منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

سود خور خاوند كے ساتھ رہنے كا حكم

20002

تاریخ اشاعت : 16-01-2011

مشاہدات : 5971

سوال

كيا سود پر قرض لينے والے خاوند كے ساتھ رہنے والى بيوى بھى گنہگار شمار كى جائيگى ؟
برائے مہربانى اس سلسلہ ميں ميرى مدد فرمائيں اور خاوند كى غلطى كى اصلاح كرنے اور اسے مطمئن كرنے كا طريقہ بتانے پر ميں آپ كى ممنون و مشكور ہونگى.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر تو خاوند حلال قرض ليتا ہے سودى نہيں، اور قرض واپس كرنے كى نيت ركھتا ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور اس قرض لينے پر وہ نافرمان شمار نہيں ہوگا.

ليكن اگر يہ قرض سودى ہو تو يہ حرام ہے، اور ايسا قرض حاصل كرنا جائز نہيں، اور اس كے ليے جائز نہيں كہ وہ اس حرام مال سے كوئى تجارت شروع مت كرے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

جو كوئى بھى اللہ كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ سبحانہ و تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ پيدا كر ديتا ہے، اور اسے رزق بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اس كا وہم و گمان بھى نہيں ہوتا .

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو كوئى بھى كسى چيز كو اللہ كے ليے ترك كرتا ہے تو اللہ تعالى اسے اس كا نعم البدل عطا فرماتا ہے "

اوراگر آپ خاوند كے ليے كوئى نصيحت چاہتى ہيں تو آپ سوال نمبر ( 9054 ) كے جواب كا مطالعہ كريں، اس ميں اس موضوع كے متعلق كلام كى گئى ہے آپ اسے يہ ديں ہو سكتا ہے اللہ تعالى اس سے اسے فائدہ دے، اور آپ كو حرام سے دور كر دے.

رہا اس كى سود خورى كا مسئلہ تو يہ ايسا سبب ہے جس كى بنا پر آپ اس سے طلاق كا مطالبہ كر سكتى ہيں، يا پھر خلع لے سكتى ہيں، ليكن يہ ضرورى نہيں بلكہ آپ اس كے ساتھ رہ سكتى ہيں اور معاشرت كر سكتى ہيں، ليكن اس كے ساتھ ساتھ اسے اچھے طريقہ سے وعظ و نصيحت كرتى رہيں ہو سكتا ہے اس كى اصلاح ہو جائے.

رہا مسئلہ اس كا مال كھانا، اگر تو اس حرام كمائى كے علاوہ اور بھى كوئى كمائى كا ذريعہ ہے جو مباح ہے تو آپ كے ليے اور آپ كى اولاد كے ليے اس مال سے كھانا ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر اس كى سارى كمائى كا ذريعہ ہى حرام ہے اور آپ اس كے علاوہ كوئى اور خرچہ حاصل نہيں كرسكتے، اور آپ كى كمائى كا كوئى حلال ذريعہ نہيں.

اس صورت ميں آپ كے ليے حسب ضرورت بغير كسى زيادتى و وسعت كے ضرورت كے مطابق مال لينا جائز ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اپنى استطاعت كے مطابق تقوى اختيار كرو .

اور فرمان بارى تعالى ہے:

اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا .

اس حالت ميں اس كے مال سے لينا يہ آپ كے ليے واجب نفقہ ميں شمار ہوگا، اور اس كے ساتھ ساتھ آپ اس كو نصيحت جارى ركھيں، اور حرام سے اجتناب كرتے ہوئے حلال اور شرعى طريقہ تلاش كرنے كى تلقين كرتے رہيں جس سے وہ كمائى كر كے حلال روزى حاصل كرے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد