جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

نماز جمعہ كے بعد نماز ظہر كى ادائيگى كا حكم

22266

تاریخ اشاعت : 29-03-2006

مشاہدات : 7710

سوال

ايك بستى جہاں تقريبا تيس كے قريب لوگ مسجد ميں نماز جمعہ ادا كرتے، اور نماز جمعہ سے فارغ ہونے كے بعد نماز ظہر ادا كرتے ہيں، كيا ان كا يہ فعل جائز ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شرعى دلائل اور دين كے ضرورى علم سے يہ بات معلوم ہے كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے جمعہ كے روز ظہر كے وقت مقيم اور رہائشى اور آزاد اورمكلف مردوں پر ايك ہى فرض مشروع كيا جو كہ نماز جمعہ ہے، اس ليے جب مسلمان نماز جمعہ ادا كر ليں تو ان پر دوسرا فريضہ نہيں نہ تو ظہر كى نماز اور نہ كچھ اور، بلكہ اس وقت نماز جمعہ ہى فرض ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام اور ان كے بعد سلف صالحين بھى نماز جمعہ كى ادائيگى كے بعد كوئى اور فريضہ ادا نہيں كرتے تھے، بلكہ آپ كا اشارہ كردہ فعل تو كئى صديوں بعد پيدا ہوا، اور اس كے بدعت ہونے ميں كوئى شك و شبہ نہيں، اسى كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم نئے نئے كام ايجاد كرنے سے بچو كيونكہ ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3991 ).

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان كچھ اسطرح ہے:

" جس نے بھى ہمارے اس دين ميں نيا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ كام مردود ہے "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

اور اس ميں شك نہيں كہ نماز جمعہ كے بعد ظہر كى نماز ادا كرنا بدعت ہے، جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، تو اس طرح يہ مردود ہو گا اور يہ ان بدعات اور گمراہيوں ميں شامل ہو گا جس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اجتناب كرنے كا كہا، اور اہل علم نے اس پر تنبيہ كى ہے، ان علماء ميں شيخ جمال الدين قاسمى نے اپنى كتاب " اصلاح المساجد من البدع و العوائد " اور شيخ علامہ محمد احمد عبدالسلام نے اپنى كتاب: " السنن و المبتدعات " ميں كہا ہے كہ:

ہم ايسا احتياط اور نماز جمعہ صحيح نہ ہونے كى خدشہ كى بنا پر كرتے ہيں تو اس كا جواب يہ ہے كہ:

" اس قائل كو يہ كہا جائے كہ:

اصل تو يہى ہے كہ نماز جمعہ صحيح اور سلامت اور نماز ظہر كا عدم وجوب ہے، بلكہ جس پر نماز جمعہ فرض ہے اس پر نماز جمعہ كے وقت ميں نماز ظہر كى ادائيگى جائز نہيں، احتياط تو اس وقت مشروع ہے جب سنت مخفى ہو اور اس ميں كوئى شك و شبہ پايا جائے، ليكن اس طرح كا معاملہ تو شك و شبہ كا مقام نہيں، بلكہ دلائل سے ہميں معلوم ہے كہ:

واجب تو صرف نماز جمعہ ہى ہے، لہذا اس كے بدلے كچھ اور جائز نہيں اور نہ ہى اس كے صحيح ہونے كے ليے بطور احتياط اس كے ساتھ كسى اور چيز كا اضافہ ہو سكتا ہے، اور جس چيز كا اللہ تعالى نے حكم نہ ديا ہو اسے شريعت ميں اضافہ كر لينا اور نئى شريعت بنا لينا، اور اس وقت نماز ظہر ادا كرنا شرعى دلائل كے مخالف ہے، اس ليے اسے ترك كرنا اور اس سے بچنا واجب ہے.

اور اس كے فعل پر كوئى ايسى دليل نہيں جس پر اعتماد كيا جاسكے بلكہ يہ تو ان شيطانى وسوسوں ميں شامل ہوتا ہے جن سے وہ صراط مستقيم اور ہدايت سے روكتا ہے، اور ان كے ليے ايسے دين كو مشروع كرتا ہے جس كا اللہ تعالى نے حكم بھى نہيں ديا، جس طرح شيطان نے بعض لوگوں كے ليے وضوء ميں احتياط كو مزين اس طرح كر ديا ہے كہ وہ طہارت سے فارغ ہى نہيں ہوتے، جب بھى وہ فارغ ہونے لگتے ہيں تو شيطان وسوسہ ڈال ديتا كہ ابھى طہارت صحيح نہيں ہوئى، اور اس نے يہ يہ كام نہيں كيا.

اور اسى طرح بعض كو نماز ميں بھى وسوسہ ڈالتا ہے كہ جب وہ نماز كے ليے تكبير كہتا ہے تو شيطان وسوسہ ڈالتا ہے كہ اس نے تكبير نہيں كہى، اور شيطان اسے يہى وسوسہ ڈالتا ہے اور وہ تكبير پر تكبير كہتا چلا جاتا ہے حتى كہ اس كى پہلى ركعت ہى جاتى رہتى ہے، يا پھر اس ميں قرآت رہ جاتى ہے، يہ سب شيطانى ہتھكنڈے اور چاليں اور اس كے مكر اور مسلمان كے اعمال باطل كرنے پر شيطان كى حرص، اور اس كى تلبيس ہے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں اور سب مسلمانوں كو عافيت سے نوازے اور شيطان كى چالوں اور وسوسوں سے محفوظ ركھے، يقينا اللہ تعالى سننے والا قبول كرنے والا ہے.

خلاصہ يہ ہوا كہ:

نماز جمعہ كے بعد نماز ظہر كى ادائيگى بدعت و گمراہى ہے، جس كى اللہ تعالى نے اجازت نہيں دى، اس ليے اسے ترك كرنا اور اس لوگوں كو بچانا اور صرف نماز جمعہ پر اكتفا كرنا واجب ہے، جس پر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ اور تابعين عظام الى اور ان كى آج تك پيروى كرنے والے لوگ عمل كرتے رہے ہيں.

اور حق بھى يہى ہے، اس ميں كوئى شك وشبہ نہيں، امام مالك بن انس رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے:

( اس امت كے آخرى لوگ بھى اس سے ہى اپنى اصلاح كر سكتے ہيں جس سے امت كے پہلے لوگوں نے اصلاح كى تھى )

اور ان كے بعد اور پہلے آئمہ كرام نے بھى ايسے ہى كہا ہے. اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.

ماخذ: ديكھيں: كتاب: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ فضيلۃ الشيخ علامہ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ ( 12 / 363 )