جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

عورت کی اگلی شرمگاہ سے خارج ہونے والی ہوا کے حکم کے متعلق اختلاف

سوال

یہ سب جانتے ہیں کہ بسا اوقات عورت کی اگلی شرمگاہ سے ہوا خارج ہوتی ہے، اور بسا اوقات اس کی آواز بھی آتی ہے، لیکن عام طور پر اس میں آواز نہیں ہوتی، آپ نے اپنے سابقہ جوابات میں بتلایا ہے کہ اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ میرا سوال بھی اسی سے متعلق ہے کہ اگر فرض کریں کہ کسی عورت کو تسلسل کے ساتھ اس طرح سے ہوا خارج ہونے کی شکایت ہے، اور ہوا کا خروج کسی بھی حالت اور کیفیت میں ہوتا رہتا ہے چاہے عورت بیٹھی ہو یا چل رہی ہو یا نماز پڑھتی ہو یا نہ پڑھتی ہو۔۔۔ اس عورت کو مسئلہ یہ ہے کہ دوران نماز اسے نہیں پتہ چلتا کہ ہوا کہاں سے خارج ہوئی ہے کہ اگر ہوا آگے سے خارج ہوئی ہے تو نماز نہ توڑے اور اگر پیچھے سے خارج ہوئی ہے تو نئے سرے سے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھے!

تو ایسی صورت میں عورت کیا کرے؟ کیونکہ اس صورت حال میں نہ تو وہ خشوع قائم رکھ سکتی ہے نہ ہی اپنی توجہ نماز پر مرکوز کر سکتی ہے، تو کیا اس ہوا کو آگے خارج ہونے والی ہوا سمجھے اور نماز جاری رکھے ، الا کہ اسے سو فیصد یقین ہو کہ ہوا پیچھے سے خارج ہوئی ہے، یا پھر نماز توڑ دے کہ ہوا پیچھے سے خارج ہو ئی ہے اور جا کر وضو کرے اور دوبارہ شروع سے نماز ادا کرے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فقہائے کرام کا عورت کے آگے سے خارج ہونے والی ہوا سے وضو ٹوٹنے کے بارے میں اختلاف ہے، اس بارے میں دو موقف ہیں:
پہلا موقف: اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، تو یہ شافعی اور حنبلی فقہائے کرام کا موقف ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مرد یا عورت کی اگلی یا پچھلی شرمگاہ سے خارج ہونے والی ہر چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، چاہے پاخانہ ، یا پیشاب ، یا ہوا، یا کیڑا، یا پیپ، یا خون، یا کنکری، یا کچھ بھی ہو۔ پھر اس میں بھی کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ چیز کبھی کبھار نکلے یا عموماً نکلتی رہتی ہو۔ نیز امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الام میں یہ صراحت کی ہے کہ مرد یا عورت کی اگلی یا پچھلی شرمگاہ سے ہوا خارج ہو دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی موقف پر شافعی فقہائے کرام متفق ہیں۔" ختم شد
" المجموع " (2/3) ، مزید کے لیے ابن حجر ہیتمی کی " تحفة المحتاج " (1/127) بھی دیکھیں۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/125)میں کہتے ہیں:
"عورت کی اگلی جانب سے نکلنے والی ہوا کے بارے میں صالحؒ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ: کوئی بھی چیز اگلی یا پچھلی شرمگاہ سے نکلے تو اس میں وضو کرنا ہو گا۔ قاضی ؒ کہتے ہیں: مرد کے آلہ تناسل سے اور عورت کی اندام نہانی سے خارج ہونے والی ہوا وضو توڑ دیتی ہے۔" ختم شد
مزید کے لیے آپ علامہ مرداویؒ کی: " الإنصاف " (1/195) کا مطالعہ کریں۔

دوسرا موقف: اس سے وضو نہیں ٹوٹتا، تو یہ احناف اور مالکی فقہائے کرام کا موقف ہے۔

جیسے کہ " رد المحتار على الدر المختار " (1/136) میں ہے کہ:
"عورت کی اندام نہانی اور مرد کے آلہ تناسل سے خارج ہونے والی ہوا وضو نہیں توڑتی، کیونکہ یہ حقیقت میں ہوا نہیں ہوتی، اور اگر حقیقت میں ہوا ہو بھی سہی تو یہ ہوا نجاست والی جگہ سے پیدا نہیں ہوئی اس لیے یہ ناقض وضو نہیں ہے۔" ختم شد
مزید کے لیے دیکھیں علامہ کاسانیؒ کی کتاب: " بدائع الصنائع " (1/25)

اسی طرح علامہ دردیر مالکی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر عمومی طور پر خارج ہونے والا فضلہ اپنی اصلی جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ سے خارج ہو مثلاً: منہ کی جانب سے [ہوا] خارج ہو، یا پیشاب پچھلی جانب سے، یا ہوا اگلی جانب سے چاہے عورت کی اندام نہانی سے خارج ہو، یا کسی اور سوراخ سے نکلے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔" ختم شد
ماخوذ از: "الشرح الكبير مع حاشية الدسوقي" (1/118)

بلاشبہ بری الذمہ ہونے کے لیے محتاط عمل یہی ہے کہ اس ہوا کی وجہ سے بھی وضو کر لیا جائے؛ کیونکہ اس حوالے سے اختلافی رائے کافی مضبوط ہے، نیز یہ بھی کہ جس طرح یہ موقف محتاط ہے تو اسی طرح یہ موقف دلیل کے قریب تر بھی ہے؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان عام ہے کہ: (وضو تبھی لازم ہو گا جب آواز ہو یا ہوا خارج ہو۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (74) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح الجامع: (7572)میں صحیح قرار دیا ہے۔

چنانچہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے اس حدیث کی وجہ سے اور اس مسئلے میں ایسی ہی دیگر روایات کی وجہ سے یہ موقف اپنایا ہے کہ عورت کی اگلی شرمگاہ سے خارج ہونے والی ہوا سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا۔

امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کا یہی موقف ہے کہ وضو تبھی واجب ہو گا جب کوئی بے وضو ہو جائے، اور بے وضو تبھی ہو گا جب آواز سنے یا ہوا خارج ہوتی ہوئی محسوس ہو۔ عبد اللہ بن مبارک ؒ کہتے ہیں: اگر کسی کو وضو ٹوٹنے کے بارے میں شک ہو تو اس پر اس وقت تک وضو کرنا لازم نہیں ہے جب تک اسے اتنا یقین ہو جائے کہ وہ اپنے بے وضو ہونے پر قسم اٹھا سکے۔ انہوں نے مزید کہا: اگر عورت کی اگلی شرمگاہ سے ہوا خارج ہو تو اس پر وضو کرنا لازم ہو گا، یہی موقف امام شافعی اور اسحاق کا ہے۔" ختم شد

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (14383 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

پھر یہاں وضو کرنا اس لیے بھی زیادہ بہتر ہو گا کہ سوال میں خارج ہونے والی ہوا کے بارے میں اشتباہ کا ذکر بھی ہے کہ کیا یہ ہوا آگے سے خارج ہوئی ہے یا پیچھے سے، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پچھلی شرمگاہ سے خارج ہونے والی ہوا بالاجماع ناقض وضو ہے۔ چنانچہ اگر یہ شبہ ہو کہ ہوا پیچھے سے خارج ہوئی ہے تو یہ بالاجماع ناقض وضو ہے، اور اگر شبہ یہ ہو کہ آگے سے ہوا خارج ہوئی ہے تو بہت سے اہل علم کے ہاں ناقض وضو ہے۔ تو اس طرح وضو ٹوٹنے کا موقف بہت زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے ، پھر عام طور پر ہوا پیچھے سے ہی خارج ہوتی ہے، جبکہ آگے سے خارج ہونے کا معاملہ شاذ و نادر اور غیر معتاد ہے، تو جن اہل علم کے ہاں یہ ہوا ناقض وضو نہیں ہے انہوں نے یہ موقف اسی بنیاد پر اپنایا ہے۔

دوم:
اگر ہوا خارج ہونے کا معاملہ تسلسل کے ساتھ جاری ہو کہ کسی بھی حالت اور کیفیت میں ہوا خارج ہوتی رہتی ہے، تو اس عورت کا یہ عذر ہے، چاہے اسے پچھلی شرمگاہ سے ہوا خارج ہونے کا یقین ہو؛ یہ عورت ہر نماز کے لیے نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد وضو کرے، اور فرض رکعات ادا کرے اور پھر نوافل بھی جتنے مرضی پڑھ لے، اس دوران جب بھی ہوا خارج ہو تو اس پر وضو کرنا لازم نہیں ہے۔

الشیخ شنقیطی حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:
عورت کی اگلی شرمگاہ سے نکلنے والی ہوا جو کہ عام طور پر مختلف اوقات میں خارج ہوتی رہتی ہے، تو کیا ایسی عورت ہر نماز کے لیے وضو کر کے نماز ادا کرے گی؟

تو انہوں نے جواب دیا کہ:
"اس مسئلے میں علمائے کرام کے مابین اختلاف مشہور ہے کہ کیا ہوا خارج ہونے کے معاملے میں اگلی شرمگاہ کا وہی حکم ہے جو پچھلی شرمگاہ کا ہے؟ تو کچھ اہل علم یہ کہتے ہیں کہ آگے سے ہوا خارج ہونے کا حکم بھی وہی ہے جو پیچھے سے ہوا خارج ہونے کا ہے۔ ان کا یہ حکم نظیر کو نظیر کا حکم دینے سے تعلق رکھتا ہے، اور یہ موقف کافی مضبوط ہے، نیز محتاط ہونے کے اعتبار سے بہتر بھی ہے۔

لیکن اگر ہوا خارج ہونے کا معاملہ اتنا زیادہ بڑھ جائے کہ عورت کو بہت زیادہ مشقت اور تکلیف ہو تو پھر اس کا حکم مستحاضہ خاتون جیسا ہو گا، تو جس طرح خاتون استحاضہ میں خون جاری رہنے پر نماز کا وقت شروع ہونے پر وضو کرتی ہے اور اسی طرح یہ بھی ہر نماز کا وقت شروع ہونے پر وضو کرے، اور اس کے بعد ہوا خارج ہونے کی طرف دھیان نہ دے، یہی حکم اس وقت ہو گا جب پچھلی شرمگاہ سے ہوا نکلنے کا معاملہ تسلسل کے ساتھ جاری رہے، تو اس حوالے سے محتاط عمل اپنائے۔ واللہ اعلم" ختم شد
ماخوذ از: "شرح زاد المستقنع"

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب