جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

12 تاریخ کو منی سے روانگی

سوال

میں نے سنا ہے کہ ذو الحجہ کی 13 تاریخ کو کنکریاں مارنا اختیاری عمل ہے لازمی نہیں ہے، لہذا ہم 12 تاریخ کو مکہ چھوڑ سکتے ہیں، اور منی میں تمام ایام تشریق رہنا ضروری نہیں ہے، تو کیا یہ صحیح ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حجاج کرام 12 تاریخ کو منی سے واپس جا سکتے ہیں کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ  وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ۝۰ لِمَنِ اتَّقٰى)
ترجمہ: پھر اگر کوئی شخص جلدی کر کے دو دنوں میں واپس ہو گیا۔ تو بھی کچھ مضائقہ نہیں اور اگر ایک دن کی تاخیر کر لے تو بھی کوئی بات نہیں ایسے شخص کے لئے جو اللہ سے ڈرنے والا ہو۔[البقرہ: 203]
اور منی سے 12 تاریخ کو واپس آنے کی جمہور یعنی مالکی، شافعی، اور حنبلی فقہاء کے ہاں یہ شرط ہے کہ حاجی منی سے کنکریاں مارنے کے بعد غروب آفتاب سے پہلے پہلے باہر آجائے، اس طرح 13 تاریخ کو کنکریاں مارنے کی ضرورت نہیں رہے گی، اور اگر غروب آفتاب تک منی سے باہر نہیں آیا تو پھر منی میں رات گزارنا واجب ہوگا، اور 13 تاریخ کو کنکریاں بھی مارے گا؛ کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے کہا تھا:
"جو شخص 12 تاریخ کو غروب آفتاب کے وقت منی میں ہو تو وہ وہاں سے مت جائے بلکہ افضل ترین یوم تشریق کو کنکریاں ضرور مارے"

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"یوم نحر یعنی 10 ذو الحجہ کے بعد حاجی کیلئے منی میں گیارہ ا ور بارہ تاریخ  کے دو دن رہنا واجب ہے، جبکہ 13 تاریخ کو  منی میں ٹھہرنا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے، تاہم اگر 12 تاریخ کو سورج غروب ہو جائے اور حاجی ابھی تک منی میں ہی ہو تو پھر 13 تاریخ کی رات منی میں گزارنا اور پھر زوال کے بعد 13 تاریخ کو کنکریاں مارنا بھی واجب ہے۔

اور اس بارے میں وارد آیت کا مطلب یہ ہے کہ:
جو شخص یوم نحر کے بعد دو راتیں منی میں گزارنے اور دن میں تینوں جمرات کو کنکریاں مارنے کے بعد واپس آنے کیلئے جلدی کرے ، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، اور نہ اسے کوئی دم دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس نے اپنے ذمہ واجب ادا کر دیا ہے، اور جو شخص تاخیر کرتے ہوئے 13 کی رات منی میں گزارے اور 13 تاریخ کو تینوں جمرات  کو کنکریاں مارے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے، بلکہ اس رات کو منی میں گزارنا اور دن میں کنکریاں مارنا  افضل اور زیادہ اجر کا باعث ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج میں ایسے ہی کیا تھا۔
اللہ تعالی نے اس آیت کو تقوی اور آخرت پر ایمان کیلئے ترغیب دیتے ہوئے ختم فرمایا ہے، ساتھ میں یوم آخرت  کے دن جزا و سزا کی طرف بھی اشارہ کیا ہے؛ تا کہ یوم آخرت کی یاد اور رحمت کی امیدو عذاب کے خدشات سے نیک اعمال کثرت سے کئے جائیں، اور برے کاموں سے اجتناب کیا جائے" انتہی
شیخ عبد الرزاق عفیفی ، شیخ عبد الله بن غدیان ، شیخ عبد الله بن منیع

ماخوذ از: " فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء " ( 11 / 266 ، 267 )

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب