منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

حج كا طريقہ

سوال

ميں حج كا طريقہ تفصيلامعلوم كرنا چاہتا ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فريضہ حج افضل ترين عبادت اور عظيم ترين اطاعت ميں شامل ہونے كے ساتھ ساتھ دين اسلام كا ايك عظيم ركن بھي ہے جس دين كولے كر محمد صلى اللہ عليہ وسلم مبعوث كئے گئے اسي دين اسلام كے علاوہ بندے كا دين بھي كامل نہيں ہوتا .

اور جب تك عبادت ميں دو چيزيں نہ پائي جائيں اس وقت تك اس عبادت كے ساتھ اللہ تعالى كا تقرب بھي حاصل نہيں ہوتا ، وہ اشياء مندرجہ ذيل ہيں :

پہلي : اخلاص : كہ وہ عبادت اللہ تعالى كے ليے خالص ہو اور اللہ تعالى كي رضا اور آخرت سنوارنے كے ليے كي جائے اور اس ميں كسي بھي قسم كي رياء دكھلاوا اور دنياوي طمع ولالچ شامل نہ ہو .

دوسري : اس عبادت ميں عملي اور قولي طور پر نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي اتباع وپيروي پائي جائے , اور نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي اتباع وپيروي اس وقت تك نہيں ہو سكتي جب تك رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي سنت معلوم نہ ہو

اس ليے جوشخص بھي اللہ تعالى كي _ حج يا كوئي اور _ عبادت كرنا چاہے اس كے ليے ضروري اورواجب ہے كہ وہ اس ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ سيكھے تاكہ اس كا عمل سنت كے مطابق وموافق ہو .

ہم مندرجہ ذيل سطور ميں سنت كے مطابق حج كا طريقہ مختصرطور پر بيان كرتے ہيں :

عمرہ كا طريقہ سوال نمبر ( 31819 ) كے جواب ميں بيان كيا جا چكا ہے عمرے كا طريقہ معلوم كرنے كے ليے اس جواب كا مطالعہ كريں .

حج كي اقسام :

حج كي تين اقسام ہيں : حج تمتع ، حج افراد ، حج قران

حج تمتع :

حج تمتع يہ ہے كہ : حج كے مہينوں ميں صرف عمرہ كا احرام باندھا جائے ( شوال ، ذوالقعدہ ، اور ذوالحجہ حج كے مہينے ہيں ، ديكھيں : شرح الممتع 7/62 ) لھذا جب حاجي مكہ پہنچے اور عمرہ كا طواف اور سعي كركے سرمنڈا لے يا پھر بال چھوٹے كروالے تو وہ احرام كھول دے اور جب يوم ترويہ يعني آٹھ ذوالحجہ والے دن صرف حج كا احرام باندھے اور حج كے سب اعمال مكمل كرے گا ، يعني حج تمتع كرنے والا عمرہ بھي مكمل كرے گا اور اسي طرح حج بھي .

حج افراد :

حج افراد يہ ہے كہ صرف اكيلے حج كا احرام باندھا جائے اور جب مكہ مكرمہ پہنچے تو طواف قدوم اور حج كي سعي كرلے نہ تو اپنے سر كومنڈائے اور نہ ہي بال چھوٹے كروائے اور نہ ہي احرام كھولے گا بلكہ وہ عيد كے دن جمرہ عقبہ كورمي كرنے تك اپنے اسي احرام ميں رہے گا , اور اگر وہ حج كي سعي كو طواف حج يعني طواف افاضہ كے بعد تك مؤخر كرنا چاہے تو اس ميں بھي كوئي حرج نہيں وہ ايسا كرسكتا ہے .

حج قران :

حج قران يہ ہے كہ : حج اور عمرہ دونوں كا احرام باندھا جائے يا پھر پہلے عمرہ كا احرام باندھے اور پھر بعد ميں عمرہ كا طواف كرنے سے قبل اس پر حج كو بھي داخل كردے ( وہ اس طرح كہ وہ اپنے طواف اور سعي كوحج اور عمرہ كي سعي كرنے كي نيت كرے ) .

حج قران اور حج افراد كرنے والے شخص كے اعمال حج ايك جيسے ہي ہيں صرف فرق يہ ہے كہ حج قران كرنے والے پر قرباني ہے اور حج افراد كرنے والے پر قرباني نہيں .

ان تينوں اقسام ميں افضل قسم حج تمتع ہے اور يہي وہ قسم ہے نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كرام كو جس كا حكم ديا اور اس پر انہيں ابھارا ، حتى كہ اگر كوئي انسان حج قران يا حج افراد كا احرام باندھے تواس كے ليے بہتر يہي ہے كہ وہ اپنے احرام كوعمرہ كا احرام بنا لے اور عمرہ كرنے كے بعداحرام كھول كرحلال ہو جائے تا كہ وہ حج تمتع كرسكے اگرچہ وہ طواف قدوم اور سعي كے بعد ہي كيوں نہ ہو .

اس ليے كہ نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجۃ الوداع كے سال جب طواف اور سعي كرلي اور آپ كےساتھ صحابہ كرام بھي تھے تورسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جس كے ساتھ بھي قرباني نہ تھي اسےحكم ديا كہ وہ اپنے احرام كوعمرہ كےاحرام ميں بدل لے اور بال چھوٹے كروا كر حلال ہو جائے اور فرمايا :

اگر ميں اپنے ساتھ قرباني نہ لاتا تو ميں بھي وہي كام كرتا جس كا تمہيں حكم دے رہا ہوں .

احرام :

يہاں احرام كے وہ مسنون كام غسل ، اور خوشبو اور نماز وغيرہ پر كرے جن كا ذكر اس سوال نمبركے جواب ميں گزر چكا ہے جس كي طرف ابھي اوپر اشارہ كيا گيا ہے اور پھر نماز يا سواري پر سوار ہونے كے بعد احرام باندھے (يعني احرام كي نيت كرے )

پھر اگر اس نےحج تمتع كرنا ہو تو وہ اس طرح كہے : لبيك اللھم بعمرۃ .

اور اگر حج قران كرنا ہو تو يہ كہے : لبيك اللھم بحجۃ وعمرۃ .

اوراگر حج مفرد كرنا ہو تو اس طرح كہے : لبيك اللھم حجا .

اور پھر يہ كہے : اللھم ھذہ حجۃ لارياء فيھا ولا سمعۃ . (اے اللہ اس حجں نہ تو رياء كاري ہے اورنہ ہي دكھلاوا )

پھر اس كے بعد تلبيہ كہے جس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كہا تھا اس كے الفاظ يہ ہيں : ( لبيك اللهم لبيك ، لبيك لا شريك لك لبيك ، إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك ) ميں حاضر ہوں اے اللہ ميں حاضر ہوں ، ميں حاضر ہوں تيرا كوئي شريك نہيں ميں حاضر ہوں ، يقينا تعريفات اور نعمتيں تيري ہي ہيں اور تيري ہي بادشاہي ہے تيرا كوئي شريك نہيں .

اور نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے تلبيہ ميں يہ الفاظ بھي شامل تھے لبيك إله الحق اے الہ حق ميں حاضر ہوں , اور ابن عمر رضي اللہ تعالى عنھما اپنے تلبيہ ميں يہ الفاظ زيادہ كيا كرتے تھے :( لبيك وسعديك والخير بيديك والرغباء إليك والعمل ) ميں حاضر ہوں اور بھلائي تيرے ہاتھ ميں ہے اورتيري رغبت ہے اورعمل بھي تيرے ليے .

آدمي كوتلبيہ كہتے ہوئے آواز بلند كرني چاہيے ليكن عورت آواز بلند نہ كرے بلكہ صرف اتني آواز سے تلبيہ كہے جو اس كے ساتھ والا ہي سن سكے ليكن اگر اس كے قريب بھي كوئي غير محرم ہو تو تلبيہ خاموشي سے كہے گي .

- اور اگر احرام باندھنے والے كو كسي روكنے والي چيز كا خوف ہو جواسے حج مكمل كرنے سے روك دے ( مثلا بيماري يا دشمن يا روكا جانا يا اس كے علاوہ كوئي اور چيز ) تو اس كےليے احرام باندھتے وقت شرط لگانا ضروري ہے لھذا وہ مندرجہ ذيل دعا پڑھے :

(إن حبسني حابس فمحلي حيث حبستني) اگرمجھےكسي روكنےوالے روك ليا توميرے حلال ہونےكي جگہ وہي ہوگي جہاں مجھے روك دے .

يعني اگرمجھے بيماري يا تاخير وغيرہ نے حج مكمل كرنے سے روك ديا توميں اپنےاحرام سے حلال ہو جاؤں گا - اس ليےكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ضباعۃ بنت زبير رضي اللہ تعالى عنھما جب احرام كے وقت وہ بيماري كي حالت ميں تھيں تو انہيں حكم ديا تھا كہ وہ احرام كومشروط كرليں آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا : تم جواستثناء كروگي وہ تيرے رب پرہوگا . صحيح بخاري حديث نمبر( 5089 ) صحيح مسلم ( 1207 )

توجب كوئي شخص احرام كومشروط كرلے اور حج كرنےميں اس كےليے كوئي مانع پيدا ہوجائے تووہ اپنے احرام سے حلال ہو جائے اور اس پر كچھ بھي لازم نہيں آئےگا .

اور جس شخص كو كسي روكنےوالي چيزكا خدشہ نہ ہو اس كے لائق نہيں كہ وہ احرام كومشروط كرے اس ليے كہ نہ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروط كيا اور نہ ہي ہر ايك كومشروط كرنے كا حكم ديا بلكہ صرف بيماري كي وجہ سے ضباعۃ بنت زبير رضي اللہ تعالى عنھما كو ہي حكم ديا .

اور محرم شخص كے ليے ضروري ہےكہ وہ تلبيہ كثرت سے كہے خاص كرحالات اور اوقات كي تبديلي ميں مثلا جب كسي بلند جگہ پر چڑھے يا ڈھلوان سے نيچے اترے يا رات اور دن شروع ہو اور تلبيہ كہنے كے بعد اللہ تعالى كي رضا وخوشنودي اورجنت طلب كرے اور اللہ تعالى كي رحمت كےساتھ آگ سے پناہ طلب كرتا رہے .

اورعمرہ ميں احرام باندھنے سےليكر طواف كي ابتداء تك تلبيہ كہنا مشروع ہے .

اورحج ميں احرام باندھنے سےليكر عيد كےدن جمرہ عقبہ كوكنكرياں مارنےتك تلبيہ كہنا مشروع ہے .

مكہ مكرمہ ميں داخل ہونے كے ليے غسل كرنا :

اگرحاجي كےليے ميسر ہوسكے تو مكہ مكرمہ كے قريب پہنچ كر مكہ داخل ہونے كے ليےغسل كرے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مكہ مكرمہ داخل ہوتےوقت غسل فرمايا تھا . صحيح مسلم ( 1259 )

پھرجب مسجدحرام ميں داخل ہونے لگے توداياں پاؤں اندر ركھے اور يہ دعا پڑھے : ( بسم الله والصلاة والسلام على رسول الله اللهم اغفر لي ذنوبي وافتح لي أبواب رحمتك أعوذ بالله العظيم وبوجهه الكريم وبسلطانه القديم من الشيطان الرجيم ) اللہ تعالى كےنام سے اور اللہ تعالى كےرسول صلى اللہ عليہ وسلم پردرود وسلام ہوں اے اللہ ميرے گناہ بخش دے اورميرے ليے اپني رحمت كے دروازے كھول دے , ميں عظيم اللہ اور اس كے كريم چہرے اور اس كي قديم بادشاہي كےساتھ شيطان مردود سے پناہ مانگتا ہوں .

پھر طواف كرنے كےليے حجراسود كےپاس جائے اور وہاں سے طواف شروع كرے ... طواف كرنے كا طريقہ سوال نمبر ( 31819 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے .

پھرطواف اور دوركعت ادا كرنےكے بعد سعي كے ليے صفا مروہ پر جائے اور صفامروہ ميں سعي كرنے كا طريقہ سوال نمبر ( 31819 ) كے جواب ميں بيان كيا جاچكا ہے .

حج تمتع كرنےوالا عمرہ كي سعي كرے گا ليكن حج مفرد اور حج قران كرنے والا شخص حج كي سعي كرينگے اور يہ دونوں اگرچاہيں تو طواف افاضہ كےبعد تك بھي اس سعي كومؤخر كرسكتےہيں .

