رکھاجائے جو کہ بندے پر ہیں اورپھر یہ حقوق اخلاص اور صدق وخیر خواہی اوراتباع واطاعت اوراپنے اوپر اس کےاحسان کی گواہی کے ساتھ اداہونےضروری ہیں ۔

اور یہ دونوں قوتیں اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ اللہ تعالی کی مددوتعاون شامل حال نہ ہوتوبندہ مجبور ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی اسے صراط مستقیم کی ہدایت دے جس نے اپنے اولیاء کواس صراط مستقیم کی ہدایت دی ہے ۔

دیکھیں : الفوائد صفحہ نمبر ۔ (18۔19)

یہ علم ہوجانے کے بعد کہ صحیح دین ہی مختلف نفسوں کی تقویت کے لۓ مددالہی ہے کیونکہ دین ہی معاشرہ کے لۓ بچاؤ کی ڈھال ہے اور اس لۓ کہ انسانی زند گی کا قیام اس کے اعضاء کے درمیان تعاون کے ساتھ ہی ممکن ہے اور یہ تعاون اس وقت تک پورانہیں ہوتاجب تک کہ کوئی ایسانظام نہ ہوجوکہ ان کے علاقات کی تنظیم اور ان کےواجبات کی تحدیدکرےاور ان کے حقوق کا کفیل ہو ۔

اور یہ نظام کسی ایسی سلطان اوردلیل کے بغیرنہیں ہوسکتا جو کہ مخالفت کوروکنے والی اورنفس کوبے عزت ہونے سے روکے اور اسے اس کی حفاظت کی رغبت ہواورنفوس میں اس کی ہیبت کی ضامن ہو اوراس کے محرمات کوتوڑنےسےمحفوظ رکھےتویہ دلیل کیا ہے ؟

میں کہتاہوں : کہ روئےزمیں پرکوئی ایسی قوت نہیں جوکہ دین اختیارکر نے کی قوت کا مقابلہ کرسکےیانظام کے احترام کرنےمیں اس کی برابری ہی کرسکتی ہو ، اورمعاشرےکےنظام کے استقراراوراس کے ٹھراؤاور اجتماعیت اور اس میں راحت کے اسباب اورمعاشرے کےاندراطمنان کی ضامن ہو ۔

اوراس میں رازیہ ہے کہ جتنی بھی جاندارمخلوقات ہیں ان میں سےانسان کویہ امتیازحاصلی ہے کہ اس کی حرکات وسکنات اور تصرفات اختیاری جس کی قیادت ایک ایسی چیز کررہی ہے جسے آنکھیں اورکان نہیں پاسکتے اوریقینی طورپرعقیدہ ایمانی ہے جوکہ روح کومہذب بناتااوراعضاء کاتزکیہ کرتا ہے توانسان ہمیشہ یاتوعقیدہ صحیح کےساتھ چلتا ہے یاپھرعقیدہ فاسدہ کےساتھ تواگراس کاعقیدہ صحیح ہوجائےتواس میں ہرچیزصحیح ہوجاتی ہے اور اگرعقیدہ ہی فاسدہوجائےتوہرچیزخراب اورفاسدہوجائےگی ۔

توعقیدہ اورایمان یہ دونوں انسان کےذاتی محافظ ونگہبان ہیں اوران جس طرح کہ عام انسانوں میں ہے کی دوقسمیں ہیں :

1 ۔ایساایمان جوکہ انسانی افضلیت اورعزت اورصرف ایسےمعانی جس کی مخالفت کرنےسے نفس حیا کریں حتی کہ اگراس کی مادی جزاختم بھی کردی جائے ۔

2 ۔ اوراللہ تعالی پرایمان رکھنااوریہ کہ اللہ تعالی اس کے پوشیدہ رازوں کابھی نگہبان ہے وہ پوشیدہ اورچھپی ہوئی چیزوں کوجانتا ہے توشریعت اپنی دلیل اللہ تعالی کےامراورنہی سےحاصلی کرتی ہے اورشعوراورحواس سےحیاء کی بناپرگرم تپتےہیں یاتواللہ تعالی کےڈراورخوف سےاوریاپھراس کی محبت سے>اوریا پھرامحبت <اورخوف دونوں کی بناپر ۔

اوراس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ایمان کی یہ قسم دونوں قسموں میں سے انسانی نفس پردلیل ہونے کےناطےزیادہ قوی ہے اور یہ خواہشات کی آندھیوں اوراس کےتھپیڑوں کامقابلہ کرنے میں زیادہ قوی ہے اورعام وخاص میں نافذ ہو نے کے اعتبار سے بھی زیادہ تیزاورجلدمیں نافذ ہوجاتی ہے ۔

تواس وجہ سے لوگوں کے درمیان عدل وانصاف کے قواعدپرمبنی معاملات میں دین ہی سب سے بہترضمانت ہے اور پھریہ اجتماعی اورمعاشرتی ضرورت بھی ہے ، تواس میں کوئی شک نہیں کہ امت میں دین ایسے ہی ہے جس طرح کہ جسم میں دل ہوتاہے ۔

دیکھیں : الدین صفحہ نمبر : ( 98 ۔ 102)

توجب عمومی طور پر دین کا یہ مر تبہ ہےتوآج اس دنیامیں کتنےہی دین اورطر یقے پائے جاتے ہیں اورآپ ہرقوم کودیکھیں گہ کہ اس کے پاس جو بھی دین ہے وہ اس پرخوش ہے اورسختی سےاسی پرکاربند ہے ، تووہ کونساایساصحیح دین ہے جوکہ نفس انسانی کی شوق کو پورا کرسکے ؟ اوردین حق کےکیاضوابط اوراصول ہیں ؟ .

ماخذ: محمدبن عبداللہ بن صالح السحیم کی کتاب اسلام کےاصول اوراسکی مبادیات ( الاسلام اصولہ ومبادئہ ) سےلیاگیاہے ۔