منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

تارك نماز كے احكام

سوال

صحيح احاديث ميں صراحت كے ساتھ موجود ہے كہ تارك نماز كافر ہے اور اگر ہم حديث كے ظاہر كو ليں جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرنے والے كو وراثت كے سارے حقوق سے محروم كيا جائيگا، اور ان كے ليے قبرستان بھى عليحدہ بنايا جائيگا، اور ان كے ليے رحمت اور سلامتى كى دعاء بھى نہيں كى جائيگى، كيونكہ كافر كے ليے امن و سلامتى نہيں.
ہم يہ مت بھوليں كہ اگر ہم مومن اور غير مومنوں ميں سے نمازى مردوں كا سروے كريں تو چھ فيصد ( 6% ) سے زيادہ نہيں ہو گا، اور خاص كر عورتيں تو اس سے بھى كم.
چنانچہ شريعت اسلاميہ كى اس سلسلہ ميں كيا رائے ہے، اور تارك نماز كو سلام كرنے اور سلام كا جواب دينے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرنے والا مسلمان اگر نماز كى فرضيت كا انكار نہ كرے تو اس كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے.

بعض علماء اسے كافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار ديتے ہيں، اور وہ مرتد شمار ہو گا، اس سے تين يوم تك توبہ كرنے كا كہا جائيگا، اگر تو تين دنوں ميں اس نے توبہ كر لى تو بہتر وگرنہ مرتد ہونے كى بنا پر اسے قتل كر ديا جائيگا، نہ تو اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، اور نہ ہى اسے مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كيا جائيگا، اور نہ زندہ اور مردہ حالت ميں اس پر سلام كيا جائيگا، اور اس كى بخشش اور اس پر رحمت كى دعا بھى نہيں كى جائيگى نہ وہ خود وارث بن سكتا ہے، اور نہ ہى اس كے مال كا وارث بنا جائيگا، بلكہ اس كا مال مسلمانوں كے بيت المال ميں ركھا جائيگا، چاہے بے نمازوں كى كثرت ہو يا قلت، حكم ايك ہى ہے ان كى قلت اور كثرت سے حكم ميں كوئى تبديلى نہيں ہو گى.

زيادہ صحيح اور راجح قول يہى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہمارے اور ان كے درميان عہد نماز ہے، چنانچہ جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كيا "

اسے امام احمد نے مسند احمد ميں اور اہل سنن نے صحيح سند كے ساتھ بيان كيا ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:

" آدمى اور كفر و شرك كے درميان نماز كا ترك كرنا ہے "

اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں اس موضوع كى دوسرى احاديث كے ساتھ روايت كيا ہے.

اور جمہور علماء كرام كا كہنا ہے كہ اگر وہ نماز كى فرضيت كا انكار كرے تو وہ كافر ہے اور دين اسلام سے مرتد ہے، اس كا حكم وہى ہے جو پہلے قول ميں تفصيل كے ساتھ بيان ہوا ہے.

ليكن اگر وہ اس كى فرضيت كا انكار نہيں كرتا بلكہ وہ سستى اور كاہلى كى بنا پر نماز ترك كرتا ہے تو وہ كبيرہ گناہ كا مرتكب ٹھرے گا، ليكن دائرہ اسلام سے خارج نہيں ہو گا، اسے توبہ كرنے كے ليے تين دن كى مہلت دى جائيگى، اگر تو وہ توبہ كر لے الحمد للہ وگرنہ اسے بطور حد قبل كيا جائيگا كفر كى بنا پر نہيں.

تو اس بنا پر اسے غسل بھى ديا جائيگا، اور كفن بھى اور اس كى نماز جنازہ بھى پڑھائى جائيگى، اور اس كے ليے بخشش اور مغفرت و رحمت كى دعاء بھى كى جائيگى، اور مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن بھى كيا جائيگا، اور وہ وراث بھى بنے گا اور اس كى وراثت بھى تقسيم ہو گى، اجمالى طور پر اس پر زندگى اور موت دونوں صورتوں ميں گنہگار مسلمان كا حكم جارى كيا جائيگا.

ماخذ: ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 49 )