سرمنڈانا يا بال چھوٹے كروانا :

حج تمتع كرنےوالاشخص جب سعي كےسات چكرمكمل كرچكے اگر تووہ مرد ہے وہ اپنا سرمنڈائے يابال چھوٹے كروائے يہ ضروري ہے كہ سركے مكمل بال منڈوائے جائيں اور اسي طرح مكمل سر كے بال كٹوانا ضروري ہيں ، ليكن بال كٹوانے سے سرمنڈانےكي فضيلت زيادہ ہے اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سرمنڈانے والوں كےليے تين بار اور بال چھوٹے كروانے والوں كے ليے ايك بار دعا فرمائي ہے . صحيح مسلم ( 1303 )

ليكن اگرحج بالكل قريب ہو اور بال اگنے كے ليے وقت نہ ہو تو اس حالت ميں بال چھوٹے كروانا افضل ہيں تاكہ بال باقي رہيں اور انہيں حج ميں منڈوا سكے اس كي دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجۃ الوداع كےموقع پر صحابہ كرام كوعمرہ ميں بال چھوٹے كروانے كاحكم ديا تھا اس ليے كہ وہ چار ذوالحجۃ كے دن صبح كے وقت مكہ پہنچے تھے , اور عورت انگلي كے پورے كےبرابر اپنے سركےبال كاٹےگي .

ان اعمال كے كرنے سے حج تمتع كرنےوالے شخص كا عمرہ مكمل ہوجائے گا اور وہ اس كےبعد مكمل طور پرحلال ہے ، وہ وہي اعمال كرے گا جوباقي حلال اشخاص كرتےہيں لباس پہنے اور خوشبو استعمال كرے اور بيوي كےپاس بھي جاسكتا ہے وغيرہ .

ليكن حج قران اورحج مفرد كرنے والے نہ تو سرمنڈائيں اور نہ ہي سركےبال چھوٹے كروائيں گے اور نہ ہي وہ اپنے احرام سے حلال ہونگے بلكہ وہ عيد كےدن تك رمي جمرۃ تك احرام ميں ہي باقي رہيں گے اور جمرۃ عقبہ كورمي كرنے كے بعد سرمنڈا يا بال چھوٹے كروا كراحرام كھوليں گے .

پھر جب يوم الترويہ جوكہ ذوالحجہ كي آٹھ تاريخ كے دن حج تمتع كرنے والا چاشت كے وقت مكہ ميں اپني رہائش سےہي احرام باندھےگا اور احرام كے وقت اس كےليے اس طرح خوشبو لگانا اور غسل كرنا اورنماز ادا كرنا مستحب ہے جس طرح عمرہ كے طواف ميں كيا تھا تو اس طرح وہ حج كے احرام كي نيت كرے اور تلبيہ كہتےہوئے كہے ( لبيك اللهم حجاً ) اے اللہ ميں حج كے ليے حاضر ہوں .

اوراگر اسے كسي روكنے والي چيز كا خوف ہوكہ وہ اسے حج مكمل كرنے سے روك دے گي تووہ يہ كلمات ادا كرے : ( وإن حبسني حابس فمحلي حيث حبستني ) اور اگر مجھے كسي روكنے والي چيز نے روك ديا تو جہاں تومجھے روكے وہي ميرے حلال ہونےكي جگہ ہے .

اور اگركسي روكنے والي چيز كا خدشہ نہ ہو تو پھر وہ احرام كو مشروط نہ كرے , اس كےليے عيد كےدن جمرۃ عقبہ كورمي كرنے تك بلند آواز سےتلبيہ كہنا مستحب ہے .

مني كي طرف روانگي :

پھر مني روانہ ہو اور ظھر عصر مغرب عشاء اور فجر كي نماز قصر كركے ادا كرے ليكن جمع نہيں كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم منى ميں نماز قصر توكيا كرتے تھے ليكن آپ نے وہاں نماز جمع نہيں كي .

قصر يہ ہے كہ چار ركعتي نماز كودو ركعت ادا كرے ، مني عرفات اور مزدلفہ ميں اھل مكہ اور باقي سب لوگ بھي نماز قصر كر كےہي ادا كرينگے اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےحجۃ الوداع كے موقع پر لوگوں كونماز پڑھائي اس موقع پر آپ كے ساتھ اھل مكہ بھي تھے ليكن آپ نے انہيں نماز پوري پڑھنے كا حكم نہيں ديا لھذا اگر ان پر پوري نماز ادا كرنا واجب ہوتي تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں نماز پوري كرنے كاحكم ديتےجس طرح انہيں فتح مكہ كےموقع پر حكم ديا تھا .

ليكن جبكہ مكہ كي آبادي بڑھ چكي ہے اور مني بھي اسي ميں شامل ہوكراس كےمحلوں ميں سے ايك محلہ بن چكا ہے لھذا اھل مكہ وہاں قصر نہيں كرينگے .

ميدان عرفات كي طرف روانگي :

يوم عرفہ كوجب سورج طلوع ہو چكے تو حاجي مني سے عرفات كي طرف روانہ ہو اور اگر ميسر ہو سكے تو ظھر تك وادي نمرہ ميں ہي پڑاؤ كرے ( ميدان عرفات كےساتھ ہي جگہ كونمرہ كہا جاتا ہے ) اور اگر ميسر نہ ہو تو كوئي حرج نہيں اس ليے كہ وادي نمرہ ميں پڑاؤ كرنا سنت ہے نہ كہ واجب .

اورجب سورج ڈھل جائے ( يعني نماز ظھر كا وقت شروع ہوجائے ) تو دو دو ركعت كركے ظھر اور عصر كي نماز جمع تقديم كركے ادا كرے جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كيا تھا تا كہ وقوف اور دعاء كےليے لمبا وقت ميسر ہو .

پھرنماز ادا كرنےكے بعد اللہ تعالى كے ذكر اوردعا ميں مشغول رہے اور اللہ تعالى كےسامنےعاجزي وانكساري بجالائے اور گڑگڑائے اورھاتھ بلند كركے قبلہ رخ ہو كردعا كرے اگرچہ جبل عرفات ( جبل رحمت ) اس كے پچھلي جانب ہي كيوں نہ ہو اس ليے كہ قبلہ رخ ہونا سنت ہے نہ كہ پہاڑ كي جانب رخ كرنا ، نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پہاڑ كے قريب وقوف كيا اور فرمايا :

ميں نے يہاں وقوف كيا ہے اور ميدان عرفات سارا ہي وقوف كرنے كي جگہ ہے .

اس عظيم وقوف ميں نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي اكثردعا يہ ہو ا كرتي تھي :

( لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير ) اللہ كے علاوہ كوئي اورعبادت كے لائق نہيں وہ اكيلا ہے اس كا كوئي شريك نہيں اسي كا بادشاہي ہے اور اسي كےليے حمد وتعريف ہے وہ ہر چيز پر قادر ہے .

اگر وہ دعا كرتے ہوئے اكتا جائے اور اپنے دوست واحباب سے نافع بات چيت كركےيا پھر جومفيد قسم كي كتاب ميسر ہو پڑھ كردل كوبہلائے تويہ بہتر ہے خاص كروہ كتاب جواللہ تعالى كےكرم وفضل اور اس كے عطاء وہبہ كے بارہ ميں ہو تاكہ اس دن اس كي اميد اور زيادہ قوي ہوسكے، اس كے بعد اسے پھر دوبارہ اللہ تعالى كي جانب عاجزي وانكساري اور دعاء كي جانب لوٹ آنا چاہيے اور دن كے آخرتك دعاء كرنے كو موقع غنيمت جاننا چاہيے اس ليے كہ سب سےبہترين دعاء يوم عرفہ كي دعا ہے .

مزدلفہ كي جانب روانگي :

جب سورج غروب ہوجائے تو حاجي مزدلفہ كي جانب روانہ ہو ... اور جب مزدلفہ پہنچے تووہاں مغرب اور عشاء كي نمازيں ايك اذان اور دو اقامتوں كے ساتھ باجماعت ادا كر ے .

ليكن اگر اسے يہ خدشہ ہو كہ وہ آدھي رات كے بعد مزدلفہ پہنچے گا تواسے راستے ميں ہي نماز ادا كرليني چاہيے اور آدھي رات كے بعدتك نماز ميں تاخير كرنا جائز نہيں ہے .

اور مزدلفہ ميں ہي رات بسر كرے اورجب فجرطلوع ہو تو اول وقت ميں ہي اذان اور اقامت كے ساتھ باجماعت نماز ادا كرے اور پھر مشعر الحرام كي جانب جائے ( مشعرحرام كي جگہ اس وقت مزدلفہ ميں مسجد موجود ہے ) وہاں اللہ تعالى كي بڑائي بيان كرتے ہوئے تكبريں كہے اور اللہ تعالي كي توحيد بيان كرتے ہوئے اچھي طرح روشني ہونے تك دعا مانگتا رہے ( يعني سورج طلوع ہونے سے قبل والي روشني كو اسفار كہا جاتا ہے ) اگر مشعر الحرام جانا ميسر نہ ہو سكے تو حاجي كواپني جگہ پر ہي دعا كرني چاہيے اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے : ميں نے يہاں وقوف كيا ہے اور جمع ( يعني مزدلفہ ) سارے كا سارا ہي وقوف كرنے كي جگہ ہے .

اورحاجي كو چاہيے كہ وہ ذكرواذكار اوردعاء كي حالت ميں قبلہ رخ ہو اور اپنے ہاتھ اٹھا كردعا كرے .

منى كي جانب روانگي :

جب اچھي طرح سفيدي ہو جائے تو سورج طلوع ہونےسے قبل ہي مني كي جانب روانہ ہو اور وادي محسر ( يہ مزدلفہ اورمنى كے مابين ہے ) ميں تيزي كے ساتھ چلے .

جب منى پہنچے تو جمرہ عقبہ جوكہ مكہ والي جانب ہے ( يہ جمرہ جمرات ميں سے مكہ كےسب سے زيادہ قريب ہے ) كولوبيا كے حجم كے برابر مسلسل سات كنكرياں مارے اور ہر كنكري كے ساتھ تكبير كہے ( جمرہ عقبہ كورمي كرتے وقت سنت يہ ہے كہ جمرہ كوسامنےاور مكہ مكرمہ كو اپنے بائيں جانب اور منى كو دائيں جانب ركھے ) جب رمي سے فارغ ہو تو قرباني كركے سرمنڈائے يا بال چھوٹے كروا لے اگر مرد ہو اور عورت انگلي كے پورے كربرابر اپنے سركےبال كاٹے .

( تواس طرح محرم شخص كا پہلا تحلل ہوگا اس كےليے بيوي سے ہم بستري كے علاوہ باقي سب كچھ حلال ہوگا ) پھر وہ مكہ مكرمہ جائے اور حج كي سعي اور طواف كرے ( پھر تحلل ثاني ہوگا اب اس كے ليے احرام كي بنا پر حرام ہونے والي ہر چيز حلال ہو جائےگي ) .

رمي كرنےاور سر منڈانے كے بعد جب حاجي طواف كے ليے مكہ مكرمہ جانا چاہے تو خوشبو لگانا سنت ہے اس كي دليل عائشہ رضي اللہ تعالى عنھا كا قول ہے وہ بيان كرتي ہيں كہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كواحرام كے ليے احرام باندھنے سے قبل اورحلال ہونے كےليے بيت اللہ كا طواف كرنے سے قبل خوشبو لگايا كرتي تھي . صحيح بخاري ( 1539 ) صحيح مسلم ( 1189 ) .

پھر طواف اور سعي كرنے كے بعد منى واپس پلٹ آئے اور گيارہ اوربارہ تاريخ كي دونوں راتيں مني ميں ہي بسر كرے اور دونوں دن زوال كے بعد تينوں جمرات كو كنكرياں مارے ، افضل يہ ہے كہ رمي كرنے كے ليے پيدل جائے اور اگر سواري پر بھي جائے تو اس ميں كوئي حرج نہيں .

جمرۃ اولي جوكہ جمرات ميں سے مكہ سےسب سے زيادہ دور اور مسجد خيف والي جانب ہے اس جمرہ كومسلسل ايك كےبعد دوسري سات كنكرياں مارے اور ہر كنكري كے ساتھ اللہ اكبر كہے پھر كچھ آگے بڑھ كرلمبي دعا كرے اور جودعا پسند ہو مانگے اور اگر زيادہ دير كھڑا ہونا اور لمبي دعا مانگنے ميں اس كے ليے مشقت ہو تو اسے وہي دعا كرليني چاہيے جو اس كےليے آسان ہو اگرچہ تھوڑي دير ہي دعا كريں تا كہ سنت پر عمل ہو سكے .

پھرجمرہ وسطى ( درمان والے ) ك مسلسل سات كنكرياں مارے اور ہر كنكري كے ساتہ تكبير بھي كہے پھر بائيں جانب ہو اور قبلہ رخ كھڑے ہوكر ہاتھ اٹھائے اگر ميسر ہو تولمبي دعا كرے وگرنہ جتني دير ميسر ہو كھڑے ہو كردعا كرے دعا كے ليے كھڑے نہ ہونا صحيح نہيں كيونكہ وہاں دعا كرنا سنت ہے اور بہت سے لوگ يا تو جہالت كي بنا پر يا پھر سستي وكاہلي كي وجہ سے دعا كرنا چھوڑ ديتے ہيں ، اور جب كبھي سنت كوضائع كرديا گيا ہو تو اس پر عمل كرنا اور اسے لوگوں كے مابين نشر كرنا زيادہ يقيني ہو جاتا ہے تاكہ سنت ترك ہي نہ كردي جائے اور مردہ ہي نہ ہو جائے .

پھر اس كے بعد جمرہ عقبہ ( بڑے جمرہ ) مسلسل سات كنكرياں مارے اور ہر كنكري كے ساتھ تكبير بھي كہے اور وہاں سے ہٹ جائے اور اس كے بعد دعا نہ ما نگے .

جب بارہ تاريخ كي كنكرياں مار چكے تو اگر حاجي چاہے توتعجيل كرتے ہوئے منى سے نكل سكتا ہے اور اگر چاہے تو اس ميں تاخير كرلے اور تيرہ تاريخ كي رات بھي منىميں ہي بسر كرے اور حسب سابق زوال كے بعد تيرہ تاريخ كو بھي تينوں جمرات كو كنكرياں مارے اور تاخير يعني تيرہ تاريخ تك منى ميں ٹھرنا اور كنكرياں مارنا افضل ہے ليكن ضروري اور واجب نہيں .

ليكن اگر بارہ تاريخ كا سورج غروب ہو گيا اور وہ منى سے نہيں نكلا تو اس صورت ميں اس پر تاخير لازم ہوگي حتي كہ دوسرے دن ( تيرہ تاريخ ) زوال كے بعد تينوں جمرات كوكنكرياں مار ے .

ليكن اگر بارہ تاريخ كا سورج غروب ہوا تو وہ بغير اپنے اختيار كے منى ميں ہي تھا وہ اس طرح كہ وہ وہاں سے نكل پڑا ليكن گاڑيوں كےرش وغيرہ كي بنا پردير ہوگئي تو اس كےليے تاخيركرني ( تيرہ كي رات وہاں ٹھرنا ) لازمي نہيں اس ليے كہ غروب شمس تك تاخير اس نے اپنے اختيار سے نہيں كي .

اور جب مكہ مكرمہ سے حاجي اپنے ملك روانہ ہونا چاہے تو وہاں سے طواف وداع كے بغير نہ نكلے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے :

كوئي ايك بھي (مكہ مكرمہ سے ) نہ نكلے حتي كہ اس كا آخري كام بيت اللہ كا طواف ہو . صحيح مسلم حديث نمبر ( 1327 )

اور ايك روايت ميں ہے كہ : رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كوحكم ديا كہ ان كا آخري كام بيت اللہ كا طواف ہونا چاہيے ليكن آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے حائضہ عورت سے اس كي تخفيف كردي . صحيح بخاري حديث نمبر ( 1755 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1328 )

لھذا حائضہ اور نفاس والى عورتوں طواف وداع نہيں اور نہ ہي ان كے لائق ہے كہ وہ وداع كےليےمسجد حرام كے دروازے كےپاس كھڑي ہوں كيونكہ ايسا كرنا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں .

جب حاجي مكہ مكرمہ سے سفر كرنے كا ارادہ كرے تواسے سب سے آخري كام بيت اللہ كا طواف كرنا چاہيے اور طواف وداع كےبعد اپنے مرافقين اور سامان وغيرہ اٹھوانے كا انتظار كرے يا راستے سے كوئي خريداري كرلے تواس ميں كوئي حرج والي بات نہيں اور اسے طواف دوبارہ نہيں كرنا پڑے گا ليكن اگر اس نے سفر كا ارادہ ملتوي كرديا مثلا اس كي نيت تھي كہ وہ صبح كے وقت سفر كرے گا تو ا س نے طواف وداع كرليا ليكن پھر اس نے دن كے آخرتك سفر كو مؤخركرديا تواسے طواف وداع دوبارہ كرنا ہوگا تاكہ اس كا آخري كام بيت اللہ كا طواف ہو .

فائدہ :

حج كا عمرہ احرام باندھنے والے شخص كے ليے مندرجہ ذيل اشياء ضروري اور واجب ہيں :

1-اللہ تعالى نے جوكچھ اس پر واجب كيا ہے اس كا التزام كرے مثلا : وقت ميں نمازوں كي باجماعت پابندي .

2-اللہ سبحانہ وتعالي نے جن اشياء بيوي سے ميل ملاپ ، لڑائي جھگڑا اورفسق وفسجور اور نافرماني سے منع فرمايا ہے اس سے اجتناب كرے كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے :

حج كےمہينے مقرر ہيں اس ليے جوشخص بھي ان ميں حج لازم كرلے وہ دوران حج اپني بيوي سے ميل ملاپ كرنے ، گناہ كرنے اور لڑائي جھگڑا كرنے سے بچتا رہے البقرۃ ( 197 )

3- مشاعر مقدسہ وغيرہ ميں مسلمانوں كوزبان اور فعل سے اذيت وتكليف دينے سے اجتناب كرے .

4- احرام كي سب ممنوع كردہ اشياء سے اجتناب كرے .

( ا ) احرام كے بعد بال يا ناخن وغيرہ نہ كٹوائے ليكن كانٹا وغير نكالنے ميں كوئي حرج نہيں اگرچہ كانٹا نكالتے وقت خون بھي نكل آئے تو پھر بھي حرج والي بات نہيں .

( ب ) احرام كےبعد اپنے بدن اور كپڑے يا كھانے يا پينے وغيرہ ميں خوشبو نہ لگائے اور نہ ہي خوشبووالا صابن ہي استعمال كرے ، ليكن اگر احرام سے قبل سے خوشبو لگائي ہو اور احرام كے بعد بھي اس كے آثار باقي ہيں تو اس ميں كوئي نقصان نہيں .

( ج ) شكار نہ كرے .

( د ) بيوي سےہم بستري ومباشرت نہ كرے .

( ھ ) بيوي سے شہوت كےساتھ ميل ملاپ بھي نہ كرے اور نہ ہي بوس وكناروغيرہ كرے .

( و ) نہ تو اپنا نكاح كرے اور نہ ہي كسي دوسرے كا اور نہ ہي اپني اور نہ كسي دوسري كي منگني كرے .

( ز ) دستانے نہ پہنے ليكن ہاتھوں پر كپڑا وغيرہ لپيٹنےميں كوئي حرج نہيں .

مرد و عورت دونوں كے ليے يہ سات اشياء ممنوعات احرام ميں سے ہيں .

مندرجہ ذيل اشياء مرد كے ساتھ خاص ہيں :

- كسي ايسي چيز كےساتھ سرنہ ڈھانپے جوسر كےساتھ لگي ہوئي ہو ليكن چھتري سے سايہ كرنا اور گاڑي كي چھت اور خيمہ اورسرپر سامان اٹھانے ميں كوئي حرج نہيں .

- نہ تومحرم شخص قميص پہنے اور نہ ہي پگڑي اور برانڈي اور پائجامہ اور نہ موزے ليكن جب اسے تہ بند ( نيچے باندھنے والي چادر) نہ ملے تو پائجامہ پہن سكتا ہے اور اور جوتا نہ ملنے كي صورت ميں موزے پہننے جائز ہيں .

- اور نہ ہي وہ اشياء پہنے جومندرجہ بالا اشياء كے معني ميں ہوں لھذا نہ تو جبہ اور نہ ہي برانڈي اور بنيان وغيرہ پہنے گا .

- مرد كے ليے جوتے اور انگوٹھي پہنني عينك اور آلہ سماعت لگانا اور ہاتھ ميں گھڑي پہننا يا گلے ميں لٹكانا اورپيسےوغيرہ ركھنے كےليے پيٹي باندھنا جائز ہے .

- بغير خوشبو والي اشياء سے (ہاتھ وغيرہ )دھو سكتا ہے اور چہرہ بدن اور سر دھو سكتا ہے اور اگر بغير قصد كے خود ہي بال گرجائے تو اس پر كچھ لازم نہيں آئے گا .

اور عورت نہ تو نقاب كرےگي نقاب اسے كہتے ہيں جس سے چہرہ ڈھانپا جائے اور آنكھوں كے ليے سوراخ ہوں ، اور اسي طرح عورت برقع بھي نہيں پہنے گي .

عورت كےليے سنت يہ ہے كہ احرام كي حالت ميں اپنا چہرہ ننگا ركھے ليكن اگر اسے غير محرم مرد ديكھ رہے ہوں تو اس كے ليے احرام كي حالت وغيرہ ميں بھي چہرہ ڈھانپنا واجب ہے ...

ديكھيں كتاب مناسك الحج للالباني اور كتاب صفۃ الحج والعمرۃ اور كتاب المنھج لمريد العمرۃ والحج لابن عثيمين رحمھم اللہ الجميع .

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات