منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

اسلام سےمرتد ہونےوالے كو قتل كيوں كيا جاتا ہے

20327

تاریخ اشاعت : 01-02-2010

مشاہدات : 9973

سوال

غيرمسلم ہونےكےباوجود ميں آپ كےعقيدہ سے بہت محبت ركھتا ہوں، ليكن ميرے ليے يہ سمجھنا مشكل ہے كہ كسي شخص پرصرف ايك بات كہنے كي بنا پرہي موت كا حكم لگاديا جائے ميري مراد سلمان رشدي ہے، ميرا اعتقاد ہے كہ انسان ہونے كےناطے ہميں كوئي حق نہيں پہنچتا كہ اس طرح كےحكم جاري كرتے پھريں، اس طرح كےمعاملات ميں صرف اللہ تعالي ہي حكم كرنے والا ہے .

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ سوال ارسال كرنے اور آپ كا ہمارے عقيدہ سے محبت كرنےاور اس كا جواب معلوم كرنے كي حرص وخواہش ركھنے پرہم آپ كا شكريہ ادا كرتےہيں، لھذا ايك قاري اور زائر اور استفادہ كرنے پر ہم آپ كو خوش آمديد كہتےہيں.

اے سائل: دين اسلام سے صريح محبت نے اور پسنديدگي نے ہميں آپ كےليٹر كوبہت دير تك ديكھنےپر مجبور كيا، ہمارے اور آپ كےليے يہ بہت بڑي خوشي ہے، ہميں تواس لحاظ سےخوشي كہ ہمارے دين كا آپ جيسے اشخاص تك پہنچنا جوحق كي تلاش ميں سرگرداں رہتےہيں، اوراسي چيز كي خبر ہميں ہمارے نبي صلي اللہ عليہ وسلم نےدي ہے كہ يہ دين كرہ ارض كےكونے كونے تك پہنچےگا.

تميم داري رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ ميں نےرسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كويہ فرماتےہوئےسنا :

( يہ معاملہ ( دين اسلام ) وہاں تك پہنچےگا جہاں تك دن اور رات پہنچيں ہيں، اللہ تعالي كوئي كچا يا پكا مكان نہيں چھوڑے گا مگراس ميں يہ دين عزت والے كي عزت يا ذلت والے كي ذلت كےساتھ ضرور داخل كرےگا ايسي عزت كہ اللہ تعالي اس كےساتھ اسلام كو عزت دےگا اور ايسي ذلت كہ اس كےساتھ كفر كوذليل كرےگا ) مسند احمد ( 16344 ) علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے السلسلۃ الصحيحۃ ( 3 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور آپ كي نسبت سے ہم يہ كہيں گےكہ آپ كا اس دين كوپسند كرنا اور اس پر خوشي كا اظہار اس دين حنيف كےلائے ہوئے طريقہ اور احكام كو جاننے كا سبب بنے جوكہ فطرت سليمہ اور صحيح اور مستقيم عقول كےموافق ہے، لھذا ہم آپ كويہ نصيحت كرتےہيں كہ آپ ہرقسم كي خود غرضي اور تعصب سے خالي ہو كر اسلامي تعليمات كا غور سے مطالعہ كريں .

اور اسلام كےمتعلق آپ اسي ويب سائٹ پر مندرجہ ذيل سوالوں كے جوابات كا مطالعہ كرسكتےہيں :

مثلا: ( 219 ) اور ( 21613 ) اور ( 24756 ) اور ( 10590 ) كےجوابات ضرور ديكھيں.

اور آپ كا يہ كہنا كہ: صرف كلام كرنے كي بنا پرہي كسي شخص پر موت كا حكم صادر كرنےكا حكم سمجھنا مشكل ہے.... ميرا اعتقاد ہے كہ انسان ہونے كےناطےاس طرح كا فيصلہ صادر كرنا ہمارا حق نہيں بلكہ يہ حق صرف اللہ تعالي كا ہے وہي ہے جواس طرح كےمعاملہ ميں فيصلہ كرنےوالا ہے.

آپ كي يہ كلام بالكل صحيح ہے كيونكہ كسي ايك كےليے بھي يہ جائز نہيں كہ وہ كتاب اللہ اور رسول صلي اللہ عليہ وسلم كي سنت سے دليل كےبغير كسي شخص پر موت كا حكم لگائے .

كسي كلمہ كي بنا پر قتل كا حكم علماء اسلام كےہاں ارتداد كےنام سے موسوم كيا جاتا ہے ، لھذا ديكھنا يہ ہے كہ ارتداد كيا ہے اور كسے مرتد كہا جاتا ہے؟

اور كوئي شخص كس چيز كےارتكاب سے مرتد ہوگا؟

اور مرتد كا حكم كيا ہے؟

ذيل ميں ہم ان تين سوالوں كاجواب تلاش كرنے كي كوشش كرتےہيں :

اول : ارتداد :

مسلمان كا قول صريح كےساتھ كفر كرنا، يا كوئي ايسا لفظ بولنا جوكفر كا متقاضي ہو، يا پھر كوئي ايسا فعل سرانجام دينا جوكفر كواپنے ضمن ميں ليےہوئے ہو.

دوم : ارتداد كس چيز سے ہوگا؟

ارتداد والے امور چار اقسام ميں منقسم ہوتےہيں:

ا - اعتقادي ارتداد، مثلا اللہ تعالي كےساتھ شرك كرنا، يا اللہ تعالي كا انكار كرنا، يا پھر اللہ تعالي كي ثابت شدہ صفات ميں سے كسي صفت كي نفي كرنا، يا اللہ تعالي كي اولاد ثابت كرنا، لھذا جوكوئي بھي ايسا عقيدہ ركھے وہ مرتد اور كافر ہے.

ب - اقوال كےساتھ ارتداد:

مثلا اللہ تعالي كوگالي نكالنا يا پھر رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كو گالي دينا .

ج - افعال كےساتھ ارتداد :

مثلا قرآن مجيد كو گندگي والي جگہ پر پھينكنا، اس ليے كہ ايسا كرنا كلام اللہ كي توہين اور اس كي عدم تصديق ہے، اور اسي طرح بت يا سورج اور چاند كوسجدہ كرنا .

د - ترك كرنےكےساتھ ارتداد :

مثلا سارے ديني شعائر كوترك كردينا، اور ديني احكام پر عمل كرنے سے كلي طور پر اعراض كرنا.

سوم :

مرتد كا حكم كيا ہے؟

جب كوئي مسلمان مرتد ہوجائےاور اس ميں مرتدہونےكي ساري شروط پائي جائيں يعني وہ عاقل بالغ اور بااختيار ہوتواس كا خون مباح ہے، اورامام المسلمين يعني مسلمانوں كا حكمران يا اس كا نائب مثلا قاضي اسے قتل كرے گا، ايسے شخص كي نہ تونماز جنازہ پڑھي جائيگي اور نہ ہي وہ مسلمانوں كے قبرستان ميں دفنايا جائےگا.

مرتد كوقتل كرنے كي دليل مندرجہ ذيل فرمان نبوي ہے:

رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا: ( جواپنےدين كوبدل لے اسے قتل كردو ) صحيح بخاري حديث نمبر ( 2794 ) .

اس حديث ميں دين سے مراد دين اسلام ہے يعني جومسلمان شخص اپنا دين بدلے.

اور ايك روايت ميں رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

( كسي مسلمان شخص كا خون حلال نہيں جويہ گواہي ديتا ہو كہ اللہ تعالي كےعلاوہ كوئي معبود برحق نہيں اور ميں اللہ تعالي كا رسول ہوں، ليكن تين اسباب كي بنا پر اس كا خون حلال ہے : جان كےبدلےجان، اور شادي شدہ زاني، اور اپنےدين كوترك كركےجماعت سےعليحدہ ہونےوالا ) صحيح بخاري حديث نمبر( 6878 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1676 )

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 22 / 180 )

اس سے سائل كےليے يہ واضح ہوا كہ مرتد كوقتل كرنا اللہ تعالي كےحكم كي بنا پرہے اس ليے كہ اللہ تعالي نے ہميں رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كي اتباع وپيروي اور اطاعت كرنےكا حكم ديتےہوئےفرمايا ہے:

اور اللہ تعالي كي اطاعت كرو اور رسول كريم صلي اللہ عليہ اور اپنے ميں سے اولي الامر كي اطاعت كرو

اور رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے ہميں مرتد كوقتل كرنے كا حكم ديا ہے جيسا كہ اوپر كي سطور ميں رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ( جواپنا دين بدل لے اسےقتل كردو ) گزر چكا ہے .

اس مسئلہ ميں آپ كوراضي ہونےكےليے وقت كي ضرورت ہے كچھ وقت اس صرف ہوگا اور پھر اس ميں آپ كو غوروفكر اور تامل سےكام لينا ہوگا، ہوسكتا ہے آپ ايسے مسئلہ ميں غوروفكر كريں اور سوچيں كہ ايك شخص حق كي پيروي كرتا اور حق ميں داخل ہوتا اور اس دين حق اور صحيح دين كواختيار كرتا ہے جواللہ تعالي نےواجب قرار ديا ہے اور پھر يہ دين اختيار كر لينے كےبعد ہم اسے يہ اجازت دے ديں كہ مكمل سھولت كےساتھ جب چاہے وہ ايسي كفريہ كلام كرے جواسے دين سے ہي خارج كردے اور وہ اللہ تعالي اور اس كےرسول صلي اللہ عليہ وسلم اور اس كتابوں اس كےدين اسلام كےساتھ كفر كا ارتكاب كرتا پھرے اور اسے كوئي سخت اور شديد قسم كي سزا نہ دي جائے جواسے اس كا سے باز ركھ سكے، تواس كا اس پر اور اس دين ميں داخل ہونےوالے دوسرے اشخاص پر اس چيز كا كيسا اثر ہوگا؟ .

كيا آپ ديكھتےنہيں كہ اس شخص نے اس دين صحيح جس كي اتباع واجب ہے كوايسي دوكان يا جگہ بنا ليا جس ميں كوئي شخص جب چاہے داخل ہو اور جب چاہے نكل جائے، اور ہوسكتا ہے دوسروں كوبھي حق ترك كرنے پر ابھارے.

پھر يہ ايسا شخص نہيں كہ جونہ توحق جانتا ہو اور نہ اس نےحق پر عمل كيا اور عبادت كي، بلكہ يہ توايسا شخص ہے جس نے حق پہچانا اور اس پر چل اور دين اسلام كے شعائر پر عمل كيا اور عبادات بھي كرتا رہا، تويہ سزا اس سزا سے بڑي نہيں جس كا وہ مستحق تھا، بلكہ اس طرح كا قوي حكم تو صرف اسے شخص كےليے ديا گيا ہے جس كي زندگي كوئي فائدہ نہيں اس ليے كہ اس نےحق جاننےاور پہچان لينےاور دين اسلام كي اتباع كرنے كےبعد اسے ترك كيا اور اس سے عليحدہ ہوگيا، تواس شخص سے برا اوركونسا نفس ہوگا.

جواب كا خلاصہ يہ ہےكہ:

اللہ تعالي نےاس دين اسلام كو نازل فرمايا اور فرض كياہے، اورجوشخص اس دين اسلام كو قبول كرنے كےبعد اس سے عليحدہ ہو جائے اسے قتل كرنے كا حكم بھي اللہ تعالي نے ہي ديا ہے، يہ حكم مسلمانوں كي سوچ اور افكار اور ان كي تجاويز اور اجتھاد نہيں، جبكہ معاملہ اسي طرح ہے اور ہم نے اللہ تعالي كو رب اور الہ مان ليا اور تسليم كرليا ہے تو پھر اللہ تعالي كے حكم كي اتباع اور پيروي ضروري ہے.

اللہ تعالي ہميں اورآپ كو وہ كام كرنے كي توفيق عطا فرمائے جواسے پسند ہيں اورجن سے وہ راضي ہوتا ہے، ہم ايك بار پھر آپ كا شكريہ ادا كرتے ہيں .

والسلام علي من اتبع الھدي

اور سلامتي اس پر ہے جو ھدايت كي اتباع وپيروي كرتا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد