جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

دوران سفر مدینہ میں اپنے گھر آیا اور رمضان میں دن کے وقت بغیر انزال کے جماع کیا

سوال

سوال: میں چھٹیوں کے دوران عمرہ کیلئے مکہ گیا، پھر مدینہ منورہ بھی آیا، اور رمضان میں دن کے وقت اپنی بیوی سے بغیر انزال کے جماع کر بیٹھا ، تو کیا مجھ پر کچھ لازم ہوگا؟ میرے علم کے مطابق مجھ پر ترتیب کے ساتھ غلام آزاد کرنا ہوگا، جس کی میں طاقت نہیں رکھتا، کیونکہ میرے پاس مطلوبہ رقم نہیں ہے، اسکے بعد دو ماہ کے مسلسل روزے بھی نہیں رکھ سکتا کیونکہ مجھے ملازمت میں کافی دوڑ دھوپ کرنی پڑتی ہے، اور ساتھ میں گرمی کی شدت کی وجہ سے روزہ رکھنا میرے لئے مشکل ہوگا، تو کیا میں ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا دوں؟ اور کیا میری بیوی کے راضی ہونے کی وجہ سے اس پر بھی یہی لازم ہوگا؟
ذہن نشین رہے کہ مدینہ منورہ میں بھی میر اایک گھر ہے، جبکہ میں ریاض شہر کا رہائشی ہوں، اور چھٹیوں میں یہاں آتا ہوں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

جو شخص رمضان میں دن کے وقت جماع کرے تو اس پر کفارہ مغلظہ عائد ہوتا ہے، جس میں ایک غلام آزاد کیا جائے گا ، اگر میسر نہ ہوتو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے پڑیں گے، اور گر اسکی بھی سکت نہ ہوتو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلایا جائے گا، کفارے کے ساتھ توبہ اور اس دن کی قضا بھی لازم ہوگی۔

عورت کی رضا مندی کی صورت میں اس پر بھی یہ ہی کچھ لازم ہوگا، چنانچہ جماع یعنی مردانہ عضو ،نسوانی نازک عضو میں داخل ہونے سے کفارہ عائد ہو جائے گا، چاہے انزال ہو یا نا ہو۔

اور اگر میاں بیوی سفر کی حالت میں تھے تو ایسی صورت میں گناہ ، کفارہ، اور نہ ہی بقیہ دن میں روزہ مکمل کرنا ضروری ہے، صرف ان دونوں کو اس دن کی قضا دینا ہوگی، کیونکہ ان پر روزہ لازم ہی نہیں تھا۔

اگر آپ ریاض کے رہائشی ہیں، اور آپکا ایک گھر مدینہ منورہ میں ہے، جہاں آپ چھٹیوں میں آتے ہیں، تو اس صورت میں آپ مدینہ جا کر مقیم کے حکم میں ہونگے، چنانچہ آپ پر روزہ رکھنا، اور مکمل نماز ادا کرنا ضروری ہوگا، اس لئے جماع کے ساتھ روزہ توڑنا بھی حرام ہوگا، اور جماع کرنے کی صورت میں کفارہ ادا کرنا ہوگا۔

لہذا اگر آپ –مثال کے طور پر- مکہ جاتے ہیں تو آپ کا وہاں پر حکم مقیم والا اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک آپ وہاں پر چار دن سے زیادہ رہنے کی نیت نہیں کرلیتے، چنانچہ اگر آپ تین دن سے زیادہ رہنے کی نیت کرتے ہیں تو آپ مسافر کے حکم میں ہونگے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

"ایک شخص بیرون ملک سفر کرکے جاتا ہے وہاں بھی اسکا ملکیتی گھر ہے، تو کیا وہاں پر نماز پوری پڑھے گا یا قصر کریگا؟

شیخ: کیا وہ اِس گھر میں دو تین ماہ رہتا ہے، اور دو تین ماہ دوسرے گھر میں؟ یا کوئی اور معاملہ ہے؟

سائل: گرمیوں کی چھٹیوں میں وہاں جاتا ہے۔

شیخ : گرمیوں میں وہاں جاتا ہے؟

سائل: جی ہاں!

شیخ: تو پھر وہ شخص قصر نہیں کریگا؛ کیونکہ اس کے اصل میں دو گھر ہیں"انتہی

"لقاء الباب المفتوح" (162/ 25)

مذکورہ بالا بیان کے مطابق، اگر آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے روزہ توڑا تو آپ پر کوئی حرج نہیں ہے، اور آپ پر صرف اس دن کی قضا دینا لازم ہوگا، کیونکہ آپ نے دوران سفر روزہ کھولا ہے۔

اور اگر آپ نے مدینہ داخل ہونے کے بعد روزہ توڑا ہے تو پھر آپ پر کفارہ لازم ہوگا۔

تو آپکے لئے نصیحت ہے کہ آپ سردیوں کے دنوں میں یا معتدل موسم میں مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنے کی کوشش کریں، کیونکہ ان ایام میں دن چھوٹے ہونے کی وجہ سے کم مشقت اٹھانی پڑے گی، یا پھر ڈیوٹی سے ملنے والی سالانہ چھٹیوں وغیرہ میں روزے رکھو، اور ایسے مواقع کو اپنے واجبات ادا کرنے کیلئے غنیمت جانو۔

پھر بھی اگر واقعی آپ روزے رکھنے سے قاصر ہیں تو ایسی صورت میں آپ ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائیں، یہ کھانا یکبار بھی کھلا سکتے ہیں، اور تعداد مکمل ہونے تک قسط وار بھی کھلا سکتے ہیں۔

اور آپکی بیوی پر بھی روزے لازمی ہیں، اگر وہ روزوں کی طاقت نہ رکھے تو پھر ساٹھ مساکین کو کھانا کھلادے۔ مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر: (106532) بھی ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب