منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

بنكوں ميں رقم ركھنے كا حكم، اور فوائد كا كيا كريں

سوال

ہم اپنى رقم بنكوں ميں ركھتے ہيں... بنك ہميں جو فوائد ديتے ہيں ہم اس كا كيا كريں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فوائد كے بدلے بنكوں ميں مال ركھنا سود ہے، اور سود كبيرہ گناہ ميں شامل ہوتا ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا ارشاد ہے:

اے ايمان والو اللہ تعالى سے ڈرو اور اس كا تقوى اختيار كرتے ہوئے جو سود باقى بچا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم پكے اور سچے مومن ہو، اور اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى طرف سے اعلان جنگ ہے، اور اگر تم توبہ كر لو تو تمہارے ليے تمہارے اصل مال ہيں نہ تو تم ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائےگا البقرۃ ( 278 - 279 ).

اور اگر مسلمان شخص بنك ميں مال ركھنے پر مجبور ہو، يعنى بنك ميں ركھنے كے علاوہ اس كے پاس مال كى حفاظت كا كوئى وسيلہ نہ ہو تو ان شاء اللہ دو شرطوں كے ساتھ ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں:

1 - اس كے بدلے ميں كوئى فائدہ حاصل نہ كرے.

2 - بنك كا سو فيصدى سودى كاروبار اور لين دين نہ ہو، بلكہ اس بنك كے مباح اور جائز كام ہوں جہاں وہ اموال كى انويسمنٹ اور سرمايہ كارى كرے.

آپ سوال نمبر ( 22392 ) اور ( 49677 ) كے جوابات كا مراجع اور مطالعہ ضرور كريں.

اصحاب مال كھاتے داروں كو بنك جو سودى فوائد كى شكل ميں مال ديتا ہے اس سے استفادہ كرنا حلال نہيں، بلكہ مختلف قسم كے بھلائى اور خير كے كاموں ميں صرف كر كےاس سے خلاصى اور چھٹكارا حاصل كرنا ضرورى اور واجب ہے.

مستقل فتوى كيمٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

بنك ميں رقم جمع كروانے والوں كو بنك جو نفع ديتا ہے وہ سود شمار ہوتا ہے، اس كے ليے ان فوائد سے نفع حاصل كرنا حلال نہيں، اسے چاہيے كہ وہ سودى بنكوں ميں رقم جمع كروانے پر اللہ تعالى كے سامنے توبہ كرے اور اس نے بنك ميں جو رقم جمع كروا ركھى ہے اور جو نفع ہے اسے نكلوا لے، اصل رقم اپنے پاس ركھے اور اس پر جتنا زيادہ ہے وہ نيكى كے كاموں اور فقراء و مساكين اور اصلاح كے كاموں وغيرہ ميں صرف كردے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 2 / 404 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے:

اور بنك نے جو آپ كو نفع ديا ہے وہ بنك كو واپس نہ كريں اور نہ ہى خود كھائيں، بلكہ اسے نيكى اور بھلائى كے كاموں ميں صرف كريں مثلا فقراء اور مساكين پر صدقہ و خيرات اور بيت الخلاء كى تعمير و مرمت اور مقروض لوگ جو اپنے قرضے ادا كرنے سے عاجز ہيں كے قرضے ادا كر كے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 407 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب