منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

طلاق شدہ بيوى كو واپس لانے كے ليے بد دعاء كرنا كہ اللہ اسے ايسا شخص دے جس سے اس كا نباہ نہ ہو سكے

140573

تاریخ اشاعت : 06-04-2010

مشاہدات : 8107

سوال

ميں نے اپنى بيوى كو طلاق بتہ دے دى ہے يعنى تين طلاق دے چكا ہوں، اور اب اسے واپس لانا چاہتا ہوں، مجھے معلوم ہے كہ حلالہ كرانا حرام ہے، ليكن يہ ہے كہ ميرى بيوى كا ميرے ساتھ دوبارہ نكاح اسى صورت ميں ہو سكتا ہے جب وہ كسى دوسرے شخص سے طبعى طور پر شادى كرے جو حلالہ كے شبہ سے خالى ہو يہ سب كچھ تو مدت كو بہت طويل اور لمبا كر دے گا، كيا كوئى ايسا مختصر طريقہ ہے كہ ميں اپنى بيوى كو واپس اپنے گھر لا سكوں ؟
اور كيا يہ جائز ہے كہ ميں يہ اللہ سے يہ دعا كروں كہ اللہ اسے ايسا خاوند دے جس سے اس كا نباہ نہ ہو سكے اور وہ اسے جلد طلاق دے دے تا كہ مجھے اس سے شادى كرنے كا موقع ملے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آدمى كو چاہيے كہ وہ بيوى كو اتنى جلدى طلاق مت دے كيونكہ اس ميں بہت سارى خرابياں پيدا ہوتى ہيں، جس كا نقصان خاوند اور بيوى اور ان كى اولاد سب كو ہوتا ہے، اور بعض اوقات تو مرد طلاق دينے پر نادم بھى ہوتا ہے، ليكن يہ سب كچھ وقت گزرنے كے بعد ہے اس ليے اب ندامت كا كوئى فائدہ نہيں.

اب پچھتائے كيا ہوت جب چڑياں چگ گئيں كھيت ؟

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اگر اسے ( تيسرى ) طلاق دے دے تو اس كے حلال نہيں حتى كہ وہ كسى دوسرے خاوند سے نكاح كرے، اور اگر وہ اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر كوئى گناہ نہيں كہ وہ آپس ميں رجوع كر ليں اگر ان كا خيال ہو كہ وہ اللہ كى حدود كا پاس كريں گے، اور يہ اللہ كى حدود ہيں جو اللہ تعالى جاننے والوں كے ليے بيان كر رہا ہے البقرۃ ( 230).

آپ نے حلالہ كو چھوڑ كر اچھا كام كيا ہے كيونكہ حلالہ حرام اور باطل ہے، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حلالہ كرنے اور كرانے والے دونوں پر لعنت فرمائى ہے.

ابو داود نے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى حلال كرنے اور حلالہ كرانے والے پر لعنت فرمائے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2076 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

حلالہ حرام ہونے كے بارہ ميں تفصيلى بيان آپ سوال نمبر ( 109245 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.

تين طلاق والى بيوى كو واپس لانے كے ليے كوئى اور طريقہ نہيں ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اگر وہ اسے طلاق دے دے تو تو وہ اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں جب تك وہ كسى دوسرے خاوند سے نكاح نہ كر لے .

اور يہاں " حتى " غايت كے ليے ہے، اس ليے وہ اس پر اس وقت تك حرام رہےگى جب يہ غايت موجود رہے، حتى كہ كسى دوسرے سے نكاح كر لے .

رہا يہ مسئلہ كہ آپ اللہ سے دعا كريں كہ اللہ اسے كوئى ايسا خاوند دے جس سے اس كا نباہ نہ ہو سكے اور وہ اسے طلاق دے دے تا كہ آپ اس سے شادى كر سكيں، تو اس سے بہتر يہ ہے كہ آپ اللہ تعالى سے يہ دعا كريں كہ اگر اس سے شادى ميں آپ كے ليے خير و بھلائى ہے تو اس سے شادى ميں آسانى پيدا فرمائے كيونكہ آپ كو علم نہيں كہ آپ كى اس سے شادى كرنے ميں خير و بھلائى ہے يا نہيں ؟ اس ليے كہ وہ آپ كے پاس تھى تو آپ دونوں ميں خاوند اور بيوى كى زندگى صحيح نہ گزر سكى.

پھر آپ كو يہ چاہيے كہ آپ يہ دعا مت كريں كہ اللہ اس كے اور اس كے خاوند كے مابين نباہ كى توفيق نہ دے، بلكہ آپ اس كو اللہ كے سپرد كر ديں كہ اللہ ايسے اسباب مقدر كر دے جس سے ان ميں عليحدگى ہو اور آپ كے ليے حلال ہو جائے اگر اس كا آپ كے پاس واپس آنے ميں خير و بھلائى ہے تو پھر .

اور اسى ميں اللہ كے ساتھ كمال ادب ہے، اور اس پر كوئى اعتراض نہيں، اللہ سبحانہ و تعالى نے خندق والوں كا قصہ بيان كيا ہے جس ميں اس مومن بچے كى دعا ہے جو اس نے اپنے دشمنوں كے ليے كى تھى اس بچے كا كہنا تھا:

" اے اللہ تو ميرے ليے ان كے مقابلہ جس طرح چاہے كافى ہو جا " صحيح مسلم حديث نمبر ( 3005 ).

حاصل يہ ہوا كہ:

آپ كے ليے اس ميں كوئى حرج نہيں كہ آپ اس سے شادى ميں آسانى كى دعا كريں، ليكن افضل يہ ہے كہ آپ اس كو مقيد كرتے ہوئے يہ دعا كريں كہ اگر اس سے شادى كرنے ميں ميرے ليے خير و بھلائى ہے تو اس ميں آسانى پيدا فرما.

ہمارى رائے تو يہى ہے كہ آپ اس كے ساتھ سارے تعلقات ختم كر ديں، كيونكہ جس كام كو آپ تلاش كر رہے اس كا حصول آسان نہيں، بلكہ اس كے مواقع تو بہت ہى كم ہيں، اور خاص كر اس صورت ميں جب آپ كو يہ علم ہو چكا ہے كہ اس عورت كا آپ كى بيوى بننا اس صورت ميں ہے جب اس كا خاوند اسے طلاق دے دے، اور يہ بھى اس كے ساتھ مقيد ہے كہ اگر آپ دونوں كا غالب گمان ہو كہ آپ دونوں اللہ كى شريعت و حدود كو قائم ركھو گے، اور اس كى حدود حرمات كى حرمت پامال نہيں كرو گے.

جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تو اگر وہ اسے طلاق دے دے تو اس كے ليے اس وقت حلال نہيں حتى كہ وہ كسى اور دوسرے خاوند سے نكاح نہ كر لے، اور اگر وہ بھى اسے طلاق دے دے تو ان دونوں كے ليے آپس ميں رجوع كرنے ميں كوئى حرج نہيں اگر وہ يہ گمان كريں كہ وہ دونوں اللہ كى حدود كو قائم ركھيں گے، اور يہ اللہ كى حدود ہيں جو اللہ نے جاننے والوں كے ليے بيان كى ہيں البقرۃ ( 230 ).

شيخ ابن سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" خاوند اور بيوى كا آپس ميں دوبارہ نكاح كرنے كے ليے شرط يہ ہے كہ وہ يہ گمان كرتے ہوں كہ " وہ اللہ كى حدود كا خيال كريں گے اور اسے قائم ركھيں گے " كہ خاوند اور بيوى ميں سے ہر ايك دوسرے كا حق دےگا، اور يہ اسى صورت ميں ہے جب وہ اپنى پہلى و سابقہ زندگى اور معاشرت پر نادم ہوں جو ان ميں عليحدگى كا باعث بنى تھى، اور دونوں عزم كريں كہ وہ اسے اچھى معاشرت و زندگى ميں تبديل كريں گے، تو پھر ان دونوں كا آپس ميں دوبارہ ملنے ميں كوئى حرج نہيں.

اور آيت كريمہ كا مفہوم يہ ہے كہ:

اگر ان كے گمان ميں يہ ہو كہ وہ اللہ كى حدود كو قائم نہيں ركھ سكيں گے، كہ ان كے گمان ميں غالب يہى ہو كہ سابقہ حالت باقى ہے اور سوء معاشرت ابھى ختم نہيں ہوئى تو پھر انہيں ايسا كرنے ميں گناہ ہو گا، كيونكہ اگر سب امور ميں اللہ كے حكم كو قائم نہ كيا گيا اور اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى كے راستے پر نہ چلا گيا تو پھر ان كا يہ اقدام يعنى دوبارہ شادى كرنا حلال نہيں " انتہى

ديكھيں: تفسير السعدى ( 102 ).

اور اگر ايسا ہى ہے تو پھر عقلمند كو چاہيے كہ وہ پھر اپنے نفس كے ڈورے كسى دوسرے كے ساتھ مت باندھے، اور اسے وہى كام كرنا چاہيے جس ميں اس كے ليے خير و بھلائى اور اس كى مصلحت پائى جاتى ہو، لہذا آپ اپنے ليے كوئى دوسرى بيوى تلاش كر ليں، ہو سكتا ہے اللہ تعالى اس كے ساتھ آپ كى آنكھوں كو ٹھنڈا كر دے اور اس كے ساتھ آپ كى حالت درست كر دے اور پہلى بيوى كے جانے سے جو آپ كا فوت ہوا ہے اس كو پورا كرے اور تسلى و تشفى دے جس كى آپ حفاظت كرنے سے عاجز تھے.

اور اگر مقدر ہوا جو آپ نے مانگا تھا اور جس كى رغبت ركھتے تھے كہ وہ اپنے دوسرے خاوند سے بھى عليحدہ ہو جائے اور يہ عليحدگى جيسے بھى ہوئى ہو تو پھر آپ كے ليے ممكن ہو گا كہ آپ اسے اپنى دوسرى بيوى بنا ليں اور پہلى بيوى بھى ركھيں، يہ اس صورت ميں ہے جب يہ فرض كيا جائے كہ آپ كا دل اس كو چاہے وگرنہ آپ اس كو رہنے ديں اور اپنے كام ميں لگے رہيں اور اس كا خيال نكال ديں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب