جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

"دعائے کمیل بن زیاد کا حکم"

181861

تاریخ اشاعت : 14-08-2014

مشاہدات : 12825

سوال

میرے متعدد سوالات ہیں جو کہ "دعائے کمیل بن زیاد" سے متعلق ہیں۔
1- کیا ہمارے لئے "دعائے کمیل بن زیاد" پڑھنا جائز ہے، اس دعا کو شیعہ ہر ہفتے پڑھتے ہیں۔
2- اگر یہ دعا ثابت نہیں ہے تو کیا ہم اسکے الفاظ کی عمدگی کی وجہ سے اسے پڑھ سکتے ہیں؟
3- اور کیا آخری تشہد میں درود ابراہیمی پڑھنے کے بعد ہم یہ دعا پڑھ سکتے ہیں، یعنی درود کے بعد فورا صرف اسی دعا کو پڑھا جائے، درمیان میں کوئی اور دعا نہ ہو، تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

"دعائے کمیل بن زیادہ" شیعہ حضرات کے ہاں بہت معروف ہے، یہ لوگ ہر جمعہ اور نصف شعبان کی رات میں اسے پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں، کیونکہ انکے نزدیک اسکی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے، اور روحانی تربیت کیلئے کافی مؤثر ثابت ہوتی ہے، کیونکہ ان کے مطابق اس دعا میں بہت ہی زیادہ معنی خیزی ہے۔

محمد باقر مجلسی اس دعا کے بارے میں کہتے ہیں کہ: "افضل ترین دعا دعائے خضر علیہ السلام ہے، جو کہ امیر المؤمنین نے کمیل کو سیکھائی تھی، آپ امیر المؤمنین کے خاص ساتھی تھے"

قمی نے کہا: "یہ ایک معروف دعا ہے، اسے نصف شعبان اور جمعہ کی رات کو پڑھا جاتا ہے، یہ دعا دشمنوں کے شر سے بچانے کیساتھ ساتھ معیشت میں برکت اور گناہوں کی معافی کیلئے نئے راستے کھولتی ہے"

اس دعا میں ہے کہ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے کمیل بن زیاد کو کہا:

"کمیل! بیٹھ جاؤ! جب تم یہ دعا یاد کر لو تو ہر جمعہ کی رات،یا ہر ماہ، یاسال میں ایک بار،یا کم از کم زندگی میں ایک بار ضرور پڑھنا، تمہاری سب ضروریات پوری ہونگی، ہمیشہ دشمن پر غالب رہوگے، اور رزق بھی وافر ملے گا، اور کبھی بھی بخشش سے محروم نہیں رہو گے، کمیل! تمہاری ہمارے ساتھ لمبی دوستی کی وجہ سے ہم تمہارا یہ مطالبہ پورا کر رہے ہیں"

پھر علی رضی اللہ عنہ نے کہا: "یا اللہ! میں تجھے تیری وسیع رحمت کا واسطہ دیکر تیرے در کا سوالی ہوں، سب پر بھاری تیری قوت کا واسطہ دیتا ہوں، جس کے سامنے تمام چیزیں سرنگوں ہیں، تمام اشیا اسکے سامنے ہیچ ہیں، تیری جبروت کا واسطہ دیتا ہوں، جس کے ذریعے توں ہر چیز پر غالب ہے، تیرے غلبے کا واسطہ دیتا ہوں جسکا کوئی مقابل نہیں، تیری عظمت کا واسطہ دیتا ہوں جس نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، تیری شاہی کا واسطہ دیتا ہوں جو ہر چیز پر غالب ہے، تیرے چہرے کا واسطہ دیتا ہوں جو ہر چیز کے فنا ہونے کے بعد بھی باقی رہے گا، تیرے اسمائے حسنی کا واسطہ دیتا ہوں جن کے اثرات ہر چیز پر رونما ہیں، تیرے علم کا واسطہ دیتا ہوں جو ہر شیء کو اپنی تحویل میں لئے ہوئے ہے، تیرے نورانی چہرے کے نور کا تجھے واسطہ دیتا ہوں ، جس سے ہر چیز منور ہوچکی ہے، یا نور! اے پاک ذات! اے سب سے پہلی ذات! اے سب سے آخری ذات! یا اللہ! میری عفت و پاکدامنی تار تار کرنے والے گناہوں کو معاف فرما، یا اللہ! عذاب کا موجب بننے والے میرے گناہوں کو معاف فرما، یا اللہ! نعمتوں کو زحمتوں میں تبدیل کرنے والے میرے گناہوں کو معاف فرما، یا اللہ! میری دعاؤں کی تردید کا سبب بننے والے گناہ معاف فرما، یا اللہ! بلائیں اترنے کا سبب بننے والے میرے گناہوں کو معاف فرما، یا اللہ! میرے سارے گناہ معاف کردے، میری ہر غلطی معاف کردے۔۔۔الخ" یہ مسجع دعا ہے، جس کی بناوٹ کیلئے خوب تکلف سے کام لیا گیا ہے، جسکی وجہ سے اس میں نور نبوت، یا شانِ صحبت بالکل بھی نظر نہیں آتی۔

یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں ان الفاظ کی علی رضی اللہ عنہ تک سند بھی نہیں ہے، بلکہ یہ دعا ایسے لوگوں کے ہاں معروف ہے جو اللہ، رسول اللہ، اولیائے کرام پر جھوٹے الزام لگانے کے عادی ہیں، اور جھوٹ بولنے کو قرب الہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

دوم:

اگر مان بھی لیں کہ اس کے سارے الفاظ اچھے ہیں، معنی بھی درست ہے، پھر بھی ان الفاظ کو بطورِ دعا استعمال کرنا، اور ہمیشہ ان الفاظ کو پڑھتے رہنا مناسب نہیں ہے؛ کیونکہ یہ دعا جھوٹی تو ہے ہی، ساتھ میں اسکی نسبت علی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے، اور ویسے بھی یہ دعا رافضی اور اکے نقش قدم پر چلنے والے اہل بدعت کی علامت بن چکی ہے، اور یہ بات اوپر گزر چکی ہے کہ شیعہ حضرات اسکے فضائل، شان، اور عظمت بیان کرتے تھکتے نہیں ہیں، لہذا جن الفاظ کی حیثیت یہی ہو تو انہیں عبادت کا ذریعہ بنانا درست نہیں ہے۔

چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اگر کسی مستحب کام میں واضح خرابی ہو تو وہ مستحب نہیں رہتا، چنانچہ اسی بنا پر کچھ فقہائے کرام شیعہ حضرات کی علامت بن جانے والے چند مستحبات کو ترک کرنے کے قائل ہیں ، کیونکہ اس مستحب کو ترک کرنے کی وجہ سے کوئی واجب کام ترک نہیں ہوگا، لیکن مذکورہ مستحب کام کرنے سے شیعہ حضرات کی مشابہت لازم آئے گی، اور نتیجۃً سنی اور رافضی میں امتیاز ختم ہوجائے گا، اور رافضیوں سے امتیاز اس لئے کرنا ہے تا کہ لوگ ان سے دور رہیں، اور انکی مخالفت کریں، رافضیوں سے امتیاز مستحب کام کرنے سے کہیں بلند درجہ رکھتا ہے"انتہی

"منهاج السنة النبوية" (4/ 154)

شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

" چاہے اہل بدعت کے شعائر حقیقت میں مسنون عمل ہی کیوں نہ ہو،کچھ علمائے کرام نے اہل بدعت کیساتھ انکے شعائر میں مشابہت اختیار کرنے کے بارےمیں مبالغہ کیا ہے، لیکن سب علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اہل بدعت کے شعائر میں انکی مشابہت اختیار کرنا ممنوعہ کام ہے"انتہی

"فتاوى ورسائل محمد بن ابراہيم" (6 /202)

مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر: (27237) اور (6745) کا مطالعہ کریں۔

سوم:

سائل کا کہنا کہ: کیا آخری تشہد میں درود ابراہیمی کے بعد صرف دعا پر اکتفا کرنا جائز ہے؟ کہ دعا کے پڑھنے کے فورا بعد سلام پھیر دیا جائے، کوئی اور دعا نہ پڑھی جائے؟

اگر سائل کا مقصود مذکورہ "دعائے کمیل" ہے تو اس کے بارے میں بتلا دیا گیا ہے کہ یہ جائز نہیں ہے، اس دعا کو پڑھنا بھی درست نہیں ہے۔

اور اگر سوال کا مطلب یہ ہے کہ کیا درود ابراہیمی سے فراغت کے بعد بغیر کوئی دعا مانگے سلام پھیرنا جائز ہے؟ تو اس کے بارے میں یہ ذہن نشین رہے کہ آخری تشہد میں درود ابراہیمی کے بعد سلام سے پہلے دعا مانگنا مسنون ہے، واجب نہیں ہے، اس لئے نمازی بغیر دعا مانگے بھی درود کے فورا بعد سلام پھیر سکتا ہے۔

چنانچہ "الموسوعة الفقهية" (27 /98) میں ہے کہ:

"نمازی کیلئے آخری تشہد میں اپنی پسندیدہ دعا مانگنا مسنون ہے؛ جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کوئی تشہد میں بیٹھے تو کہے "التحیات للہ ۔۔۔الخ"پھر اسکے بعد جو مانگنا چاہتا ہے مانگے)

جبکہ بخاری کی روایت کے مطابق الفاظ یہ ہیں: (پھر اس جو دعا زیادہ پسند ہے وہ مانگے) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ: (جو مانگنا چاہتا ہے مانگ لے)" انتہی

اسی طرح "اسنى المطالب" (1/166) میں ہے کہ:

"آخری تشہد میں درود ابراہیمی کے بعد دعا مستحب ہے، دنیا آخرت سے متعلق کوئی بھی دعا مانگ سکتا ہے"انتہی

مندرجہ بالا بیان کے بعد اگر نمازی تشہد اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے فورا بعد سلام پھیر دے، اور کوئی دعا نہ مانگے تو اس پر کچھ نہیں ہوگا، کیونکہ اس سے ایک مسنون عمل ترک ہوا ہے۔

لیکن نماز میں سلام پھیرنے سے قبل چار چیزوں سے پناہ مانگنے کی تاکید کی گئی ہے: عذاب جہنم، عذاب قبر، فتنہ زندگی و موت، اور فتنہ دجال، جیسے کہ صحیح مسلم (588) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگے، عذاب جہنم، عذاب قبر، فتنہ زندگی و موت، اور فتنہ دجال)

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اس حدیث میں ، آخری تشہد کی اس دعا کے مستحب ہونے کی صراحت بیان کی گئی ہے "انتہی

کچھ مزید دعائیں بھی ہیں جنہیں نمازی آخری تشہد سے فراغت کے بعد پڑھ سکتا ہے، جن کے بارے میں جاننے کیلئے آپ سوال نمبر (5236) کا جواب ملاحظہ کریں۔

و اللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب