منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

غير شرعى طريقہ سے ذبح كردہ گوشت حرام ہونے كى علت

22341

تاریخ اشاعت : 30-07-2008

مشاہدات : 5385

سوال

كيا غير شرعى طريقہ سے ذبح كردہ مثلا پسٹل سے مار كر يا جھٹكا وغيرہ طريقہ كے ذريعہ ذبح كردہ جانور كے حرام ہونے كا واضح سبب پايا جاتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

آپ كہہ ديجئے كہ جو احكام بذريعہ وحى ميرے پاس آئے ہيں ان ميں تو ميں كوئى حرام نہيں پاتا كسى كھانے والے كے ليے جو اس كو كھائے، مگر يہ كہ وہ مردار ہو يا كہ بہتا ہوا خون ہو يا خنزير كا گوشت ہو، كيونكہ وہ بالكل ناپاك ہے يا جو شرك كا ذريعہ ہو كہ غير اللہ كے ليے نامزد كر ديا گيا ہو، پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطيكہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ ہى حد سے تجاوز كرنے والا تو واقعى آپ كا رب غفور الرحيم ہے الانعام ( 145 ).

خون ايسى چيز ہے جو شرعى طريقہ سے ذبح كيے بغير گوشت كھانے كو حرام كرتا ہے، ہمارى سليم شريعت مطہرہ نے آخرى حد تك جتنا بھى ممكن ہو سكے اس خون سے ذبح كردہ جانور كو خون سے خالى كرنے كا قصد كيا ہے، اور يہ صرف اس ليے ہے كہ خون كھانے كے نتيجہ ميں ضرر اور نقصان ہوتا ہے.

اور يہ كوئى معقول يا مقبول بات نہ تھى كہ حتمى طور پر اسلام يہ شروط لاگو كرے تا كہ ذبح كردہ جانور كو خون سے شرعى ذبح كے ذريعہ خالى كيا جائے، اور پھر پلٹ كر جانور سے باہر اس بہنے والے خون كو پينا يا كھانا مباح كر دے، اس بنا پر يہ حتمى امر تھا كہ اسلام انسان كے ليے خون بطور غذا حرام كر دے.

بلكہ خون كى حرمت جانور ذبح كرنے اور اسے خون سے خالى كرنے كى ظاہر حكمت اور شرعى مقصد شمار ہوتا ہے، كيونكہ يہ كھانے والى اشياء ميں سب سے خبيث چيز ہے جس كے بارہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم حكم لائے ہيں:

اور وہ ان كے ليے پاكيزہ اشياء حلال كرتا ہے، اور ان پر خبيث اشياء حرام كرتا ہے الاعراف ( 157 ).

امام طبرى رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں لكھتے ہيں:

" يا دم مسفوح يعنى بہنے والا خون " اس كا معنى يہ ہے كہ يا بہنے والا سائل خون، اور اللہ تعالى نے اپنے بندوں كو اس كى حرمت معلوم كرانے ميں جو شرط ركھى ہے وہ يہ كہ وہ خون بہنے والا ہو، دوسرا نہيں، يہ اس كى واضح دليل ہے كہ جو خون مسفوح يعنى بہنے والا نہ ہو وہ حلال ہے اور نجس نہيں.

عكرمہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: اگر يہ آيت نہ ہوتى تو مسلمان رگوں ميں بھى پيچھا كرتے جو يہوديوں نے نہيں كيا، اور ماوردى بيان كرتے ہيں: غير مسفوح يعنى بہنے والے خون كے علاوہ دوسرا خون اگر تو وہ رگوں ميں اور جما ہوا ہو مثلا جگر اور تلى تو يہ حلال ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہمارے ليے دو مردار اور دو خون حلال كيے گئے ہيں.... " الحديث.

بہنے والے خون كى حرمت ميں راز آج اہل طب اور ميڈيكل، اور ليبارٹرى ٹيسٹ كرنے اور دقيق علم كائنات ركھنے والوں كے ہاں معروف ہے كہ خون جراثيم كى نشو و نما كے ليے سب سے بہتر چيز ہے، اس ليے اگر كوئى شخص خون پيتا ہے تو اس نے وہ كھيت نوش كر ليا جس ميں جراثيم نشوونما پائينگے اور كثرت سے پيدا ہونگے اور ہلاك كرنے والا زہر نكالينگے، اور يہ معلوم ہے كہ جب معدہ كے امراض پيدا ہوتے ہيں تو اس كے نتيجہ ميں جراثيم كے حملے كتنے اثرا انداز ہوتے ہيں.

اور اگر يہ كہا جائے كہ خون كو آگ پر پكا كر كھانا بلاشك اس بكٹيريا اور ميكروباٹ كو قتل اور ختم كرنے كا باعث ہے، اور اسے بالكل ختم كرنے كے ساتھ نفع مند غذائيت كو باقى ركھتا ہے ؟

تو اس كا جواب يہ ہے:

اس زہر ميں ايسے بھى ہيں جو كھولنے اور پكانے سے بالكل تبديل نہيں ہوتے اور اسے جسم كے ليے فائدہ مند نہيں بناتے، اور كچھ زہر تو ايسے بھى ہيں جو بالكل تبديل ہى نہيں ہوتے، بلكہ پكانے كے بعد بھى وہ ہلاك كرنے كى صلاحيت باقى ركھتے ہيں، بلكہ يہ ممكن ہے كہ وہ حرارت كے اثر سے اس سے بھى زيادہ ہولناكى اختيار كر جائيں.

اور ممكن ہے خون نوش كرنے والا جس فائدہ كى توقع كر رہا ہے كہ يہ مادہ غذائيت تقويت ديتا ہے، تو يہ اس كى خام خيالى ہے اور يہ فائدہ منعدم ہے، جب خون كى تكوين اور طبيعت كو ديكھيں تو يہ معلوم ہوتا ہے كہ اس كو ہضم كرنا بہت مشكل ہے، وہ اس طرح كہ اگر اس كى قليل سى مقدار بھى معدہ ميں چلى جائے تو انسان فورا قئى كرنا شروع كر ديتا ہے، يا پھر يہ پاخانہ كے راستے بغير ہضم ہوئے سياہ مادے كى صورت ميں خارج ہو جاتا ہے.

اور اس كے ہضم ہونے ميں مشكل اور اسے سياہ پاخانہ كے رنگ ميں تبديل ہونے كا سبب سرخ مادہ ( ہيموجلوبين ) ہے جو اساسى طور پر لوہے كے عنصر سے بنتا ہے پايا جاتا ہے، اور ہضم كے عمل كے دوران اور اس پر وقت گزرنے كى وجہ سے اس ميں تعفن پيدا ہو جاتا ہے جس سے بھى جسم كو ضرر اور نقصان ہوتا ہے.

اور اگر يہ كہا جائے كہ پكانے سے بھى خون تحليل ہو كر آسانى سے ہضم ہو جاتا ہے، اور غذائيت كا فائدہ ديتا ہے تو اس كا جواب يہ ہے:

خون پكانے اور ابالنے سے اس ميں پائے جانے والا تمام مواد جم جاتا ہے، اور اس كى بنا پر وہ اور بھى سخت اور مشكل ہو جاتا ہے، اور پہلے سے زيادہ نقصاندہ اور كم فائدہ بن جاتا ہے.

سينكڑوں بار علمى سرچ كرنے اور خون كے ليبارٹرى ٹيسٹ اور اس كے دقيق پوشيدہ راز معلوم كرنے بہت وسعت پيدا ہونے سے يہ بغير كسى اختلاف كے يہ واضح ہوا ہے كہ اس پر ميڈيكل كے سارے افراد متفق ہيں كہ خون پينے يا اسے پكانے يا استعمال كرنے كى بنا پر صحت كو نقصان ہوتا ہے، اور خون پينا سم قاتل كى حيثيت ركھتا ہے جو درج ذيل علمى حقائق سے سامنے آئے ہيں:

اول:

خون اپنى آخرى تركيب ميں جو اساسى عنصر سے بنتا ہے اور وہ عنصر پانى جو نوے فيصد ( 90 % ) كے تناسب سے سائل مادے كى شكل ميں پايا جاتا ہے جس ميں خون كے ذرات ( جو پلازم كے نام سے معروف ہيں ) اور باقى خون كے خليہ اور دوسرے عناصر پر مشتمل ہوتا ہے.

اور اس بنا پر كہ جو شخص خون اور دوسرے عناصر پينا چاہے، اور اس وجہ سے كہ جو خون پينا چاہے، يا اسے پكا كركھانا چاہے تو وہ ايك عالى يا عام قسم كى غذائى قيمت كى بنا پر ايسا كرتا ہے، تو يہ علمى حقيقت اس كا ثبوت پيش كرتى ہے كہ اسے دم مسفوح كى بہت زيادہ مقدار نوش كرنى چاہيے تا كہ وہ خونى پروٹين كى قليل سى مقدار كے ساتھ فولاد كى بھى تھوڑى سى مقدار حاصل كرسكے، اس طرح كہ اس سے پيدا ہونے والے خطرات كا مقابلہ كرنے كا مستحق نہيں.

يعنى مختصر طور پر يہ كہ: جو تصور كيا جاتا ہے خون اس كے برعكس ہے، اس ميں غذائى اعتبار سے بہت ہى كم عنصر پايا جاتا ہے، اس بنا پر خون كو شرعا حرام كرنا خون كے رئيسى عناصر ميں سے ايك عنصر غذائيت سے مسلمانوں كو محروم كرنے كا باعث نہيں بنتا.

دوم:

اس سے بڑى مصيبت يہ ہے كہ خونى پروٹين كى يہ مقدار بھى شديد قسم كے زہر كے ساتھ مخلوط ہو كر آتى ہے جو انتہائى درجہ كى نقصاندہ ہے، جس كو استعمال كرنے سے جان كو خطرہ ميں ڈالنے كےمترادف ہے.

اور ان زہريلے عناصر ميں سب سے پہلا عنصر وہ قاتل گيس ہے جس سے خون بھرا ہوتا ہے، اور وہ گيس دوسرى كاربن ڈائى اكسائڈ ہے، جو جسم كى سارى رگوں ميں خون كے ساتھ دوڑتى ہے.

اور جب خون پينے والا وہ خون حيوان سے ليتا ہے تو وہ اس خون كو پيئے يا پھر پكا كر كھائيگا جس ميں كاربن ڈائى اكسائڈ گيس جو قاتل اور دم گھٹنے والى گيس ہے، اور وہ جانور جو گلا دبا كر مرا ہو اس كے خون ميں يہ گيس تو اور بھى زيادہ جمع ہوتى ہے اور اس كے قاتل اثرات كى بنا پر موت واقع ہوتى ہے.

آپ كے ليے يہ مخفى نہيں رہنا چاہيے كہ بار بار تكرار كے ساتھ خون پينے والا عادى شخص اس گيس كو اپنے اندر جمع كر رہا ہے، جو گيس كى مقدار كے حساب سے اس كے ليے نقصاندہ ہے، اور جس قدر پينے والے كے جسم كے اندر تاثير كى قابليت ہو گى اسى طرح اسے ضرر بھى زيادہ ہو گا.

عزيز قارئين كرام:

يہاں ہم نے جو ذكر كيا ہے وہ تو صرف پينے يا اسے پكا كر كھانے والے پر خون كے عناصر كے اثرات كے خطرات ہيں، جيسا كہ ہم نے بيان كيا ہے كہ كچھ ايسے خطرات اور نقصانات بھى ہيں جو انتہائى خطرناك ہيں جن كا ڈائريكٹ اثر ان عوامل پر ہوتا ہے جو اللہ تعالى نے خون ميں پيدا كيے ہيں اور حيوانات كے جسم ميں وظائف كى ادائيگى ميں ممد و معاون بنتے ہيں، اور ان كى ادائيگى اسى صورت ميں ہو سكتى ہے جب وہ سائل اور جارى ہو.

خون پينے كے خطرناك انجام ميں سے اگر ہم صرف ايك پر كفائت كريں تو صحت و علم كى قدر كرنے والى امت كے ليے اس خون كى شرعى حرمت كے ليے يہى ايك انجام كافى ہے، چاہے وہ امت كافر ہى ہو:

اللہ تعالى جسے چاہتا ہے حكمت عطا كرتا ہے، اور جسے وہ حكمت عطا كرے تو اسے بہت سارى خير كثير عطا كر دى گئى، اور صرف عقل والے ہى نصيحت پكڑتے ہيں البقرۃ ( 269 ).

تو پاك ہے وہ ذات جس نے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو وہ كچھ سكھايا جسے وہ نہيں جانتے تھے، اور اللہ تعالى نے اس كو بطور امتنان بيان كرتے ہوئے فرمايا:

اور اللہ تعالى نے آپ پر كتاب اور حكمت نازل فرمائى، اور آپ كو وہ كچھ سكھايا جو تم نہيں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ تعالى كا بہت بڑا عظيم فضل تھا النساء ( 113 ).

اور پاك ہے وہ ذات جس نے دنيا كو يہ صحيح اور مستقيم دين اسلام عطا كيا جس نے كوئى چھوٹى اور كوئى بڑى چيز نہيں چھوڑى بلكہ اسے لوگوں كے ليے پورے صحيح منہج اور صراط مستقيم كے ساتھ بيان كر ديا، اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يقينا تمہارے پاس اللہ تعالى كى جانب سے نور اور واضح كتاب آ چكى، اللہ تعالى جس كے ذريعہ سے انہيں جو اللہ كى خوشنودى چاہتے ہوں سلامتى كى راہيں بتلاتا ہے، اور انہيں اپنى توفيق سے اندھيروں سے نكال كر نور كى طرف لاتا ہے، اور راہ راست كى طرف ان كى راہنمائى كرتا ہے المآئدۃ ( 15 - 16 ).

ماخذ: اعداد: استاذ ڈاكٹر توفيق علوان - ديكھيں: ملجۃ الدعوۃ عدد نمبر ( 1811 ) صفحہ ( 64 )