جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

کیا وہ اپنی ماں کو اپنی زکاۃ سے حج کروا سکتا ہے؟

157317

تاریخ اشاعت : 13-09-2015

مشاہدات : 2580

سوال

سوال: میں مالی طور پر مستحکم ہوں، اور میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنی والدہ کو حج کروا دوں، تو کیا حج کے اخراجات کیلئے ارسال کردہ رقوم کو اپنے مال کی زکاۃ میں سے شمار کر سکتا ہوں؟ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ: کیا زکاۃ کے مصارف میں یہ چیز شامل ہے کہ میں اپنی والدہ کو فرض حج کروا دوں؟ جلدی جواب سے نوازیں، جزاکم اللہ خیرا

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر والدہ کے پاس اتنی رقم نہیں ہے  جس سے حج ممکن ہو تو اس پر حج واجب ہی نہیں ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً )
ترجمہ: اللہ تعالی کیلئے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے جو اس کی طرف جانے کی استطاعت رکھتے ہیں۔[آل عمران:97]

اور اگر بیٹا اپنی والدہ کو حج کروانا چاہے تو علمائے کرام نے  حج کے اخراجات کو زکاۃ میں شمار کرنے سے متعلق مختلف آراء دی ہیں،  اختلاف کا سبب یہ ہے کہ:  اللہ تعالی نے زکاۃ کے مصارف ذکر کرتے ہوئے "وفی سبیل اللہ" کا ذکر فرمایا ہے، تو کیا اس میں حج بھی شامل ہوتا ہے یا نہیں، یا یہ "جہاد فی سبیل اللہ" کیساتھ مختص ہے؟

تو متعدد علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ حج زکاۃ کے مصارف میں شامل نہیں ہوتا۔

چنانچہ ابن مفلح حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"المغنی میں جس روایت کو اختیار کیا گیا ہے اور "الشرح" میں اسے صحیح بھی کہا ہے وہ یہ ہے کہ زکاۃ کا مال حج کیلئے نہیں دیا جا سکتا، اکثر علمائے کرام کا بھی یہی موقف ہے؛ کیونکہ "سبیل اللہ" کا لفظ جب مطلق ہو تو عام طور پر اس سے مراد جہاد ہی ہوتا ہے،  نیز چونکہ زکاۃ صرف فقراء کو دی جاتی ہے یا ایسے لوگوں کو دی جاتی ہے جن کی مسلمانوں کو ضرورت ہو جیسے کہ زکاۃ جمع کرنے والے کارندے وغیرہ، [یعنی ہر دو صورت میں مسلمانوں کا اس سے اجتماعی فائدہ ہوتا ہے] لیکن حج کرنے سے مسلمانوں کا نہ تو کوئی فائدہ ہوگا، اور نہ انہیں اس کی ضرورت ہے، کیونکہ غریب آدمی پر حج ویسے ہی فرض نہیں ہے، لہذا حج غریب لوگوں سے ساقط ہو جاتا ہے، اور اگر نفل حج کرنا ہو تو حج پر آنے والے اخراجات کو محتاج اور مسلمانوں کے مفاد عامہ کیلئے خرچ کرنا  زیادہ بہتر ہے"
" المبدع شرح المقنع " ( 2 / 387 )

تاہم امام احمد نے حج کرنے کیلئے زکاۃ دینے کو جائز قرار دیا ہے، اور اسی موقف کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے، اور دائمی فتوی کمیٹی کا بھی یہی فتوی ہے۔

اس مسئلہ کے بارے میں تفصیلی گفتگو پہلے سوال نمبر: (40023) میں گزر چکی ہے۔

لہذا دوسرے قول کے مطابق آپ اپنی زکاۃ میں سے اپنی والدہ کو حج کروا سکتے ہیں، اور اگر آپ احتیاط برتتے ہوئے اسے زکاۃ میں شمار نہ کریں تو یہ زیادہ بہتر ہے، اللہ تعالی سے امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کی کوشش اور آپکی والدہ کے حج کو قبول فرمائے۔ آمین

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب