جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

اپنے غالب گمان کی بنا پر کسی بات پر قسم اٹھا لی، پھر بعد میں معاملہ اس کے الٹ نکلاتو اب اس پر کیا ہے؟

210243

تاریخ اشاعت : 31-07-2015

مشاہدات : 5617

سوال

سوال: میری ایک دوست کیساتھ فون پر بات ہوئی، جب ہم نے گفتگو کی تو مجھے غالب گمان یہ ہوا کہ وہ خود بات نہیں کر رہا، کوئی اور ہے، تو میں نے قسم اٹھا لی کہ اگر تم میرے دوست ہی بات کر رہے ہو تو میں تمہیں ایک ہزار دینار دونگا، پھر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ میرا دوست ہی تھا، اس وقت مجھ میں اتنی استطاعت نہیں ہے کہ اسے اتنی بڑی رقم دے سکوں، کیونکہ مجھ پر ابھی قرضہ ہے، اور میں اس وقت بے روز گار بھی ہوں، رقم بہت بڑی ہے، اگر مجھے کہیں سے رقم مل بھی جائے توبھی ادائیگی مشکل ہے، تو اب میں کیا کروں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جو شخص اپنے غالب گمان کے مطابق قسم اٹھائے ، لیکن بعد  میں اس کیلئے عیاں ہو کہ معاملہ اس کی قسم  سے بالکل مخالف تھا، تو اس پر کچھ نہیں ہے، اور یہ لغو یمین میں داخل ہوگا، جو کہ جمہور ائمہ کرام [ابو حنیفہ، مالک، احمد]کے نزدیک اللہ  تعالی  کی طرف سے معافی شدہ ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(لا يُؤَاخِذُكُمْ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ)
ترجمہ: اللہ تعالی تمہاری لغو قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرتا، لیکن جن  کاموں کا تمہارے دلوں نے عزم کر لیاہو، اس کا مواخذہ کریگا، اور اللہ تعالی بخشنے والا برد بار ہے۔ [البقرة:225]

خرقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو شخص کسی چیز کے بارے میں اپنے تئیں پر یقین ہو کر قسم اٹھائے،  لیکن  حقیقت اس کے بر عکس  نکلے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے؛ کیونکہ یہ یمینِ لغو ہے" انتہی

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" اکثر اہل علم کا یہی موقف ہے کہ ایسی قسم کا کوئی کفارہ نہیں، ابن منذر نے بھی یہی کہا ہے" انتہی
"المغنی" (13/451)

شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ "أضواء البيان" (1/447) میں کہتے ہیں:
"آیت میں مذکور "لغو" کے مفہوم کے متعلق اہل علم کے متعدد اقوال ہیں، جن میں سے مشہور ترین دو ہیں:

1- لغو سے مراد وہ تمام قسمیں ہیں جو انسان کی زبان پر غیر ارادی طور پر آجاتی ہیں، جیسے باتوں باتوں میں  کہہ دینا: "اللہ کی قسم!" [اور ایسے ہی "قسم سے "کہنا]
اس موقف کے قائلین میں امام شافعی،اور  ایک روایت کے مطابق عائشہ رضی اللہ عنہاہیں ، اسی طرح یہی موقف ابن عمر سے بھی منقول ہے، اور ابن عباس کے دو اقوال میں سے ایک قول یہی ہے۔

2- لغو سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے تئیں سچی قسم اٹھائے، لیکن حقیقت میں معاملہ ایسا نہ ہو، تو اسے یمین لغو کہتے ہیں۔
اس موقف کے قائلین میں مالک بن انس رحمہ اللہ ہیں، نیز ان کا کہنا ہے کہ لغو کے بارے میں سب سے اچھی توجیہ  میں نے یہی سنی ہے، یہی موقف عائشہ رضی اللہ عنہا، ابو ہریرہ، اور ابن عباس کے ایک قول کے مطابق   ہے۔۔۔

لیکن دونوں اقوال قریب قریب ہیں، کیونکہ دونوں صورتوں پر لغو کا اطلاق ہو سکتا ہے؛ کیونکہ پہلی صورت میں  قسم کے الفاظ استعمال کرنے والے نے قسم اٹھانے کا ارادہ ہی نہیں کیا، جبکہ دوسری صورت میں قسم اٹھانے والے نے حق اور درست بات ہی مراد  لی تھی۔

لغوی طور پر "لغو" ایسی بات کو کہا جاتا ہے جس میں کوئی خیر نہ ہو، یا جس بات کی کوئی ضرورت نہ ہو، چنانچہ  حدیث میں لغو بھی اسی معنی میں استعمال ہو اہے، [جیسے کہ جمعہ کے متعلق حدیث میں ہے] (جب تم اپنے ساتھ بیٹھے  شخص کیلئے  دورانِ خطبہ  کہہ دو: "خاموش ہو جاؤ" تو تم نے لغو کام کیا)[یعنی بے فائدہ بات کی]" انتہی مختصراً

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لغو قسم  ایسی قسم کو کہتے ہیں  جس کے بارے میں دل پر عزم نہ ہو، اور غیر ارادی طور پر دورانِ گفتگو زبان پر آجائے،  [جیسے گفتگو کرتے ہوئے کہہ دیا جاتا ہے:]  "اللہ کی قسم۔۔۔" اور "قسم سے۔۔۔" یہاں اس سے مراد قسم اٹھانا نہیں ہوتا، چنانچہ ایسی قسم  لغو ہوگی۔

اسی طرح ایسی قسم بھی لغو شمار ہوگی  جس کے بارے میں انسان نے اپنے تئیں یقینی بات پر قسم اٹھائی، لیکن  حقیقت اس کے الٹ نکلی ، جیسے کوئی کہہ دے: "اللہ کی قسم! میں نے فلاں کو دیکھا تھا" بعد میں پتا چلے کہ وہ تو فلاں شخص کا ہم شکل تھا، مطلوبہ شخص نہیں تھا، اب ایسی قسم اٹھانے والا یہی نظریہ رکھتا ہے کہ اس نے صحیح بات کی ہے، لیکن حقیقت اس کے الٹ ہے، تو یہ بھی لغو قسم میں شمار ہوتا ہے" انتہی
" فتاوى نور على الدرب" (24/237)

مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق:
سوال میں مذکور قسم پر کوئی کفارہ نہیں ہے، اور نہ ہی آپ پر یہ لازم ہے کہ اپنے دوست کو ایک ہزار دینار دیں، کیونکہ آپ نے قسم اسی لیے اٹھائی ہے کہ آپ اپنے آپ کو درست اور سچا سمجھ رہے تھے۔

تاہم ہر مسلمان کو  یہ خیال کرنا چاہیے کہ ہر جگہ قسم مت اٹھائے، بلکہ صرف انہی امور میں قسم اٹھائے جن کیلئے تاکید اور قسم کی ضرورت بھی ہو۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب