منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

کیا ماضی میں برائياں کرنے والوں سے شادی نہ کرے ؟

20744

تاریخ اشاعت : 24-09-2003

مشاہدات : 6821

سوال

میں ایک اعتدال پسند مسلم لڑکی ہوں اورحسب استطاعت اسلامی تعلیمات پر عمل بھی کرتی ہوں ، نہ توشراب نوشی کرتی ہوں اورنہ ہی سگریٹ نوشی ، اورڈانس کلبوں میں بھی نہیں جاتی اورنہ ہی مردوں سے میل جول اور اختلاط ہے ۔
میں اب شادی کے مرحلہ میں داخل ہوچکی ہوں اوروالدین شادی کرنا چاہتے ہیں ، لیکن یہ بہت مشکل ہے کہ جتنے بھی رشتہ آرہے ہیں ان میں سے کسی کے ساتھ بھی شادی کرنے کی موافقت کروں کیونکہ ان سب لڑکوں کا ماضی بہت ہی غلط قسم کا رہا ہے لڑکیوں سے تعلقات تھے یا پھر وہ ڈانس کلبوں میں جاتے رہے ہیں ۔
ان میں سے اکثر نوجوانوں کا دعوی ہے کہ وہ اپنے ماضی کو چھوڑ چکے ہیں اوران میں تبدیلی پیدا ہوچکی ہے ، لیکن میرے خیال میں اس طرح کے معاملات کا مستبقل میں رد فعل ہوگا اوریہ مستقبل پر اثرانداز بھی ہوں گے ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.


دین اسلام تو مکمل طور پر معتدل اوراعتدال کا دین ہے ، اوراسلامی تعلیمات پر عمل اورحرام کاموں سے اجتناب کرنا ایک ایسا امر ہے جس میں کسی بھی مسلمان کوکوئي اختیار نہيں ، کیونکہ یہ تو اللہ تعالی نے مسلمان پر واجب کیا ہے ۔

موجودہ دور میں فتنے بہت زيادہ بڑھ چکے ہیں اوربات یہاں تک جا پہنچی ہے کہ جو شخص کچھ حرام کردہ اشیاء کو ترک کرتا اوربعض واجبات پر عمل کرتا ہو اسے سنجیدہ اورمتشدد شمار کیا جاتا ہے ، اوراس میں کوئي شک نہیں کہ ایسا صرف اورصرف لوگوں میں دینی انحراف اورکثرت معاصی وگناہ میں پڑنے اورشرعی واجبات ترک کرنےکی وجہ سے ہوا ہے ۔

ہم تو آپ کے بہت زيادہ مشکور ہیں اوریہ لائق صد تحسین ہے کہ آپ اس گندے معاشرہ ( یورپی معاشرہ )میں رہتے ہوئے بھی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں ، آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ آپ جو کچھ کررہی ہيں وہ اللہ تعالی اوراس کے اولیاء مومن لوگوں کو بہت زیادہ محبوب ہے ، لیکن یہ کام شیطان کوبہت ہی برا اورغصہ دلاتا ہے اوراسی طرح شیطانی انسان بھی اسے سے نفرت کرتے ہیں ۔

آپ کا صالح اوراچھا خاوند اختیاراورتلاش کرنا بھی ایک شرعی طور پر مطلوب کام ہے ، لیکن ایسا کرنا آپ کے لائق نہیں کہ جس کے دین اور حسن خلق کا علم ہو جائے کہ وہ بہت اچھے دین و اخلاق کا مالک ہے لیکن اس کا ماضي خراب رہا ہے اس کورد کرنا اوراس سے شادی نہ کرنا صحیح نہیں ۔

کیونکہ جس انسان نے اپنے ماضي سے توبہ کرلی ہو اسے اس کے ماضی کی عارنہیں دلائي جاسکتی اورنہ ہی اس پر ماضي کی وجہ سے عیب لگایا جاسکتا ہے ، اورپھر اگر وہ شادی کرنے کی رغبت لے کر آپ کے کوشادی کا پیغام دیتا ہے تو اسے رد نہیں کیا جاسکتا ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تو فرمان ہے :

( گناہوں سے توبہ کرنے والا تو ایسے ہے جیسے اس کا کوئي گناہ ہی نہ ہو ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نےاسے روایت کیا ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوحسن قرار دیا ہے ۔

لیکن اگر کسی کے بارہ میں یہ تو علم ہو کہ اس کا ماضي بہت ہی برا گزرا ہے اوروہ گناہ اورمعاصی کا مرتکب رہا ہے اوراب اس کے بارہ میں یہ علم نہ ہو کہ وہ اپنے ماضي سے توبہ کرچکا ہے کہ نہيں اوراس نے اپنے گناہ چھوڑے ہیں یا نہیں تو اس طرح کے شخص پر اس کے دین اوراخلاق میں بھروسہ نہيں کیا جاسکتا اورایسے شخص کے ساتھ شادی کرنے کی موافقت نہيں کرنی چاہیے ۔

کسی انسان کا اپنی منگیتر یا اس کے اولیاء کو یہ کہنا کہ وہ اپنے ماضي سے توبہ کرچکا ہے اوراب اس میں تبدیلی پیدا ہوچکی ہے ، اس پر بھروسے کے لیے یہی کہنا کافی نہیں بلکہ اس کے قول اورفعل کی تحقیق کی جائے گي کہ واقعی وہ اپنے قول میں سچا ہے ، جب اس کے بارہ میں یہ علم ہوجائے کہ وہ اپنے ماضي سے توبہ کرچکا ہے یا پھر یہ یقین ہوجائے کہ برائي ترک کرچکا ہے توپھر اس سے شادی کی جائے ۔

اس لیے آپ کوئي نیک اورصالح شخص تلاش کریں چاہے اس کا ماضی کیسا ہی گزرا ہو آپ اسے رد نہ کریں ، اورہر اس شخص کوجس کے بارہ میں یہ علم ہوجائے کہ اس کا ماضي شرو فساد اوربرائي میں گزرا ہے اورابھی تک اس نے ترک نہیں کیا اسے قبول نہ کریں اوراس سے شادی کرنے سے انکار کردیں ۔

اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کےلیے یہ فرماتے ہوئے حکم دیا ہے :

( عورت سے شادی چار چيزوں کی بنا پر کی جاتی ہے ، اس کے مال کی وجہ سے ، اوراس کے حسب ونسب کی وجہ سے ، اوراس کے حسن وجمال کی وجہ سے ، اوراس کے دین کی وجہ سے ، تیرے ہاتھ خاک میں ملیں دین والی کو اختیار کر ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5090 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1466 ) ۔

یہ عورت پر بھی منطبق ہوتی ہے کیونکہ عورت پر بھی ضروری ہے کہ وہ صاحب دین اورحسن خلق والے شخص کے علاوہ کسی اورکو قبول نہ کرے ۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے :

( جب تمہارے پاس کوئي ایسا شخص شادی کرنے کا پیغام لے کر آئے ( یعنی منگنی کے لیے آئے ) جس کے دین اوراخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس کی شادی ( اپنی بیٹی سے ) کردو اگر ایسا نہیں کرو گے تم پھر زمین میں بہت وسیع وعریض فساد پیدا ہو جائے گا ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1084 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 866 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔

علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ تعالی تحفۃ الاحوذی میں اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہيں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا : ( إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ ) یعنی جب تم میں سے کوئي یہ کہے کہ تم اپنی اولاد یا پھر اپنے رشتہ داروں میں سے کسی لڑکی کی اس سے شادی کردو (مَنْ تَرْضَوْنَ ) یعنی جسے تم پسند کرتے ہو اوراچھا لگتا ہے ( دِينَهُ ) یعنی اس کا دین تمہیں اچھا لگتا ہے (وَخُلُقَهُ ) اوراس کا اخلاق اورمعاشرت اچھی لگے (فَزَوِّجُوهُ ) تواس کی شادی لڑکی سے کردو ( إِلا تَفْعَلُوا ) یعنی جس کا دین اوراخلاق تمہيں پسند آیااور اچھا لگا اگر اس سے اپنی بچی کی شادی نہیں کرو گے اورصرف حسب ونسب یا مال کی رغبت کروگے ( تكن فتنة وَفَسَادٌ عَرِيضٌ ) یعنی بہت وسیع و عریض فساد بپا ہوگا ۔

وہ اس لیے کہ تم اپنی بچی کا نکاح صرف اس سے کرو گے جو مال ودولت اورحسب ونسب اورخوبصورتی کا مالک ہو تو پھر تمہاری اکثر عورتیں بغیر شادی کے بیٹھی رہیں گی ، اوراسی طرح اکثر مرد بھی بغیر عورتوں کے رہیں گے جس سے زنا کا فتنہ زيادہ پھیلے گا ، اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ عورتوں کے اولیاء کوعار محسوس ہو اورفنتہ وفساد بھڑک اٹھے ، جس کی بنا پر قطع تعلقی اورنسب ورشتہ داریاں ختم ہونے لگيں اورخیروبھلائي اوراصلاح اورعفت وعصمت کی قلت پیدا ہوجائے ۔

اوردیکھیں بعض صحابہ کرام تو دور جاہلیت میں مشرک تھے اوربعد میں وہ مسلمان ہوئے اوراپنے اسلام پر اچھی طرح کاربند رہے اورشادیاں بھی کيں لیکن انہيں اس دلیل کی بنا پر رد نہيں کیا گيا کہ ان کا ماضی اچھا نہيں رہا ، لھذا مرد کی حالت وہ معتبر ہوگي جس پر وہ موجودہ وقت میں کاربند ہے اوراپنے ماضي سے توبہ کرچکا ہے ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کو صالح اورنیک خاوندعطا فرمائے اوراس میں آسانی پیدا کرے اس نیک وصالح اولاد سے نوازے ، آمین یا رب العالمین ، ۔

والحمد للہ رب العالمین ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب