جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ایک ہی قربانی میاں بیوی اور انکے اہل خانہ کیلئے کافی ہوگی۔

سوال

سوال: میرے والد صاحب اپنی طرف سے اور جوار رحمت میں منتقل ہوجانے والے اپنے والدین کی طرف سے قربانی کرتے آرہے ہیں ، لیکن میری والدہ کی طرف سے نہیں کرتے حالانکہ وہ ابھی زندہ ہیں، میں نے اُن سے اس موضوع پر بات کی تو انہوں نے کہا: "ان پر [یعنی:میری والدہ پر] قربانی کرنا لازمی نہیں ہے؛ کیونکہ وہ گھریلو خاتون ہیں"، جبکہ کچھ دیگر لوگوں نے کہا: "خاوند پر اپنی بیوی کی طرف سے قربانی کرنا لازمی نہیں ہے "
اب سوال یہ ہے کہ:
کیا بیٹا یا بیٹی اپنی والدہ کو قربانی کی قیمت ادا کرسکتے ہیں؟ یا وہ دونوں مل کر اپنی والدہ کیلئے قربانی خرید لیں، تو اسکا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

عید کی قربانی کرنے والے کیلئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی قربانی کے ثواب میں اپنے زندہ یا فوت شدہ عزیز و اقارب کو شریک کر لے؛ اسکی دلیل صحیح مسلم کی روایت ہے جس میں یہ ہے کہ[آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا]: (یا اللہ! [اس قربانی کو] محمد اور آل محمد کی طرف سے قبول فرما) "آل محمد" میں تمام زندہ اور فوت شدگان افراد شامل ہیں، اسی طرح فوت شدگان کی طرف سے الگ قربانی بھی کی جاسکتی ہے، یا زندہ افراد کے ضمن میں بھی انہیں شامل کیا جاسکتا ہے، اس کا تفصیلی بیان سوال نمبر: (36596) اور (36706) کے جواب میں پہلے گزر چکا ہے۔

دوم:

ایک ہی قربانی والدین، اور بیوی بچوں سمیت تمام اہل خانہ کی طرف سے کافی ہوتی ہے، بشرطیکہ سب ایک ہی گھر میں رہائش پذیر ہوں، اسکی دلیل صحیح مسلم: (3637) ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سینگوں والے مینڈھےکے بارے میں حکم دیا جس کے قدم، نیچے سے پیٹ، اور آنکھیں سب سیاہ رنگ کی تھیں، کہ اسے لایا جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: (عائشہ! مجھے پتھر کیساتھ چھری تیز کرکے دو) تو انہوں نے حکم کی تعمیل کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری کو پکڑا ، اور مینڈھے کو لیٹا کر ذبح کیا، اور فرمایا: (بسم اللہ، یا اللہ! محمد، آل محمد، اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما) آپ نے اس طرح اسکی قربانی فرمائی"

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو سربراہ کی جانب سے اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے ایک ہی قربانی کو جائز قرار دیتے ہیں، اور سب کو قربانی کے ثواب میں شریک سمجھتے ہیں، یہی ہمارا [یعنی: شافعی علمائے کرام] اور جمہور کا موقف ہے"انتہی شرح مسلم از امام نووی

چنانچہ مذکورہ بالا تفصیل کے بعد شرعی عمل یہ ہوا کہ خاوند یہ نیت کرے کہ قربانی اسکی اور اہل خانہ تمام کی طرف سے ہو، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرمایا، اور یہ قربانی سب کی طرف سے کافی ہوگی، اور تمام لوگ اجر میں بھی شریک ہونگے، چنانچہ خاوند کو بیوی کی طرف سے الگ قربانی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اور اگر وہ اپنے اہل خانہ کو قربانی میں شریک نہیں کرتا ، تو اہل خانہ سے قربانی کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ سربراہ کی جانب سے قربانی ہونے کے باعث گھر کے دیگر افراد سے قربانی ساقط ہوجائے گی، اگرچہ انہیں قربانی نہ کرنے کی وجہ سے ثواب نہیں ملے گا، ویسے بھی قربانی کرنے والے شخص نے انہیں ثواب میں شریک نہیں کیا۔

رملی رحمہ اللہ عید کی قربانی کے بارےمیں کہتے ہیں:

"ہمارے لئے عید پر قربانی کرنا اگر اہل خانہ متعدد ہوں تو سنت کفایہ ہے جسکی تاکید کی گئی ہے، چاہے یہ قربانی منی ہی میں کیوں نہ ہو، اور اگر اہل خانہ نہیں ہیں تو سنت ِ عین ہے، "سنت کفایہ" کا مطلب یہ ہے کہ : اگرچہ ایک گھرانے کے سب لوگ الگ الگ قربانی کر سکتے ہیں لیکن، اگر اس گھرانے میں سے ایک فرد [یعنی: سربراہ]قربانی کر دے تو دیکگر افراد سے قربانی کرنے کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا، اور انہیں ثواب بھی نہیں ملے گا، جیسے نماز جنازہ میں ہوتا ہے، [یعنی: جنازہ پڑھنے کا ثواب جنازہ پڑھنے والوں کو ملتا ہے، اور اس طرح دیگر افراد کی طرف سے جنازے کی ادائیگی کا فریضہ ختم جاتا ہے، لیکن اُنہیں ثواب نہیں ملتا۔ مترجم] ہاں مصنف[یعنی: امام نووی] نے "شرح مسلم" میں ذکر کیا ہے کہ: "اگر قربانی کرنے والے شخص نے کسی دوسرے کو اپنے ساتھ ثواب میں شریک کر لیا تو یہ جائز ہے، اور ہمارا موقف بھی یہی ہے، اس کیلئے دلیل وہ روایت ہے کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منی میں رہتے ہوئے اپنی بیویوں کی طرف سے ایک گائے ذبح کی تھی، اس روایت کو بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے"انتہی

" نهاية المحتاج " (8/132)

اگر بیوی کے پاس ذاتی مال ہے، اور وہ اپنے اس مال سے قربانی کرنا چاہتی ہے تو اسے ایسا کرنے کی اجازت ہے، اور اگر اسکے کچھ بیٹوں نے قربانی کرنے کیلئے نقدی رقم دی ، اور اس نے قبول کرلی تو بھی اسکے لئے اس رقم سے قربانی کرنا جائز ہے۔

مزید معلومات کیلئے سوال نمبر: (45544) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب