منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

چاند یا سورج گرہن کی نماز پڑھنے کا انحصار دیکھنے پر ہے نہ کہ ماہرفلکیات کی خبر پر

سوال

کیا گرہن کے وقت پڑھی جانے والی نماز ہم ماہرفلکیات کی خبرکے وقت ادا کریں ؟
اورکیا جب کسی دوسرے شہریا ملک میں گرہن لگے تو ہم بھی نماز ادا کریں یا کہ اس میں دیکھنے کی شرط ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

احادیث صحیحہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سورج یا چاند گرہن کی نماز پڑھنا اوراللہ تعالی کا ذکر اوردعا کرنا ثابت ہے ، کہ جب مسلمان چاند یا سورج گرہن دیکھیں تو انہيں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہونا چاہیۓ ۔

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

( سورج اورچاند اللہ تعالی کی نشانیوں میں دو نشانیاں ہیں ، کسی کی موت یا پھر کسی کے پیدا ہونے کی بنا پر انہیں گرہن نہیں ہوتا ، لیکن اللہ تعالی اسے اپنے بندوں کو ڈرانے کے لیے لاتا ہے ، جب تم دیکھو کہ چاند یا سورج گرہن ہوا ہے تو گرہن ختم ہونے تک نماز ادا کرو ) ۔

اورایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :

( جب تم یہ دیکھو تو گھبرا کر اللہ تعالی کے ذکر اوراس سے دعا و استغفار کرو ) ۔

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرہن دیکھ کر نماز پڑھنے اوردعا و استغفار کرنے کا حکم دیا ہے کہ جب تم دیکھو تویہ کام کرو نہ کہ ماہر فلکیات کی خبر پر جوکہ اخبارات وغیرہ میں نشر ہو ۔

لھذا سب مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ کتاب وسنت پر عمل پیرا ہوں اوراس پر ہی عمل کریں اورہرچیز سے بچيں جس میں کتاب وسنت کی مخالفت ہورہی ہو ۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ جو لوگ صرف ماہر فلکیات کی خبر پر ہی گرہن کے وقت پڑھی جانے والی نماز ادا کرنے لگ جاتے ہیں وہ غلطی پر ہیں اورانہوں نے کتاب وسنت کی خلاف ورزی کی ہے ۔

اوریہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی شہر اورملک والوں کے لیے اس وقت تک یہ نماز مشروع نہيں جب تک کہ گرہن ان کے ہاں نہ ہو ، کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے حکم کو دیکھنے پر معلق کیا ہے کہ جب اسے دیکھا جائے تو نماز پڑھی جائے نہ کہ صرف ماہر فلکیات کی خبر پر کہ کسی دوسرے ملک یا شہر میں گرہن ہوگا کی بنیاد پر ہی نماز ادا کرلی جائے ۔

حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جوچيز تمہیں دیں اسے لے لو اورجس چيز سے منع کردیں اس سے رک جاؤ الحشر ( 7 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :

یقینا تمہارے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتریں نمونہ ہیں الاحزاب ( 21 ) ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ نماز اس وقت ادا کی تھی جب مدینہ نبویہ میں گرہن ہوا اورلوگوں نے اس کا مشاھدہ کیا تھا ۔

اورپھر اللہ سبحانہ وتعالی نے یہ بھی فرمایا ہے :

سنو جولوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہيں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئي زبردست آفت نہ آپڑے ، یا انہیں دردناک قسم کا عذاب ہی نہ پہنچ جائے النور ( 63 ) ۔

یہ تو معلوم ہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زيادہ علم والے اورزيادہ نصیحت کرنےوالے ہیں ، اوریقینا وہ اللہ تعالی کی جانب سے احکام بھی پہنچانے والے ہیں ، لھذا اگرصلاۃ کسوف ماہرفلکیات کی خبر پر یا پھر کسی دور دراز علاقے اوردوسرے ملک میں گرہن ہونے کی بنا ہی ادا کرنی مشروع ہوتی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے بھی بیان کرتے اوراپنی امت کی راہنمائی فرمادیتے ۔

لھذا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چيز بیان نہیں بلکہ اس کے خلاف بیان کیا اوراپنی امت کی راہنمائی فرمائي کہ تم رؤیت پر اعتماد کرو یعنی جب دیکھو کہ چاند یا سورج گرہن ہوا ہے تو نماز ادا کرو اوردعاو استغفار کرو ۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ نماز صرف اس کے لیے مشروع ہے جو اس کا مشاہدہ کرے یا جس کے شہر میں واقع ہو ۔

اللہ سبحانہ وتعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔ .

ماخذ: مجموع فتاوی و مقالات متنوعۃ لفضیلۃ الشيخ عبدالعزيز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ تعالی ( 13 / 30 ) ۔