منگل 14 شوال 1445 - 23 اپریل 2024
اردو

اللہ تعالی کےا سما و صفات سے متعلق مفید قواعد، اور کیا "الناسخ" اللہ تعالی کا نام ہے؟

سوال

فرمانِ باری تعالی ہے: ما ننسخ من آية أو ننسها نأت بخير منها أو مثلها ألم تعلم أن الله على كل شيء قدير   کیا اس آیت کی روشنی میں ہم اللہ تعالی کا اسم "الناسخ" کشید کر سکتے ہیں؟ اور کیا نسخ کرنا اللہ تعالی کی صفات میں شامل ہے؟ کیونکہ اللہ تعالی نے اس کام کو اپنی طرف منسوب بھی کیا ہے؟ اور کیا اگر کوئی آیت منسوخ ہو تو ہم کہیں گے کہ: اللہ کا کلام منسوخ ہو گیا ہے؟ کیا یہ بات کرنا جائز ہے؟ اور کیا اللہ تعالی اپنے کلام میں سے جو چاہے منسوخ فرما دیتا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

قرآن و سنت کی نصوص میں نسخ شریعت الٰہیہ سے ثابت ہے، اور اجمالی طور پر تمام اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے۔

اور یہ بات کہنا بھی ٹھیک ہے کہ کلام الہی میں ناسخ بھی ہے اور منسوخ بھی ۔

اسی طرح یہ بھی کہنا درست ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث میں بھی ناسخ اور منسوخ ہیں، اس حوالے سے مکمل تفصیلات مع دلائل آپ کو سوال نمبر: (105746) کے جواب میں ملیں گی۔

دوم:

اہل سنت و الجماعت کا اسمائے حسنی سے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی کے اسمائے حسنی توقیفی ہیں، اس لیے کسی کو بھی اللہ تعالی کا کوئی ایسا نام رکھنے کی اجازت نہیں ہے جو اللہ تعالی نے خود اپنے لیے نہیں رکھا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالی کا وہ نام نہیں بتلایا، اسمائے حسنی کی تعیین کے حوالے سے عقل ، ذوق ، رائے، اور اجتہاد میں سے کسی کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے، اس لیے اللہ تعالی کے اسمائے حسنی صرف قرآن کریم اور صحیح احادیث سے ثابت ہوں گے۔

جیسے کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لہذا اسمائے حسنی سے متعلق جو کچھ کتاب و سنت میں منقول ہے اس پر توقف کرنا واجب ہے، ان میں کمی اور بیشی کرنا جائز نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کی تعیین عقل کی سطح سے بالا تر عمل ہے، اس لیے اسمائے حسنی سے متعلق نصوص پر توقف کرنا لازم ہو گا؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا
 ترجمہ: ایسی بات کے پیچھے مت لگ جس کے متعلق تجھے علم نہیں ہے؛ یقیناً سماعت، بصارت، اور دل ان تمام چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔[الإسراء:36]

اسی طرح فرمایا:
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالأِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَاناً وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لا تَعْلَمُونَ 
 ترجمہ: کہہ دیں: یقیناً میرے پروردگار نے ظاہری اور باطنی تمام بے حیائیوں، گناہ، حق کے بغیر بغاوت کو حرام قرار دیا ہے، اور اس بات کو بھی کہ تم اللہ تعالی کے ساتھ اسے شریک بناؤ جس کی اللہ تعالی نے کوئی دلیل نازل نہیں کی، اور یہ کہ تم اللہ تعالی کے بارے میں ایسی بات کرو جس کا تمہیں علم نہیں ہے۔[الأعراف:33]

اور ویسے بھی اللہ تعالی کا وہ نام لینا جو اللہ تعالی نے خود اپنا نہیں رکھا، یا اللہ تعالی کے ایسے نام کا انکار کرنا جو اللہ تعالی نے اپنا رکھا ہے یہ اللہ تعالی کی حق تلفی ہے، چنانچہ دائرہ ادب میں رہتے ہوئے صرف نصوص میں موجود ناموں پر اکتفا کرنا لازم ہے۔" ختم شد
"القواعد المثلى في صفات الله وأسمائه الحسنى " ( ص 13 )

سوم:

اسما و صفات کے مسئلے میں اہل سنت وا لجماعت کا یہ بھی اصول ہے کہ: اللہ تعالی کے اسمائے حسنی ، اللہ تعالی کی صفات کی بہ نسبت خاص ہیں، اور صفات افعال کی بہ نسبت خاص ہیں، چنانچہ اللہ تعالی کے افعال میں سب سے زیادہ وسعت ہے، جبکہ اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کا معاملہ سب سے محدود ہے، چنانچہ اللہ تعالی کے لیے کسی ثابت شدہ صفت سے اللہ تعالی کا نام کشید کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح اللہ تعالی کے افعال میں سے کسی فعل سے نام کشید کرنا جائز ہے، البتہ اللہ تعالی کے نام سے اللہ تعالی کی صفت ثابت مانی جائے گی، اور اللہ تعالی کے فعل سے اللہ تعالی کی بہت سی صفات کشید کی جاتی ہیں۔

اللہ تعالی کے اسمائے حسنی اللہ تعالی کی ذات ، صفات اور افعال پر دلالت کرتے ہیں، بسا اوقات ایک اسم سے کئی افعال پر دلالت ملتی ہے، ان افعال کی تعداد کا تعلق اسم مبارک سے ہے کہ وہ اسم متعدی ہے یا لازم ہے۔ جبکہ اللہ تعالی کی صفات ؛ معنی اور صفت کے مطابق فعل پر دلالت کرتی ہیں، چنانچہ اللہ تعالی کا اسم مبارک "الرحمن" اللہ تعالی کی ذات پر بھی دلالت کرتا ہے، اور اللہ تعالی کی صفت رحمت پر بھی، اور اسی طرح فعلِ رحمت پر بھی۔ لہذا کہا جائے گا کہ: اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے رحم فرماتا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کے تمام کے تمام نام اللہ تعالی کی ذات مقدس پر یکساں دلالت کرتے ہیں، پھر ہر نام اللہ تعالی کی جس صفت کو بیان کرتا ہے وہ کسی دوسرے نام سے معلوم ہونے والی صفت سے ہٹ کر اور صفت ہوتی ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا اسم مبارک "العزیز" اللہ تعالی کی ذات اور غلبے کی صفت پر دلالت کرتا ہے، اسی طرح اللہ تعالی کا اسم مبارک "الخالق" اللہ تعالی کی ذات اور صفت تخلیق پر دلالت کرتا ہے، ایسے ہی اسم مبارک "الرحیم" اللہ تعالی کی ذات اور صفت رحمت پر دلالت کرتا ہے، اللہ تعالی کی ذات لازمی طور پر تمام صفات سے متصف ہے؛ تو اس طرح اللہ تعالی کا ہر نام اللہ تعالی کی ذات اور صفت پر دلالت مطابقت کے اعتبار سے دلالت کرتا ہے، جبکہ ذات اور صفت دونوں میں سے کسی ایک پر دلالت تضمن کے اعتبار سے دلالت کرتا ہے جبکہ کسی اور صفت پر دلالت لزوم کے اعتبار سے دلالت کرتا ہے۔" ختم شد
 مجموع الفتاوى: ( 7 / 185 )

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب اللہ تعالی کا اسم گرامی بولا جائے اور وہ اسم متعدی ہو تو اس اسم مبارک سے مصدر اور فعل کشید کرنا جائز ہے، چنانچہ اللہ تعالی کے اس اسم میں موجود صفت کو بیان کرنے کے لیے فعل اور مصدر دونوں استعمال کیے جا سکتے ہیں لہذا اللہ تعالی کے نام " السميع" ، " البصير" اور " القدير" سے اللہ تعالی کی صفت سماعت، بصارت اور قدرت بیان کیے جا سکتے ہیں، اسی طرح افعال کے ذریعے بھی اللہ تعالی کی اس صفت کو بیان کیا جا سکتا ہے، جیسے کہ قوت سماعت کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے: قَدْ سَمِعَ اللهُ ترجمہ: یقیناً اللہ نے سن لیا۔ [المجادلة:1] اسی طرح صفت قدرت کے بارے میں فرمایا:  وَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقَادِرُوْنَ ترجمہ: اور ہم نے قدرت رکھی پس ہم بہترین قدرت رکھنے والے ہیں۔[المرسلات:23] ۔ لیکن اگر فعل لازم ہو تو پھر فعل کے ذریعے اللہ تعالی کی اس صفت کو بیان نہیں کیا جا سکتا، جیسے کہ صفت " الحي " کے بارے میں فعل استعمال نہیں کیا جائے گا کہ "وہ زندہ ہوا"! "ختم شد
"بدائع الفوائد " ( 1 / 170 )

چہارم:

کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ تعالی کی کسی صفت یا فعل سے اللہ تعالی کا نام کشید کرے، چنانچہ اللہ تعالی کے فعل " يَبْسُطُ " یا صفت " اَلْبَسْطُ" سے اسم "الباسط" [ہاتھ پھیلانے والا کے معنی میں۔ مترجم] کشید کرنا جائز نہیں [اگرچہ یہ نام وسعت دینے کے معنی میں حدیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ مترجم] ، اسی طرح فرمانِ باری تعالی :
 تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ
ترجمہ: تو جسے چاہے بادشاہت دیتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے بادشاہت چھین لیتا ہے۔ [آل عمران:26] سے اللہ تعالی کا نام "المؤتی" یا "النازع" کشید کرنا جائز نہیں ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کی صفات کا باب اسمائے حسنی کے باب سے وسیع ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ: اللہ تعالی کے ہر اسم مبارک میں صفت بھی شامل ہوتی ہے جیسے کہ اسمائے حسنی سے متعلقہ قواعد میں سے تیسرے قاعدے میں یہ گزر چکا ہے، نیز صفت کا تعلق کبھی اللہ تعالی کے افعال سے ہوتا ہے اور اللہ تعالی کے افعال لا متناہی ہیں، جیسے کہ اس کے اقوال بھی لا متناہی ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 وَلَوْ أَنَّمَا فِي الأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ 
 ترجمہ: اور اگر زمین میں موجود تمام درخت قلم بن جائیں اور ساتوں سمندروں کے بعد سات مزید سمندر روشنائی بن جائیں تو بھی کلام الہی ختم نہ ہو، بیشک اللہ تعالی غالب اور حکمت والا ہے۔ [لقمان:27]
اس قاعدے کی مزید مثالیں یہ بھی ہیں: اللہ تعالی کی صفات میں درج ذیل چیزیں بھی شامل ہیں: المجيء ، اور الإتيان یعنی آنا۔ اسی طرح الأخذ اور الإمساك یعنی پکڑنا۔ اسی طرح البطش یعنی سختی سے پکڑنا وغیرہ بے شمار اور لا تعداد صفات الٰہیہ ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر نصوص میں ہے جیسے کہ
صفت مجیء کے متعلق :  وَجَاءَ رَبُّكَ  ترجمہ: اور تیرا رب آئے گا۔ [الفجر:22]
صفت اتیان کے متعلق:  هَلْ يَنْظُرُونَ إِلاّ أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ  ترجمہ: کیا وہ انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ ان کے پاس خود بادلوں کے سائبانوں میں آئے؟[البقرة:210]
صفت اخذ کے متعلق:  فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ  ترجمہ: تو انہیں اللہ تعالی نے ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑ لے۔[آل عمران:11]، [ الأنفال:52] اور [غافر:21]

صفت امساک کے متعلق:  وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الأَرْضِ إِلاّ بِإِذْنِهِ  اور وہ اسمان کو یوں تھامے ہوئے ہے کہ وہ اس کے اذن کے بغیر زمین پر گر نہیں سکتا ۔[الحج:65]

صفت بطش کے متعلق:  إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ  یقیناً تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔[البروج:12]

صفت ارادہ کے متعلق:  يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ   اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے، وہ تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔[البقرة:185]

ایسے صفت نزول کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:  ينزل ربنا إلى السماء الدنيا  یعنی ہمارا رب آسمان دنیا تک نزول فرماتا ہے۔ متفق علیہ

تو ہم ان تمام نصوص کی وجہ سے اللہ تعالی کی اس صفت کو اسی طرح تسلیم کریں گے جیسے نصوص میں آئیں ہیں، لیکن ان نصوص سے اللہ تعالی کا کوئی نام کشید نہیں کریں گے، اس لیے ہم یہ نہیں کہیں گے کہ: اللہ تعالی کا نام "الجائی" ہے، یا "الآخذ" ہے یا "الممسک" ہے یا "الباطش" ہے یا "المرید" ہے یا "النازل" ہے یا اسی طرح کا کوئی نام ان صفات سے ہم کشید نہیں کریں گے۔ البتہ اس صفت سے متصف مانیں گے، اور اللہ تعالی کی اس صفت کو بیان بھی کریں گے۔" ختم شد

" القواعد المثلى في صفات الله وأسمائه الحسنى " ( ص 21 )

مذکورہ بالا تفصیلات کی بنا پر:
فرمانِ باری تعالی میں مذکور فعل: "نَنْسَخْ"اللہ تعالی کا فعل ہے، اور اس فعل سے نام کشید کرتے ہوئے اللہ تعالی کا نام "الناسخ" بنانا جائز نہیں ہے؛ ویسے بھی اللہ تعالی کے اسمائے حسنی توقیفی ہیں اور اللہ تعالی کا یہ نام کتب و سنت میں نہیں آیا، مزید یہ بھی کہ اللہ تعالی کا نام صفت سے کشید کرنا جائز نہیں ہے تو فعل سے کشید کرنا کیسے جائز ہو گا!

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب