جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

خاوند نے طلاق دى اور دوران عدت كسى اور سے شادى كر لى

171791

تاریخ اشاعت : 16-11-2014

مشاہدات : 4344

سوال

اللہ تعالى آپ كو ان دينى كوششوں پر جزائے خير عطا فرمائے، گزارش يہ ہے كہ ميں دين اسلام قبول كرنے كے بعد شادى كے ليے كسى دوسرے ملك كا سفر كيا اور شادى كر كے اپنے خاوند كے ساتھ وہيں رہنے لگى، ليكن ميرے خاندان نے پے در پے مشكلات ڈالنى شروع كر ديں، ميرى جانب سے دونوں فريقوں كو راضى كرنے كى كوشش ہوئى اور ميں اپنے ملك واپس آ گئى.
مجھے اس وقت ہى علم تھا كہ ميں دوبارہ اپنے خاوند كے پاس واپس نہيں آ سكوں گى، ليكن معاملات ميں بہترى كى اميد ركھتے ہوئے اسے پس پشت ڈال ديا.... ميں اپنے ملك ميں رہتے ہوئے مسلسل خاوند سے رابطہ ميں رہى اور واپس آنے كے وعدے كرتى رہى، ليكن طويل عرصہ تك وعدوں كے بعد خاوند كے صبر كا پيمانہ لبريز ہوا اور اس نے مجھے دو طلاقيں دے ديں، ميرى حالت اور خراب ہوگئى اور ميرے اخراجات برداشت كرنے والا كوئى نہ تھا خاص كر ہمارے ہاں تو عادت ہے كہ جب بچہ بالغ ہو جاتا ہے تو وہ اپنا خرچ خود برداشت كرتا ہے، اور ہر كوئى ملازمت و كام كرتا ہے.
ليكن ميرے خاوند نے مجھے ملازمت كرنے سے روك ديا اب ميرے سامنے يہى حل تھا كہ ميں كسى سے شادى كر لوں ميرا ايك شخص سے تعارف ہوا اور ميں نے اس سے شادى كر لى تا كہ وہ ميرے اخراجات برداشت كرے.. مجھے علم ہے كہ يہ فعل صحيح نہ تھا اور شريعت ميں جائز نہيں، اس ليے ميں نے كوشش كى كہ ازدواجى تعلقات قائم نہ ہوں، ليكن ميں ايسا بھى نہ كر سكى.. ميں اس فعل پر بہت نادم ہوں اور طلاق لے كر اسے صحيح كرنے كى كوشش كرونگى...
ليكن ميں نہيں جانتى كہ اس كے بعد كيا ہوگا..! اور ميرا انجام كيا ہوگا.. ! ميں تھك گئى ہوں اور سب كو راضى كرنے كى كوشش كرتى ہوں، ميرے ايمان كى حالت بھى پتلى ہو چكى ہے حتى كہ مجھے اپنے اسلام كا بھى خدشہ ہے....! ميں جانتى ہوں كہ پہلے خاوند سے طلاق مكمل ہونے سے قبل دوسرے شخص سے شادى كر كے بہت غلط كام كيا ہے اور اسلام ميں اس كى سزا بھى بہت بڑى ہے، ليكن پتہ نہيں ميرى جو حالت ہوئى ہے اس ميں يہ سزا لاگو ہوتى ہے يا نہيں ؟
ميں ابھى نئى نئى مسلمان ہوئى ہوں اور ابتدا ہونے كى بنا پر مجھے اس كام كے نتيجہ كا علم نہ تھا، برائے مہربانى مجھے بتائيں كہ آپ كى رائے كيا ہے آيا ميں اس كے متعلق كسى كو بتاؤں يا كہ پوشيدہ ہى رہنے دوں ؟
اس سلسلہ ميں ميرى راہنمائى فرمائيں ميں تو پاگل ہو رہى ہوں ..

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كى توبہ قبول فرمائے اور آپ كى اصلاح فرمائے، اور آپ كے دين كى حفاظت فرمائے.

آپ نے اپنے خاوند سے دور ہو كر غلطى كى اور اپنے آپ كو فتنے و خرابى اور فساد ميں ڈالا ہے، اور خاوند نے آپ كو اخراجات كى رقم ادا نہ كر كے ملازمت كرنے سے روك كر غلطى كا ارتكاب كيا ہے.

دوم:

اگر آپ كے خاوند نے آپ كو دو طلاقيں ديں اور پھر دوسرى شادى كرنے سے قبل آپ كى عدت ختم ہو چكى تھى تو آپ پر كوئى گناہ و حرج نہيں، اس صورت ميں آپ كى دوسرى شادى صحيح ہے.

حيض والى عورت كى عدت تين حيض ہيں، جب آپ كو خاوند نے طہر كى حالت ميں طلاق دى اور پھر آپ كو تين حيض آ گئے اور تيسرے حيض سے پاك ہو كر غسل كرنے سے آپ كى عدت ختم ہو جائيگى.

صغر سنى يا حيض سے نااميدى كى بنا پر جس عورت كو حيض نہيں آتا اس كى عدت تين ماہ ہے.

اور حاملہ عورت كى عدت وضع حمل ہوگى، جيسے ہى حمل وضع ہوا عدت ختم ہو جائيگى.

اور اگر طلاق عورت كى جانب سے معاوضہ دے كر حاصل كى گئى ہو تو يہ خلع كہلاتا ہے، راجح قول كے مطابق اس ميں ايك حيض عدت ہوگى.

اور اگر دوسرا عقد نكاح آپ كى عدت ختم ہونے كے بعد ہوا تو يہ شادى صحيح ہے، اور آپ پر كوئى گناہ نہيں، آپ پہلے خاوند كے پاس اسى وقت جا سكتى ہيں جب آپ كو دوسرا خاوند طلاق دے دے اور آپ كى عدت ختم ہو تو پہلا خاوند آپ سے نكاح كرے.

ليكن اگر آپ كى دوسرى شادى عدت ختم ہونے سے قبل تھى تو يہ شادى باطل ہے صحيح نہيں، اس طرح آپ نے ايك بہت ہى برا اور غلط عمل كيا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رہے باطل نكاح تو يہ اس طرح ہے كہ كوئى شادى شدہ عورت دوران نكاح ہى دوسرى شادى كر لے، يا دوران عدت يا پھر اس كے مشابہ، جب دونوں يعنى خاوند اور بيوى كو حلال اور حرام كا علم ہو جائے تو وہ زانى ہيں، اور انہيں حد لگائى جائيگى، اور اس ميں نسب بھى ثابت نہيں ہوگا " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 7 / 10 ).

اور ايك مقام پر درج ہے:

" جب عدت والى عورت شادى كر لے اور دونوں كو عدت كا علم بھى ہو، اور وہ جانتے ہوں كہ عدت ميں نكاح كرنا حرام ہے، اور خاوند نے اس سے وطئ بھى كر لى تو وہ دونوں زانى ہيں انہيں زنا كى حد لگائى جائيگى، اور اسے مہر نہيں ملےگا اور نہ ہى نسب كا الحاق ہوگا.

اور اگر انہيں عدت كا علم نہ ہو، يا عدت ميں نكاح كى حرمت سے جاہل ہوں تو نسب ثابت ہوگا، اور حد نہيں لگائى جائيگى، اور مہر دينا بھى واجب ہوگا.

اور اگر عورت كو علم نہيں ليكن مرد كو علم ہو تو مرد پر حد لگےگى اور مہر دينا ہوگا، اور مرد كو نسب حاصل نہيں ہوگا.

ليكن اگر عورت كو علم ہو اور مرد جاہل ہو تو پھر عورت پر حد لگےگى اور اسے مہر نہيں ملےگا، اور مرد كى طرف بچے كى نسبت بھى ہوگى.

يہ اس ليے تھا كہ اس نكاح كے باطل ہونے پر متفق ہيں، اس ليے يہ محرم عورتوں سے نكاح كے مشابہ ہوا " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 8 / 103 ).

اس وقت دوسرا نكاح فسخ ہو جائيگا كيونكہ يہ باطل تھا اور آپ كو پہلے كى عدت مكمل كرنا ہوگى، اور پھر اس كے بعد دوسرے كى عدت بھى.

پھر سوال يہ ہے كہ: آيا آپ اپنے پہلے خاوند كے پاس جا سكتى ہيں يا نہيں ؟

اگر تو آپ كے پہلے خاوند نے عدت ميں رجوع كر ليا تھا چاہے آپ كو رجوع كا علم نہ بھى ہو، يا اس كى عدت مكمل كرتے ہوئے وہ رجوع كر لے تو آپ اس كى بيوى ہيں.

اور اگر بغير رجوع كيے آپ كى عدت ختم ہو جائے تو وہ آپ كے ليے اجنبى بن جائيگا، اور آپ نئے نكاح كے بغير اس كے پاس نہيں جا سكتيں، اس صورت ميں آپ كو اختيار ہے كہ آيا آپ اسى سے دوبارہ نكاح كر ليں يا دوسرے سے يا ان دونوں كے علاوہ كسى اور شخص سے.

مقصد يہ ہے كہ دوران عدت دوسرے شخص سے شادى باطل ہے، چاہے آپ كے پہلے خاوند نے دوران عدت رجوع كيا يا نہيں كيا، اور آپ عقد جديد كے ساتھ اس كى بيوى بنيں يا نہ بنيں دونوں حالتوں ميں دوران عدت دوسرے شخص سے شادى باطل ہوگى.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب