جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

بالوں كى كٹنگ كى اشكال

3364

تاریخ اشاعت : 28-01-2009

مشاہدات : 9455

سوال

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بالوں كى شكل كيا تھى، اور حرام اشكال كون سى ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بالوں كے وصف كے متعلق كئى ايك احاديث وارد ہيں اور ان ميں كئى اوصاف بيان ہوئے ہيں:

1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال نہ تو بالكل گھنگريالے تھے اور نہ ہى بالكل سيدھے تھے.

انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اوصاف بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم قوم ميں درميانہ قد تھے، نہ تو طويل اور نہ ہى چھوٹے قد كے مالك تھے، آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا رنگ غلابى تھا، نہ تو بالكل چمكتا ہوا سفيد تھا، اور نہ ہى شديد گندمى تھا، نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال بالكل گھنگريالے تھے، اور نہ ہى بالكل سيدھے تھے، آپ صلى اللہ عليہ وسلم پر جب وحى كا نزول ہوا تھا آپ كى عمر چاليس برس تھى .... "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3354 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2338 ).

امھق: شديد سفيدى كو كہتے ہيں.

آدم: شديد گندمى رنگ كو كہتے ہيں.

2 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال آپ كے كانوں كى لو تك پہنچ رہے ہوتے تھے.

براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ درميانہ قد كے مالك تھے، اور آپ كى كمر مبارك سے اوپر كندھوں كا درميانى حصہ چوڑا تھا، آپ كے بال كانوں كى لو تك پہنچ رہے ہوتے، ميں نے انہيں سرخ جوڑے ميں ديكھا تو ان سے كوئى اور زيادہ چيز خوبصورت نہ ديكھى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3358 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2337 ).

3 - اور بعض اوقات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال آپ كے كندھوں تك پہنچ جاتے تھے.

ابو قتادہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بالوں كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے فرمايا:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايسے آدمى تھے جن كےبال نہ تو بالكل گھنگريالے تھے اور نہ ہى بالكل سيدھے تھے، اور بال آپ كے كانوں اور كندھوں كے درميان تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5565 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2337 ).

اور روايت ميں يہ الفاظ ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال آپ كے كندھوں كو چھو رہے ہوتے تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5563 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2338 ).

اور بعض اوقات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال اس سے چھوٹے ہوتے، يہ سب حالات پر محمول ہے، اور ہر صحابى نے جو ديكھا وہى بيان كر ديا.

4 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بعض اوقات اپنے بالوں كو خضاب لگايا كرتے تھے.

عثمان بن عبد اللہ موھب بيان كرتے ہيں كہ ميں ام المومنين ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس گيا تو انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بالوں ميں سے ايك بال نكالا جو كہ خضاب شدہ تھا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5558 ).

اور ايك روايت ميں يہ الفاظ زائد ہيں:

" مہندى اور كتم كے ساتھ رنگے ہوئے تھے "

مسند احمد حديث نمبر ( 25328 ).

الكتم: ايك بوٹى ہے جس كو مہندى ميں ملا كر بال رنگے جاتے ہيں، اور اس سے سياہى اور سرخى كا درميانہ رنگ بن جاتا ہے.

ديكھيں: عون المعبود حديث نمبر ( 4205 ) كى شرح.

5 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے بالوں كى مانگ نكالا كرتے تھے.

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے بالوں كا سدل كيا كرتے تھے، اور مشرك اپنے سروں كى مانگ نكالا كرتے تھے، اور اہل كتاب اپنے سر كے بالوں كا سدل كيا كرتے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اہل كتاب كى موافقت كرنا پسند كرتے جب تك كہ اس ميں كوئى حكم نہ ديا گيا ہوتا، اور پھر بعد ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے سر كے بالوں كى مانگ نكالنا شروع كر دى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3365 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2336 ).

حديث ميں وارد الفاظ كے معانى:

" السدل " بال پيشانى پر لٹكانا.

الفرق: سر كے درميان سے بالوں كو ايك دوسرے عليحدہ يعنى دائيں بائيں كرنا.

علماء كرام نے اس حديث پر بحث و تمحيث كى جس كا خلاصہ امام نووى كے درج ذيل قول ميں ہے:

" حاصل يہ ہوا كہ: صحيح اور مختار يہ ہے كہ سدل اور فرق دونوں جائز ہيں، ليكن فرق يعنى مانگ نكالنا افضل ہے "

ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 15 / 90 ).

6 - اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجۃ الوداع كيا تو آپ نے اپنے سر كے بالوں كى تلبيد كى ہوئى تھى.

اور تلبيد يہ ہے كہ: بالوں كو كوئى جوڑنے والى ( چپكانے والى ) چيز لگا كر ايك دوسرے كے ساتھ چپكا ديا جائے، تا كہ بال اكٹھے رہيں اور گندے ہونے سے بچے رہيں اور انہيں دھونے كى ضرورت پيش نہ آئے، اس ليے كہ يہ احرام والے شخص كے ليے آسان ہے، خاص كر پہلے دور ميں تو سفر وغيرہ كى صعوبتوں كى بنا پر احرام والے شخص كو پانى كى قلت اور گرد و غبار كا بہت زيادہ سامنا كرنا پڑتا تھا.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اپنے بال تلبيد كيے ہوئے تلبيہ كہتے ہوئے ديكھا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5570 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1184 ).

الاھلال: اونچى آواز سے تلبيہ كہنے كو كہتے ہيں.

7 - اور بعض اوقات رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے بالوں كى كئى ايك چٹيا بنا ليا كرتے تھے، خاص كر سفر ميں تا كہ گرد و غبار سے محفوظ رہ سكيں.

ام ھانئ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مكہ تشريف لائے تو آپ نے اپنے سر كے بالوں كى چار چٹيا كى ہوئى تھيں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1781 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4191 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3631 ).

اور ابن ماجہ ميں تعنى: الضفائر كے لفظ ہيں. اور اس حديث كو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ( 10 / 360 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور بالوں كى حرام اشكال كئى ايك امور ميں جمع ہيں، جو ذيل ميں بيان كيے جاتے ہيں:

1 - القزع:

يعنى سر كے كچھ بال مونڈنا اور كچھ رہنے دينا.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے القزع يعنى سر كے كچھ بال مونڈنے اور كچھ ترك كرنے سے منع فرمايا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5466 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 3959 ).

حديث كے ايك راوى نے القزع كى شرح كرتے ہوئے كہا ہے كہ: بچے كے سر كے كچھ بال مونڈ دينا اور كچھ نہ مونڈنا.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" سر كےكچھ بال مونڈنا اور كچھ رہنے دينے كے كئى مرتبے ہيں:

سب سے شديد يہ ہے كہ سر كا درميان والا حصہ مونڈ ديا جائے اور اطراف كو نہ مونڈا جائے، جيسا كہ عيسائى پادرى كرتے ہيں.

اور اس سے محلق يہ قسم بھى ہے كہ سر كى اطراف اور جانب سے بال مونڈ ديے جائيں اور درميان كا حصہ رہنے ديا جائے، جيسا كہ بہت سارے بے وقوف اور اخلاق سے گرے ہوے گندے لوگ كرتے ہيں.

اور اس سے ملحق يہ بھى ہے كہ سر كا اگلا حصہ مونڈ ديا جائے اور پچھلا حصہ رہنے ديا جائے.

يہ تينوں صورتيں القزع ميں شامل ہوتى ہيں جس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہے، اور بعض ايك دوسرے سے زيادہ قبيح ہيں "

ديكھيں: احكام اھل الذمۃ ( 3 / 1294 ).

2 - كفار يا فاسق قسم كے لوگوں سے مشابہت اختيار كرنا.

اس كى بہت سارى اشكال ہيں، كچھ تو القزع ميں داخل ہوتى ہيں مثلا ميرين كٹ اس طرح بال بنوانے جائز نہيں اس كے دو سبب ہيں، ايك تو يہ القزع ميں شامل ہوتا ہے، اور دوسرا كفار سے مشابہت ہوتى ہے، اور بعض شكليں ايسى ہيں جس ميں القزع تو نہيں ليكن اس ميں كفار سے مشابہت ضرور ہوتى ہے، اور يہ كفار كے ساتھ مخصوص ہيں، مثلا كچھ بال كھڑے ركھنے، اور باقى كو لٹكا دينا يا اس طرح كى اور اشكال.

چنانچہ جو بال كٹوانے كى اشكال كفار يا فاسق قسم كے افراد كے ساتھ مخصوص ہيں مسلمان شخص كے ليے اس طرح كے بال كٹوانے جائز نہيں، كيونكہ اس ميں مشابہت ہوتى ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4031 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ( 10 / 171 ) ميں اور شيخ الاسلام نے اقتضاء الصراط المستقيم صفحہ ( 82 ) ميں اس حديث كى سند كو جيد قرار ديا ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اس حديث كى كم از كم حالت يہ ہے كہ كفار سے مشابہت كى بنا پر تحريم كا تقاضا كرتى ہے، اگرچہ اس حديث كا ظاہر كفار سے مشابہت اختيار كرنے والے كے كفر كا مقتضى ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كے اس فرمان ميں ہے:

اور جو كوئى بھى تم ميں سے ان كے ساتھ دوستى لگائيگا تو وہ انہي ميں سے ہے .

ديكھيں: اقتضاء الصراط المستقيم ( 83 ).

اخلاق سے گرے ہوئے غلط قسم كےلوگوں سے مشابہت:

يہ وہ اشكال ہيں جو بعض بےوقوف اور سافل قسم كے لوگ اختيار كرتے ہيں، اور ہو سكتا ہے يہ بھى مندرجہ بالا مذكورہ اقسام ميں داخل ہوں.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 14051) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات