جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

اس وقت جوبندر اورخنزیر ہیں کیایہ مسخ شدہ بشرہیں

14085

تاریخ اشاعت : 21-06-2003

مشاہدات : 16300

سوال

آپ مجھے بندروں کے بارہ میں بتا سکتے ہیں کہ کیا یہ وہی بشرہیں جنہیں اللہ تعالی کے احکام میں معصیت کی بناپرجانوروں میں مسخ کر دیا گیا تھا ؟
اوراگرمعاملہ کچھ ایسا ہی ہے تووہ کون سی قومیں ہیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


انسان کی ظاہری شکل کے بدلنے کومسخ کہا جاتا ہے ، اللہ تبارک وتعالی نے ہیں قرآن مجید میں کئ ایک مقام پریہ خبر دی ہے کہ اس نے بنی اسرائیل میں سےکچھ کی شکلوں کومسخ کرکے اللہ تعالی کی معصیت کرنے بطورسزا بندر بنا دیا تھا ، تواللہ تعالی بنی اسرائیل کومخاطب کرتے ہوۓ فرماتے ہیں :

اوریقینا تمہیں ان لوگوں کا بھی علم ہوگا جوتم میں سے ہفتہ کے بارہ میں حد سے تجاوز کرگۓ تھے اور ہم نے بھی کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ ، اسے ہم نے پہلے اوربعد والوں کے لیے عبرت اور پرہیزگاروں کے لیے وعظ ونصحیت کا سبب بنادیا البقرۃ ( 65 - 66 ) ۔

اوراللہ تعالی نے ان کے قصہ کوسورۃ الاعراف میں ذراتفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہوۓ فرمایا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ اورآپ ان لوگوں سے اس بستی والوں کا جوکہ دریا ۓ ( شور) کے قریب آباد تھے اس وقت کا حال دریافت کریں جب کہ وہ ہفتہ کے بارہ میں حد سے تجاوز کررہے تھے جب ان کے پاس ہفتہ والے دن تو ان کی مچھلیاں ظاہرہو ہو کران کے سامنے آتی تھیں ، اور جب ہفتہ کا دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھی ، ہم ان کی اس طرح آزمائش کرتے تھے اس کی وجہ ان کا فسق تھا ۔

اورجب کہ ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کی کیوں نصیحت کرتے ہوجن کو اللہ بالکل ہلاک کرنے والا ہے یا ان کوسخت سزا دینے والا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے روبرو عذرکرنے کے لیے اور اس لیے کہ شائد وہ ڈر جائيں ۔

توجب وہ اس چیزکوبھول گۓ جوانہیں سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کوتوبچا لیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کوجو زیادتی کرتے تھے ان کے فسق کی وجہ سے ایک سخت عزاب میں پکڑ لیا ۔

یعنی جب وہ اس کام میں حد سے تجاوز کرگۓ جس سے منع کیا جاتاتھا تو ہم نے انہیں کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ } الاعراف ( 163 - 166 ) ۔

اور اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ آپ کہہ دیجۓ اے یھودیو اور نصرانیو ! تم ہم سے صرف اس وجہ سے دشمنیاں کررہے ہوکہ ہم اللہ تعالی پر اور جوکچھ ہماری جانب نازل کیا گيا ہے اور جوکچھ اس سے پہلے اتارا گيا ہے اس پر ایمان لاۓ ہیں اور اس لۓ بھی کہ تم میں اکثر لوگ فاسق ہیں ۔

کہہ دیجۓ کہ کیا میں تمہیں بتاؤں ؟ کہ اللہ تعالی کے نزدیک اس سے بھی زيادہ برا اجر پانے والے کون ہیں ؟ وہ ہیں جس اللہ تعالی نے لعنت کی اور اس پر وہ غصہ ہوا اوران میں کچھ کوبندر اورکچھ کوخنزیر بنا دیا ، اورجنہوں نے طاغوت کی پرستش کی ، یہی وہ لوگ ہیں جو بدترین درجے والے ہیں اوریہی سیدھے راہ سے زیادہ بھٹکنے والے ہیں } المائدۃ ( 59 – 60 ) ۔

انہوں نے اللہ تعالی کےحرام کردہ کاموں کا ارتکاب کیا تو اللہ تعالی نے اس کی سزامیں انہیں مسخ کردیا ، اورپھریہ سزا صرف بنی اسرائیل کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہیں بتایا ہے کہ اس وقت تک قیامت قائم ہی نہیں ہوگي جب تک کہ اس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی مسخ نہ ہوجاۓ ، اور جولوگ تقدیر کی تکذیب اورشراب نوشی کرتےاورگانے سنتے ہیں ان کے بارہ اسی کی وعید آئ ہے اللہ تعالی ہمیں اس سے محفوظ رکھے آمین یا رب العالمین ۔

عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( قیامت سے قبل مسخ اورزمین میں دھنسنا پتھروں کی بارش ہوگی ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 4059 ) اور صحیح ابن ماجہ ( 3280 ) ۔

خسف زمین شق ہواور اس میں کوئ شخص یا گھر یا کوئ شہر دھنس جاۓ تواسے خسف کہا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے قارون اوراس کے گھرکو زمین میں دھنسادیا تھا ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

تو ہم اسے اوراس کے گھرکو زمین میں دھنسا دیا القصص ( 81 ) ۔

اورقذف پتھروں سے مارنے کوکہتے ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالی نے قوم لوط کے ساتھ کیا ، اللہ تعالی نے اس کے بارہ میں فرمایا :

اور ہم نے ان پر کنکروالے پتھر برساۓ الحجر( 74 ) ۔

امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتےہوۓ سنا :

( اس امت میں اہل قدر ( یعنی تقدیر کی تکذیب کرنے والوں میں ) زمین میں دھنسا یا پھر مسخ شکلوں کا بگڑنا ہوگا ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2152 ) صحیح ترمذی ( 1748 ) ۔

اورامام ترمذي نےہی عمران بن حصین رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اس امت میں زمین میں دھنسنااورشکلوں کا بگڑنا ( مسخ ) اورپتھروں کی بارش ہوگی ، تومسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ کب ہوگا ؟

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ناچنے والیاں اورموسیقی کا ظہوراور شراب نوشی ہونے لگے گی ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2212 ) صحیح ترمذی حدیث نمبر ( 1801 ) ۔

اس حدیث میں لفظ القینات کا معنی مغنیات یعنی گانے والی کنجریاں ہیں ۔

تویہ احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ اس امت میں بھی کچھ معصیت اورگناہوں کی سزا مسخ یعنی شکلوں کا بگاڑ ہوگا ، تومسلمان کواللہ تعالی کے حرام کردہ کاموں کے ارتکاب سے پرہیزکرنا اوربچنا چاہیے ، اس شخص کے لیے تو ہلاکت ہی ہلاکت ہے جو اللہ تعالی کے غضب اورانتقام کو دعوت دیتا ہے ، اللہ تعالی ہم سب کو اپنی سزا کے اسباب سے بچا کررکھے آمین یارب العالمین ۔

اور اس وقت موجود بندراور خنزیر یہ ان میں سے نہیں جو کہ پہلی امتوں میں سے مسخ کيۓ گۓ تھے اس لیے کہ اللہ تعالی جسے مسخ کردے اس کی نسل ہی نہیں چلاتا ، بلکہ وہ اسے مسخ کرنے کے بعد بلاک کردیتا ہے اور اس کی آگے نسل نہیں بناتا ۔

امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح میں عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ بندر اور خنزیر وہی انہیں میں سے ہیں جنہیں مسخ کیا گيا تھا ؟

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( بلاشبہ اللہ عزوجل مسخ کیۓ گۓ کی نسل نہیں بناتا اور نہ ہی اس کی کوئ‏ اولاد ہوتی ہے ، اوربلاشبہ بندراور خنزیرتو پہلے ہی موجود تھے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2663 ) ۔ عقب کا معنی اولاد ہے

امام نووی رحمہ اللہ تعالی شرح مسلم میں کہتے ہیں کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :

( اوربلاشبہ بندراور خنزیرتو پہلے ہی موجود تھے )

یعنی بنی اسرائیل کے مسخ ہونے سے قبل ہی بندر اور خنزیر موجود تھے ، تویہ اس پردلالت کرتی ہے کہ یہ مسخ سے نہیں ہیں ۔ ا ھـ

اوراللہ تعالی ہی زيادہ علم رکھتا ہے اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ عیہ وسلم پررحمتیں نازل فرماۓ آمین یارب العالمین ۔

واللہ تعالی اعلم  .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد