منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

كيا خوبصورتى اور زيبائش كے ليے مچھلياں ركھنا حرام ہيں

14422

تاریخ اشاعت : 07-03-2009

مشاہدات : 6959

سوال

كيا خوبصورتى اور زيبائش كے ليے مچھلياں ركھنا حرام ہيں؟
اسى طرح ميں نے سنا ہے كہ كتے كى پيدائش اس جگہ كى گندگى سے ہوئى جہاں آدم عليہ السلام سے شيطان نے جھگڑا كيا تھا، كيا يہ بات صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شرعى احكام ميں بعض جانوروں كو ركھنے اور ان كى پرورش كرنے كى نہى آئى ہے، مثلا ( كتا اور خنزير ) كيونكہ اسے ركھنے ميں كئى قسم كے نقصانات ہيں، جن ميں سے ہو سكتا ہے بعض كا ہميں علم ہو اور كچھ ہمارے علم ميں نہ آئيں.

ليكن جن جانوروں كو ركھنا شريعت نے منع نہيں كيا تو انہيں ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، سنت نبويہ سے ثابت ہوتا ہے كہ كچھ صحابہ كرام نے زيبائش اور ركھوالى، اور مباح قسم كے كھيل اور دل بہلانے كے ليے مباح جانور ركھے ہوئے تھے.

جيسا كہ انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ان كے چھوٹى بھائى كے پاس ايك چڑيا تھى جس سے وہ كھيلا كرتا تھا، اس كى يہ چڑيا مر گئى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے غمگين ديكھا، تو اس كا دل بہلانے لگے جو اس چھوٹے سے پرندہ كو ركھنے كى رضامندى تھى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:

" اے ابو عمير نغير نے كيا كيا !! "

اور ايك حديث ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ايك عورت بلى كى وجہ سے آگ ميں داخل ہو گئى، اس نے اسے باندھ ديا اور كھانے كو كچھ نہ ديا، اور نہ ہى اسے چھوڑا كہ وہ زمين كے كيڑے وغيرہ كھا لے"

تو اس حديث سے يہ سمجھ آتى ہے كہ اگر اس عورت نے اس بلى كو كھانے كے ليے كچھ ديا ہوتا تو وہ اس وعيد سے نجات پا جاتى.

اور كہا جاتا ہے كہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى كنيت بھى اسى ليے پڑى كہ وہ اپنے ساتھ بلى ركھا كرتے تھے.

لھذا مباح اور جائز حيوانوں كى ضروريات پورى اور ان كى ديكھ بھال كرتے ہوئے پال كر ركھنا جائز اور مباح امور ميں سے ہے، بلكہ ہو سكتا ہے اجرو ثواب ميں بھى شامل ہو.

جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہر جاندار اور ذى روح ميں اجر وثواب ہے"

ليكن جب اس كا خيال نہ ركھا جائے اور اس كى ديكھ بھال نہ ہو تو يہ گناہ اور معصيت كے باب ميں داخل ہو گا، اور يہ آگ كى وعيد ميں شامل ہوتا ہے، جيسا كہ اس حديث ميں ذكر كيا گيا ہے جس ميں عورت نے بلى كى ديكھ بھال نہ كى اوراس كا خيال نہ ركھا تو وہ مر گئى.

يہاں ہم سوال كرنے والے بھائى اور قارى كو يہ تنبيہ كرتے ہيں كہ مشرقى اور مغربى تنظيموں سے قبل ہى اسلام نے عورت اور جانوروں اور ملازمين اور مالكوں وغيرہ كے سارے حقوق كا خيال ركھنے كا اعلان كيا ہے، بلكہ اس سے بھى بڑھ كر مخلوق پر اللہ تعالى كے حقوق اور اللہ تعالى پر مخلوق كے كيا حقوق ہيں اسے بھى بيان كيا ہے.

يہاں يہ بھى تنبيہ كريں گے كہ حيوان اور جانوروں سے زيادہ انسان و بشر كے حقوق كا خيال ركھنا زيادہ اولى اور افضل ہے، اور اس ميں اجروثواب بھى زيادہ ہے.

فرمان نبوي صلى اللہ عليہ وسلم ہے:

" آگ سے بچ جاؤ اگرچہ آدھى كھجور خرچ كر كے ہى"

اور ايك حديث ميں فرمان نبوى ہے:

" ميں اور يتيم كى كفالت كرنے والا شخص جنت ميں اس طرح ہيں"

اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى انگشت شہادت اور اس كے ساتھ والى انگلى كے ساتھ اشارہ كيا.

اس كے علاوہ بھى كئى ايك احاديث ہيں جن ميں حقوق بيان كيے گئے ہيں.

تو اس بنا پر آپ كے ليے خوبصورتى والى مچھلياں جن كا ذكر آپ نے سوال ميں كيا ہے ركھنى جائز ہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ ان كى ديكھ بھال كرنا ہو گى، اور انہيں ہلاك كرنے والے اسباب سے بچنا ہو گا. واللہ اعلم

اور رہا مسئلہ كتے كى خلقت اور پيدائش كا تو اللہ تعالى نے كتے كو بھى اسى طرح پيدا كيا ہے جس طرح باقى جانور اور حيوانات پيدا كيے ہيں، اور بغير كسى دليل كے كتے كى خلقت اور پيدائش ميں كسى خصوصى اور معين مادہ كا دعوى كرنا جائز نہيں.

فرمان بارى تعالى ہے:

اور ہم نے جو جانا ہے اسى كى گواہى ديتے ہيں.

اور رہا ابليس لعين تو اللہ تعالى نے اسے آدم عليہ السلام كو سجدہ كرنے كا حكم ديا تو اس نے تكبر كرتے ہوئے سجدہ كرنے سے انكار كر ديا، پھر اس نے آدم عليہ السلام كو گمراہ كيا اور انہيں اس درخت كا پھل كھانے كا كہا جس سےاللہ تعالى نے منع كيا تھا؛ اور وہاں كوئى گندگى تھى ہى نہيں، واللہ اعلم.

اور جس جھگڑے كا آپ نے ذكر كيا ہے اسے كے متعلق ہم كچھ نہيں جانتے.

اور قرآنى راہنمائى تو يہ ہے كہ مسلمان شخص اپنے دين اور دنيا ميں جس چيز كا محتاج اور ضرورت مند ہے قرآن مجيد اسے ذكر كرتا ہے، ليكن جس چيز كى اسے ضرورت اور حاجت ہى نہيں قرآن مجيد اس سے اعراض كرتے ہوئے مسلمانوں كو يہ تعليم ديتا ہے كہ وہ نفع مند علم ميں مشغول رہيں، اور اس كے علاوہ جوكچھ ہے اس سے اعراض برتيں.

اس كى مثال جس سے اس بات كى وضاحت ہوتے وہ يہ كہ جب قرآن مجيد نے اصحاب كہف كے كتے كا ذكر كيا تو كتے كے رنگ، اور نوح عليہ السلام كى كشتى كے ذكر ميں ان كى كشتى كس لكڑى كى بنائى گئى تھى، سے اعراض ہے، قرآن مجيد نے اسے بيان نہيں كيا، كيونكہ اس كے بيان كرنے ميں كوئى فائدہ نہيں.

اور نہ ہى اسے جاننے سے كسى قسم كا نافع علم، اور اعتقاد نافع مرتب ہوتا ہے، ہو سكتا ہے كتے كى خلقت كے مادے والى بات بھى اسى قبيل سے ہو.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد