منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

خاوند اور بيوى مرتد ہوگئے اور شادى كرلى پھر خاوند مسلمان ہو گيا تو كيا تجديد نكاح كرنا ہو گا ؟

سوال

جب ميں شادى سے قبل اپنے خاوند سے ملى تو ہم دونوں مسلمان تھے، ليكن ( استغفر اللہ ) آپس ميں ملنے كے كچھ عرصہ بعد ہى ہم دونوں مرتد ہوگئے اور پھر ہم نے برطانوى قانون كے مطابق شادى كر لى اور غير مسلم ہونے كى بنا پر غير اسلامى شادى كى تقريب بھى منائى.
پھر شادى كے دو برس بعد ميرے خاوند نے دوبارہ اسلام قبول كر ليا اور ميں كئى ماہ تك كافر ہى رہى، ليكن الحمد للہ ميں نے بھى بالآخر اسلام قبول كر ليا ہم اب اچھى حالت ميں ہيں، اب سوال يہ ہے كہ:
كيا ہمارى شادى صحيح ہے؟ اور اگر صحيح نہيں تو پھر ہم پر كيا واجب ہوتا ہے ؟
يہ علم ميں رہے كہ ہمارے ارد گرد والےسب جانتے ہيں كہ ہمارى شادى ہوئى اور شادى كى تقريب ميں جج اور پادرى شامل تھا، ليكن مشكل يہ ہے كہ جيسا كہ ميں پہلے بيان كر چكى ہوں كہ ہم غير مسلم تھے اور ہمارى شادى برطانوى قانون كے مطابق تھى نہ كہ شريعت اسلاميہ كے مطابق ہميں اب كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب مرتد خاوند اور بيوى مسلمان ہو جائيں تو وہ اسى طرح اپنے نكاح پر باقى ركھے جائيں گے جيسے اصلى كافر اپنے نكاح پر باقى ركھے جاتے ہيں، اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 118752 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

اور اگر دونوں ميں سے كوئى ايك مسلمان ہو جائے اور دوسرا عورت كى عدت گزرنے كے بعد مسلمان ہو تو پھر اكثر علماء كرام كے ہاں نكاح كى تجديد كى جائيگى.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب خاوند اور بيوى ميں سے كوئى ايك شخص مسلمان ہو جائے اور دوسرا عورت كى عدت گزرنے كے عرصہ تك مسلمان نہ ہو تو عام علماء كرام كے قول كے مطابق نكاح فسخ ہو جائيگا.

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اس ميں علماء كرام كا كوئى اختلاف نہيں، الا يہ كہ امام نخعى رحمہ اللہ سے كچھ بيان كيا جاتا ہے جس ميں انہوں نے علماء كرام كى جماعت سے عليحدہ ہو كر شاذ كو اختياركيا ہے اور ان كى متابعت بھى كسى نے نہيں كى، ان كا خيال ہے كہ وہ اپنے خاوند كے نكاح ميں ہى واپس دى جائيگى چاہے مدت كتنى بھى زيادہ لمبى اور طويل ہو.

كيونكہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى بيٹى زينب رضى اللہ تعالى عنہا كو ان كے خاوند ابو العاص كے پہلے نكاح ميں ہى لوٹايا تھا "

اسے ابو داود نے روايت كيا ہے، اور امام احمد نے بھى اس سے دليل لى ہے.

امام احمد رحمہ اللہ سے كہا گيا: كيا يہ روايت نہيں كيا جاتا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں نئے نكاح ميں واپس كيا تھا ؟

تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمايا: اس كى كوئى اصل نہيں ہے.

كہا جاتا ہے كہ زينب رضى اللہ تعالى عنہا اور ابوالعاص رضى اللہ تعالى عنہ كے اسلام ميں آٹھ برس كى مدت كا عرصہ ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 7 / 188 ).

اور بعض علماء كرام نے يہ اختياركيا ہے كہ چاہے عورت كى عدت گزر جائے تو بھى نكاح فسخ نہيں ہوگا، اس ليے اگر خاوند اور بيوى عدت گزرنے كے بعد آپس ميں رجوع كرنے پر رضامند ہوں تو انہيں ملنے كا حق حاصل ہے، اور تجديد نكاح كى كوئى ضرورت نہيں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہ اللہ نے اسى قول كو اختيار كيا اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اسے ہى راجح قرار ديا ہے.

انہوں نے ابو العاص رضى اللہ تعالى عنہ كى مندرجہ بالا حديث سے استدلال كيا ہے، اور اس ليے بھى كہ سنت نبويہ ميں اس معاملہ كى تحديد عدت ختم ہونے سے ثابت نہيں ہے.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 245 - 248 ).

اس قول كى بنا پر آپ اپنے سابقہ نكاح پر ہى قائم ہيں اور تجديد نكاح كى كوئى ضرورت نہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كو ہر قسم كى خير و بھلائى كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب